برسات، لمبے دعوے اور لمبے بوٹ

جمعہ 23 اگست 2019

Sahibzada Asif Raza Miana

صاحبزادہ آصف رضا میانہ

سردار جی آج بہت خوش  تھے. آج  ایک مدت  بعد ان کا بھتیجا گاؤں سے ولایت  اپنےچچا سے ملنے آیا تھا. سردار جی نہ جیسے ہی گھر کی چوکھٹ سے پاؤں باہر  نکالا ان  کے چہرے کی مسکان کی جگہ پریشانی نے لے. مہمان نے فکر اور تجسس بھری نظروں سے ہچکچاتے ہوے پریشانی کی وجہ پوچھی تو سردار جی نے دروازے کے سامنے پڑے کیلے کے چھلکے کی طرف اشارہ کرتے ہوے آسمان کو دیکھا اور نہایت معصومیت سے بولے " ہاے او میرے آ ربّا..

اج فر پھسلنا پے گا !!!      
یہ محض ایک چٹکلہ یا لطیفہ نہیں بلکہ در حقیقت یہ ہمارے رویے ،نفسیات اور اپروچ کا عملی ترجمان ہے.مسائل اور انسانی معاشرے کا ازل سے گہرا تعلق رہا ہے. جہاں انسان ہوگا وہاں پر مسائل بھی جنم لیں گے.

(جاری ہے)

مسائل کسی بھی نوعیت کے کیوں ِ نہ ہوں ان  کو حل کرنے کی "اپروچ"  فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے. انسان ان مسائل کے لیے کس طرح کی  "اپروچ " استعمال کرتا ہے یہ بات آگے چل کر انسانوں، قوموں اور تہذیبوں کے مستقبل کا تعیّن کرتی ہے .

آپ موہنجو ڈرو اور ہرپہ کی مثالیں لیں . ان تہذیبوں کے لوگوں نے مقامی موسمیاتی حالات کا جائزہ لیا. شدید گرمی اور مون سون کی تیز بارشیں اس خطے کے دو بڑے مسائل تھے. یہاں کے لوگوں کے پاس دو آپشن تھے. ایک یہ کہ وہ ان مسائل کو قدرتی آفات تسلیم کرتے ہوے ہمت اور کوشش کا دروازہ بند کر دیتے اور خود کو اور اپنی نسلوں کو بے رحم موسموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے یا پھر ان موسمیاتی مسائل کے حال کے لئے منصوبہ بندی کرتے.

انہوں نے ان مسائل کے حل کا آپشن لیا. انہوں نے وادی سندھ کی جھلسا دینے والی گرمی سے بچنے اور شدیدبارشوں والے مون سون سسٹم سے بچنے کے اپنے شہروں کے  آرکیٹکچرل سسٹم کو مقامی موسموں کے مطابق ڈیزائن کیا . گھروں میں روشن دان اورگلیوں میں انڈرگراوند سیوریج سسٹم انہی مسائل کے حل تھے جو ان لوگوں نے ہی ایجاد کیے.  .موہنجو ڈرو کے لوگ اپنے شہروں کے بارے میں کتنے فکر مند اور اپنے لوگو سے کس قدر مخلص تھے اس بات کا اندازہ اپ اس بات سے بخوبی لگا سکتے ہیں کے موہنجو ڈرو کے دور کا بچھایا ہوا سیوریج سسٹم 4700 سال بعد آج بھی  اکیسویں صدی میں بسنے والے  پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور  معاشی مرکز کراچی کے سیوریج سسٹم سے  بہتر  حالت میں ہے جو  پچھلے 3 روز سے 50  ملی لیٹر بارش کا بوجھ نہیں برداشت کر سکا اور پورا شہر تین دن بارش کے  پانی میں ڈوبا رہا ہے اور  یہی نہیں یہ بارش اذیت کے ساتھ  کراچی میں 22 زندگیاں بھی نگل چکی ہے .

مگر اصل  المیہ یہ ہے کہ یہ حال صرف کراچی کا نہیں ہے کم و بیش یہی حال حیدرآباد کا ہے جو سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے اور ایسا ہی حال لاہور کا تھا. اگر یہ حال پہلی بار ہوا ہوتا تو ہم بڑے آرام سےموسموں کے پھیر بدل یا  گلوبل وارمنگ کو کوس کر سارا ملبہ اس پر ڈال کر بری الزمہ ہو جاتے مگر یہ انفارمیشن کا دور ہے اور سب جانتے  ہیں کہ 15 جون سے 30 اگست تک چلنے والی یہ بارشیں مون سون سسٹم کا نتیجہ ہیں جو اس سال سے نہیں ہزاروں برسوں سے اس خطے میں ہوتی چلی آ رہی ہیں.

یوں ہزاروں سال  سے ہمیں پتا ہے کہ جون سے ستمبر میں بارشوں نے آنا ہے اور ہم پورا سال ہاتھ پا ہاتھ رکھ کر جون جولائی کا انتظار کرتے ہیں اور مون سون آتے ہی  بارشوں اور سیلاب میں اپنے  شہروں، ہم وطنوں اور ان کے گھروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے ڈوبتا ہوا دیکھتے ہیں. ہم سردار جی کی طرح ہر سال کیلے کے چھلکے کی صورت میں سامنے آتے بارش اور سیلاب کو دیکھ بھی رہے ہوتے ہیں اور اس پریشانی کا حل نکالنے کی بجاے حقیقت سے آنکھیں چراتے ہوے ہر سال لاشیں بھی اٹھاتے ہیں اور یہی کہ رہے ہوتے ہیں کہ اس سال پھر ڈوبنا پڑے گا.  آخر کب تک ہم لاشیں اٹھاتے راہیں گا اور کب ہم اپنے ماضی سے سبق سیکھ کر اپنا مستقبل بہتر بنانا سیکھیں گے.؟
دنیا نے شدید بارشوں کا حل کس طرح نکالا یہ دیکھنے کے لئے آپ پیرس کی مثال سامنے رکھیں.

پیرس میں کراچی سے کئی گنا زیادہ سالانہ 637  ملی لیٹر بارش ہوتی ہے .آپ فرنچ انجینئرز کی دور اندیشی ملاحظه کریں کہ انہوں نے یہ اندازہ کر لیا تھا کہ اگر انہوں نے پیرس کو ایک عالمی معیار کا میٹروپولیٹن سٹی بنانا ہے تو ان کو یہاں کی شدید بارشوں کا مستقل حل نکلنا ہوگا . یوں سن 1370 میں پیرس میں پہلے انڈرگروند سرنگوں پر مشتمل سیوریج سسٹم کی بنیاد رکھی گئی اور انیسویں صدی  تک اس سسٹم کو لگاتار اپ گریڈ کیا جاتا رہا ہے.

پیرس کا زیرزمین سیوریج سسٹم کس قدر شاندار ہے اس بات کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ انجینئرز نے جتنی پیرس شہر کی سڑکوں کی چوڑائی رکھی اتنی ہی زیرزمین سیوریج سرنگ کی چوڑائی رکھی. یہی نہیں یہ سرنگیں سیوریج کے نکاس کے علاوہ بجلی ،گیس ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی سروسز کے لیے بھی کام دیتی ہیں.انجینئرز نے پیرس کی سڑکوں کے نیچے ہو بہو نقشے پر مشتمل  2100 کلو میٹر سرنگوں کا ایک جال بچا دیا جس سے روزانہ 12 لاکھ کیوبک میٹر  پانی پراسیس کرتا ہے اب اس میں اگر روز کا 70 ملی لیٹر  بارش کا پانی بھی شامل کیوں نہ ہو جاۓ نہ ہی گٹر ابلتے ہیں اور نہ ہی بارش کا پانی سڑکوں پر حکومت کا منہ چڑاتا ہے.
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب ہم اپنے بوسیدہ اور دقیانوسی سیوریج سسٹم کو اپ گریڈ کریں گے؟ ہمیں یہ پتہ ہے کہ موجودہ سسٹم کو بدلے بغیر گزارہ نہیں تو ہم اس سسٹم کو تبدیل کیوں نہیں کر دیتے؟ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ ایسے پروجیکٹ کے لیے کھربوں روپے کے فنڈز درکار ہوں گے جو موجودہ ملکی معاشی حالات میں ممکن نہیں ہیں مگر سفر کتنا ہی لمبا اور کٹھن کیوں نہ ہو اس کا آغاز تو 6 انچ کے قدم سے ہی ہوتا ہے.

حکومت اور نہ کچھ نہ سہی اس مسلۓ کو مسلہ تسلیم کرتے ہوا اس کے حل کی کوئی منصوبہ بندی تو شروع کرے.  حکومتیں بدلنے سے کچھ فرق نہیں پڑ سکتاجب تک عملی طور پرسسٹم کو بدلا یا اپ گریڈ نہ کیا جائے.  فرق صرف اتنا پڑے گا کہ کل تک شہباز شریف برسات میں "لمبے بوٹ" پہن کر فوٹو شوٹ کروا رہے تھے اور اس بار عثمان بزدار "لمبی گاڑی" میں کیمروں کے سامنے بیانات دے رہے تھے وہی لاہور تھا وہی برسات تھی سب کچھ وہی تھا فرق تھا تو صرف ناموں کا اور چہروں کا.

اور اگرملک کے اس گلے سڑے انفراسٹرکچر سسٹم کو بدلنے کے لیے کچھ نہ کیا گیا تو اگلے 5 سال بعد مون سون میں وہی برسات میں ڈوبا لاہور ہوگا وہی گھٹنوں پانی میں ڈوبی کراچی کی سڑکیں ہوں گی اورکسی اور پارٹی کا وزیراعلی لمبی گاڑی میں لمبے بوٹ پہن کر لمبے لمبے دعوے کر رہا ہوگا اور بارش میں ٹھٹھرتی عوام اپنے "محبوب قائد" کے ساتھ ساتھ سلفی لے کرفخر محسوس کر رہے  ہوں گے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :