’ ’قتلِ رحیم“ (Euthanasia)!

بدھ 18 نومبر 2020

Saifullah Saify

سیف اللہ سیفی

اس حقیقت کے باوجود کہ ہمیں ایک نہ ایک دن اس دنیا سے رخصت ہونا ہے لیکن پھر بھی ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہمیں کہیں سے”آب حیات“ مل جائے اور ہم تا قیامت زندہ رہیں ۔کچھ لوگ انتہائی بے بسی کے عالم میں، بد ترین معاشی حالات،ذہنی مسائل یا ناقابلِ علاج بیماری سے تنگ ہوکر خودکشی کرلیتے ہیں۔دنیا میں لوگوں کو خود کشی سے روکنے کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے لیکن کوئی بھی حکومت یا معاشرہ اسے روک نہیں سکتا۔

کچھ ترقی یافتہ ممالک نے اس بات پر ضرور غور کیا کہ کم از کم ناقابلِ علاج بیماریوں کی صورت میں لوگوں کو یہ سہولت فراہم کی جائے کہ وہ اپنی مرضی سے موت کو گلے لگالیں۔
اپنی مرضی سے مرنے کے عمل کو دنیا میںEuthanasia کہتے ہیں۔عہدِ حاضر کی ہر زبان میں انگریزی کے الفاظ کا استعمال عام ہے۔

(جاری ہے)

اسی طرح ہماری اُردو میں بھی بے شمار انگریزی اور دیگر زبانوں کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔

کافی سوچ بچار کے بعد Euthanasia کے لیے ہمارے ذہن میں مختلف الفاظ آئے۔اب آپ ان میں سے اپنی سہولت کے مطابق جو بھی مناسب سمجھیں استعمال کرسکتے ہیں۔مثلاً ” مرگِ آساں“، ”قتلِ رحیم“، طلبِ موت“ یا ”مرگِ سہل“
 نیدرلینڈز، دُنیا کا پہلا ملک تھا جس نے 2002 میں ’قتلِ رحیم‘ (Euthanasia) کو قانونی حیثیت دی تھی۔ نیدرلینڈز کے واحد”ڈچ مرگِ آساں کلینک“) (Dutch Euthanasia Clinicکا کہنا ہے کہ 2018 کے مقابلے میں گذشتہ سال اپنی زندگی کو ختم کرنے میں مدد کے خواہاں لوگوں میں 22 فیصد اضافہ ہوا ۔

” ڈچ مرگِ آساں کلینک“ جو ڈاکٹروں کی مدد سے ’ قتلِ رحیم‘ (Euthanasia) یا” طلبِ موت“ کے مراحل انجام دینے میں مدد کرتا ہے، کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال موصول ہونے والی 3,122درخواستیں ، توقع سے کہیں زیادہ تھیں۔
نیدرلینڈز دنیا کے اُن مٹھی بھر ممالک میں سے ایک ہے جہاں ’ قتلِ رحیم‘ (Euthanasia) قانونی ہے اور قانون کے مطابق 12سال سے زیادہ عمر کے تمام ڈچ لوگ اسے استعمال کرنے کے حقدار ہیں ، لیکن اس کے لیے انھیں پہلے سخت معیارپر پورا اترنا ہوگا۔

کلینک مینجر اسٹیون پلائی تر(Steven Pleiter) کا کہنا ہے کہ’ ہمارے پاس ہر دن تقریباً 13،افراد آکر کہتے ہیں کہ ہمارا مزید زندہ رہنا مشکل ہے اور ہمیں اس عمل کی شدید ضرورت ہے‘۔انھوں نے کہا کہ ” طلبِ موت“ درخواستوں کی تعداد 2017 اور 2018 میں معتدل رہی ، لیکن اس کے بعد پچھلے سال یعنی 2019 میں ان کی تعداد میں تیزی آگئی۔
کلینک کی ترجمان، الکے سوارت(Elke Swart) نے خبر رساں ادارے” اے ایف پی“ کو بتایا کہ’ اس تعداد میں اضافے کی ایک وجہ پچھلے سال ایک ڈاکٹر کے خلاف عدالت میں مقدمہ قائم ہونا بھی تھا، جس نے شدید ذہنی جبلت کے انحطاط (ڈیمینشیا) میں مبتلا مریض کی’قتلِ رحیم ‘ میں مدد کے وقت ڈچ قانون میں طے شدہ سخت شرائط کے تحت عمل کرنے میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا تھا۔

غالباًاسی قسم کے مقدمات سے خوف زدہ ہو کر ڈاکٹرز، اب ”طلبِ موت“کی درخواستوں والے مریضوں کو ہمارے کلینک میں بھیج رہے ہیں‘۔حالاں کہ جس ڈاکٹر پر یہ مقدمہ قائم ہوا تھا وہ بعد میں ان الزامات سے بری بھی ہو گیا تھا۔ سوارت نے کہا کہ 2019 میں ’ قتلِ رحیم‘ (Euthanasia)میں اضافے کی وجہ، آبادیاتیDemographic) ( بھی ہوسکتی ہے، کیوں کہ عمر رسیدہ افراد کی کثیر تعداد ’قتلِ رحیم‘ (Euthanasia)کے عمل سے زیادہ اچھی طرح واقف ہوتی ہے۔


کلینک کے منیجر اسٹیون پلائی تر(Steven Pleiter) نے کہا کہ گذَشتہ سال کلینک میں 900 کے قریب درخواستیں نمٹائی گئیں۔لیکن انھوں نے کہا کہ ’ قتلِ رحیم‘ (Euthanasia) میں اضافے نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ کیو ں کہ، دا ہیگ میں قائم ان کا کلینک اس اضافے سے نمٹنے کی جد و جہد کر رہا ہے۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ، 2018 میں ہالینڈ میں صرف 6000 سے زیادہ” مددگار اموات“کی درخواستوں کو نمٹایا گیا، ان میں سے، مرگ آساں کلینک(Euthanasia Expertise Centre) نے 727 معاملات میں مدد کی۔


یاد رہے کہ نیدرلینڈزمیں ’قتلِ رحیم‘ (Euthanasia) کو قانونی حیثیت ملنے کے باوجو د اس عمل کو صرف ڈچ قانون میں طے شدہ سخت شرائط کے تحت ہی انجام دیا جاسکتا ہے۔ جیسے16 سال کی عمر تک کے بچوں کو اپنے والدین اور سرپرستوں کی اجازت کی ضرورت ہے ۔ 16 اور 17 سال کی عمر کے بچوں کے عمل میں والدین کی شرکت لازمی ہے ۔ 18 سال سے زاید عمر کا کوئی بھی ڈچ شہری، ’قتلِ رحیم‘ (Euthanasia) میں مدد طلب کر سکتا ہے ۔

اس کے لیے مریض کو کسی بھی صورت حال میں لازمی طور پر "ناقابل برداشت اور نہ ختم ہونے والے مصائب" کا سامنا کرنا پڑرہا ہو ، اُس نے "دل کھول کر اور پورے یقین کے ساتھ" مرنے کی درخواست کی ہو۔مریض کی رضاکارانہ طور پر ’قتلِ رحیم‘ کی درخواست کی صورت میں ڈاکٹر ایک فعال کردار ادا کرتا ہے ، جس میں مریض کی نسوں کے ذریعے اس کے جسم میں مہلک زہریلا مواد داخل کیا جاتا ہے۔


یورپی یونین میں ہالینڈ، بلجیم اور لکسم برگ وہ تین ممالک ہیں جہاں مرنے میں مدد فراہم کی جاتی ہے۔ بلجیم اور، نیدرلینڈز سخت تکلیف دہ حالات میں نابالغوں کی درخواستوں کو بھی تسلیم کرتے ہیں ، لیکن لکسم برگ میں ایسا نہیں ہے۔سوئٹزرلینڈ ، جرمنی ، فن لینڈ اور آسٹریا مخصوص صورت حال میں معالج کی مدد سے موت (Euthanasia) کی اجازت دیتے ہیں۔ دوسری جانب اسپین ، سویڈن ، انگلینڈ ، اٹلی ، ہنگری اور ناروے جیسے ممالک، انتہائی نا امیدی کی صورت میں بہت سخت شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دیتے ہیں۔

یعنی یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب کوئی مریض لاعلاج مرض میں مبتلا ہوتا ہے اور مصنوعی تغذیہ یا ہائیڈریشن جیسے زندگی کے طویل تر علاج معالجے کا اطلاق نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔
قارئین محترم! بظاہر ”مرگِ آساں“ اتنی آسان نہیں جتنی دکھائی دیتی ہے۔ یہ تمام باتیں ہم نے اُن ترقی یافتہ ممالک کے بارے میں لکھی ہیں جہاں عوام کو دیگر ضروریاتِ زندگی کے ساتھ ساتھ علاج کی تمام سہولتیں میسر ہیں۔

جب ہم اپنے وطن کی جانب دیکھیں تو ایک ندامت اور دکھ کا احساس ہوتا ہے جہاں جعلی دوائیں، ناقص علاج، مہنگی طبی سہولتیں وہ بھی صرف امیروں کے لیے ہیں۔غریب تو بغیر علاج کے سسکتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔لواحقین اسی دکھ میں زندگی گزارتے ہیں کہ ہم اپنے پیاروں کا باقائدہ علاج بھی نہ کرواسکے۔ترقی یافتہ ممالک میں مریض دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اسے اور لواحقین کو یہ تسلی ضرور ہوتی ہے کہ کم از کم علاج میں کوئی کمی نہیں رہی۔جتنی زندگی تھی جی لی! ہمارے اپنے وطن میں ایسا کب ممکن ہوگا، فی الحال تو اس کے امکانات مستقبل قریب یا بعید میں بالکل نظر نہیں آتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :