ایف سولہ حادثہ۔۔۔آخر پائلٹ نے ایجیکٹ کیوں نہ کیا؟؟؟

جمعہ 13 مارچ 2020

Sahibzada Asif Raza Miana

صاحبزادہ آصف رضا میانہ

11 مارچ بدھ کے دن پاک فضائیہ کے ایف سولہ طیارے کے حادثے سے دوچار ہونے سے پوری قوم غمزدہ ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا پر حادثے کی مختلف زاویوں سے لی گئی فوٹیجز وائرل ہیں۔ وڈیو بنانے والوں کے گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ جس طیارے کے فضا میں ہونے والے کرتب وہ اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر رہے ہیں وہی طیارہ چند سیکنڈز بعد زمین پرکریش ہو کر آگ اور دھویں میں بدلنے والا ہے۔ حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر ہر طرح کا ردعمل سامنے آیا ہے مجموعی طور پر عوام نے حادثے پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا تو وہیں کچھ صارفین نے 23 مارچ پیریڈ منسوخ کرنے اور کچھ نے پریڈ میں فلائی پاسٹ اور طیاروں کے کرتب بند کرنے کی بھی رائے دی ہے۔ مگر ایک سوال سب کے ذہنوں میں ابھی بھی گردش کر رہا ہے کہ جب پائلٹ کے پاس ایجیکٹ کرنے کا آپشن موجود تھا تو پائلٹ نے اس موقع سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے گرتے ہوئے طیارے سے ایجیکٹ کر کے اپنی جان کیوں نہ بچائی؟؟ جب طیارے کا پائلٹ ہنگامی صورت حال میں طیارے کو چھوڑ کر اس سے برق رفتاری سے باہر کود جاۓ تواسے "ایجیکٹ" کرنا کہتے ہیں.

 
تو آخر ونگ کمانڈر نعمان اکرم نے ایجیکٹ کیوں نہ کیا؟  اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ہمیں F -16  طیارے اور اس کے پائلٹ دونوں کی صلاحیت اور استعداد کو جاننا اورحادثے کی نوعیت کو سمجھنا ضروری ہے پھر ہی ہم اس بارے میں کوئی رائے قائم کر سکتے ہیں۔

(جاری ہے)


F -16  طیارہ آخر ہے کیا؟
F -16  امریکی کمپنی Lockheed Martin کا تیار کردہ سنگل انجن والا ملٹی رول اور آواز کی رفتار سے تیز رفتار سے اڑنے کی صلاحیت رکھنے والا لڑاکا طیارہ ہے جودن اور رات اور کسی بھی موسم اور کسی بھی جغرافیائی صورت حال میں لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے.

یہ طیارہ سپرسونک طیاروں میں سب سے کامیاب طیارہ تصور کیا جاتا ہے تبھی 1976 میں اپنی پہلی ٹیسٹ فلائٹ سے آج تک یہ کمپنی 4500 سے زیادہ طیارے بنا چکی ہے جو اس وقت دنیا کے  26  ممالک کی ایئر فورس استعمال کر رہی ہیں.
طیارے کی دیگر خصوصیات کے ساتھ ساتھ اس کی شیشے سے بنی کاک پٹ کنوپی اسے دوسرے طیاروں  سے منفرد بناتی ہے جو پائلٹ کوبغیر کسی رکاوٹ  360 ڈگری کا  View  دیتی ہے اورکاک پٹ کی دوسری خصوصیت اس میں لگی Zero -Zero ایجکشن سیٹ ہے.

F -16 طیارے کے لئے یہ ایجکشن سیٹ
بطور خاص  بنائی گئی ہے. Zero -Zero ٹیکنالوجی ہنگامی حالت میں  کو  زیرومیٹرکی بلندی اورزیرو سپیڈ سے حتی کہ زمین پر کھڑے جہازسے بھی پائلٹ کو باہر نکلنے کی صلاحیت رکھتی ہے. ایجکشن ہینڈل کھینچنے پرسب سے پہلے کنوپی اڑکر الگ ہوتی ہے اور سیٹ کے نیچے لگا راکٹ سیٹ اور پائلٹ کو زیرو سے 1400 کلومیٹر فی گھنٹہ کی سپیڈ سے اڑا کر جہازسے 115 میٹر سے لے کر 200 میٹر دور محفوظ فاصلے پر نکال پھینکتا ہے اورپھر پیراشوٹ کھلنے کے بعد پائلٹ زمین پر محفوظ طریقے سے اتر سکتا ہے.


ونگ کمانڈر نعمان اکرم کتنے ماہر اور پروفیشنل پائلٹ تھے ؟
حادثے میں شہید ہونے والے ونگ کمانڈر نعمان اکرم کا شمار پاک فضائیہ کے صف اول کے ماہر ہوا بازوں میں ہوتا تھا. ان کا تعلق پاک فضائیہ کے نمبر 9 سکواڈرن سے تھا. پاک بھارت جنگوں میں داد شجاعت حاصل کرنے اور 5 ستارہ جرات کے اعزاز حاصل کرنے والے نمبر 9 سکواڈرن کو پاک فضائیہ میں سب سے سینئر اور ایلیٹ سکواڈرن سمجھا جاتا ہے.

نمبر 9 سکواڈرن کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اسے کمانڈ کرنے والے 7 افسران ایئر چیف کے رینک تک پہنچے ہیں. شہید ونگ کمانڈر نعمان اکرم اسی سکواڈرن کا حصہ تھے. اتنے مایہ ناز سکواڈرن کا حصہ بننا ہی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی تھا کہ وہ ایک ماہر فائٹر پائلٹ تھے. پاک فضائیہ اپنی حربی استعداد کو جانچنے کے لئے انٹر سکواڈرن چیمپئن شپ کا انعقاد کرواتی ہے جس میں ہر سکواڈرن سے 4 فائٹر پائلٹ حصہ لیتے ہیں.

جو پائلٹ ہتھیاروں کے بہترین استعمال اور ہدف پر نشانہ بازی میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرتا ہے اس پائلٹ کو شیر افگن ٹرافی اور اس سکواڈرن کو پہلی پوزیشن حاصل ہوتی ہے. ونگ کمانڈر نعمان اکرم نے اس مقابلے میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاۓ اور نہ صرف خود شیر افگن ٹرافی حاصل کی بلکہ اپنے سکواڈرن کو پہلی پوزیشن حاصل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا.

صرف یہی نہیں پچھلے سال جب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پی اے ایف بیس مصحف سرگودھا کا دورہ کیا اور انہوں نے F -16 طیارے میں اڑان بھرنا تھی تو آرمی چیف کے طیارے کو اڑانے کے لئے جس پروفیشنل فائٹر پائلٹ کا انتخاب کیا گیا وہ ونگ کمانڈر نعمان اکرم ہی تھے.وہ ایک انتہائی کہنہ مشق اور ماہر پائلٹ تھے اور یہ ان کی پیشہ وارانہ صلاحیتیں ہی تھی جن پر مکمل اعتماد کرتے ہوے پاک فضائیہ نے انھیں 23 مارچ کے پاک فضائیہ کے فلائی پاسٹ میں F -16 طیارے کے فضا میں اپنی مہارت کے جوہر دکھانے کے لئے متخب کیا تھا.

 
تو حادثہ آخر ہوا کیسے ؟؟
اس حادثے کے بارے میں حتمی طور پر کوئی راۓ دینا ابی قبل از وقت ہے کیوں کہ پاک فضائیہ کا بورڈ آف انویسٹیگیشن اس حادثے کی تمام پہلوؤں سے تحقیقات کر رہا ہے تاہم سوشل میڈیا پر جو فوٹیجز وائرل ہی ہیں ان میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پائلٹ تیزی سے جہاز کو اپر لے کے جاتے ہیں اور اس کے بعد جہاز نیچے آنا شروع کرتا ہے یہ وہ پوانٹ ہے جہاں ماہرین کے اندازے کے مطابق شہید پائلٹ G - Loc کیفیت میں داخل ہوے.

G - Loc (Gravitation Force Loss of Consciousness ) سے مراد وہ کیفیت جب پائلٹ بہت تیزی سے جہاز کو بلند کرتا ہے زمین کے کشش ثقل کی قوت سے دماغ اور سر سے خوب ک بہاؤ بہت تیزی سے ٹانگوں کی طرف ہو جاتا ہے جس سے ایک لمحے کو پائلٹ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے. آگے چل کے ویڈیو  میں دیکھا جا سکتا ہے پائلٹ G - Loc  کی کیفیت سے باہر آتے ہیں اور جہاز پر دوبارہ کنٹرول کرتے ہیں.  اس دوران جہاز کی بلندی کم ہو جاتی ہے اور جہاز کا پچھلا حصہ بجلی کی ہائی ٹرانسمیشن لائن سے ٹکراتا ہے اور اس میں آگ لگ جاتی ہے.

اور پھر اس کے بعد طیارے کا اگلا حصّہ زمین سے ٹکراتا ہے اور اس میں آگ لگتی ہے. حادثے کی وجہ کوئی بھی ہو مگر ایک بات واضح ہے کہ اگر آپ ویڈیو کو شروع سے آخر تک دیکھا جاۓ تو معلوم ہوتا ہے کہ آخر وقت تک جہاز کی کنوپی جہاز سے الگ نہیں ہوتی جس کا مطلب ہے پائلٹ جہاز سے ایجیکٹ نہیں کرتا.  
تو آخر پائلٹ نے ایجیکٹ کیوں نہیں کیا؟
یہ وہ سوال ہے جس کا جواب جاننے کے لئے ہر کوئی بے چین ہے.

اس سوال کا صحیح جواب تو پائلٹ ہی دے سکتے ہیں کہ انہوں نے ایجیکٹ کرنے کا آپشن کیوں استعمال نہ کیا اور اپنی جان دینے کو ترجیح دی. ایجیکٹ نہ کرنے بارے مختلف وجوہات کے اندازے لگاۓ جا رہے ہیں.سب سے اہم وجہ قربانی کا جزبہ ہے جس کی بنا پر انہوں نے ایجیکٹ نہیں کیا یہی قربانی کا جزبہ ایک فائٹر پائلٹ کی تربیت کا بنیادی جزو ہوتا ہے جو اسے دوران ٹریننگ ہی اس کے اندر پیدا کیا جاتا ہے کہ اگر خدا نخواستہ کوئی ایسی ہنگامی صورت حال ہو جانے کہ جہاز سے ایجیکٹ کرنے کی نوبت آے تو یہ کوشش  کی جانے کہ جہاز انسانی آبادی سے دور گرے تاکہ لوگ اس گرتے جہاز کی زد میں نہ آ جائیں.

شہید ونگ کمانڈر پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے پوش علاقے کے اوپر 23 مارچ پریڈ کی ریہرسل کر رہے تھے جس کے نیچے بلو ایریا جیسے پوش ایریا ، لوک ورثہ میوزیم، وزارت خارجہ کا دفتر اور G-6  اور G -7 جیسے رہائشی علاقے تھے. ایک F -16 طیارے میں 450 گیلن یا 1700 لیٹر کے قریب جیٹ فیول ہوتا ہے. آپ اندازہ کریں اگر خدا نخواستہ اس مقدار میں ایندھن والا جہاز اگر کسی کمرشل یا رہائشی علاقے پر گر جاتا تو کیا قیامت برپا ہوتی.


شہید پائلٹ جہاز کی Zero -Zero ایجکشن سسٹم سے آپشن سے بخوبی واقف تھے مگر شاید جلتے جہاز کو شہریوں کے اوپر گرتا چھوڑ کے خود ایجیکٹ کر جانا ان کو میدان چھوڑ کر بھاگ جانے جیسی بزدلی اور اپنے وطن سے بے وفائی لگا اسی لیے انہوں نے آخری وقت تک ہار نہیں مانی، ہمّت نہیں ہاری اورایجیکٹ نہیں کیا اور موت کو گلے لگا لیا صرف اسی کوشش میں کہ دوسرے لوگ محفوظ رہ سکیں اور وہ کسی بھی طرح اس قوم کے 16 ملین ڈالرز کے قیمتی اثاثے کو کریش لینڈنگ کر کے بچا لیں مگر وہ شاید بھول گۓ کہ جہاز بیشک قوم کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں مگر یہ اثاثے خریدے،  بناۓ  اور اپ گریڈ کیےجا سکتے ہیں مگر نعمان اکرم جیسے کسی کے شوہر کسی کے باپ کسی کا بیٹا کسی کا بھائی "انمول" اثاثہ ہوتے ہے جو دنیا کی کسی مارکیٹ سے مول خریدے نہیں جا سکتے اورایسے ہی بیٹوں کے بارے میں صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم نے لکھا تھا " اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے"
الله پاک شہید کے درجات بلند کریں اور ان کے اهل خانہ کو صبر جمیل عطافرمائیں.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :