اُصُولی فیصلہ!

پیر 13 دسمبر 2021

Saifullah Saify

سیف اللہ سیفی

قارِئین محترم، ہم ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصِر ہیں کہ اُصُولی فیصلے کیا ہوتے ہیں۔مثَلاً فلاں حضرت نے دُہْری شہریت چھوڑنے کا اُصُولی فیصلہ کرلیا، فلاں جماعت نے،انتخابات میں حصہ لینے کا اُصُولی فیصلہ کرلیا، حکومت نے دہشت گردوں سے مُذاکَرات کرنے کا اُصُولی فیصلہ کرلیا،پی سی بی نے آئی سی سی سے شکایت نہ کرنے کا اُصُولی فیصلہ کر لیا۔

حکومت نے مہنگائی پر قابو پانے کا اُصُولی فیصلہ کرلیا۔ہم تو اب تک یہی سمجھتے آئے ہیں کہ فیصلے تو بس فیصلے ہوتے ہیں۔اب یہ اِنفرادی ہوں یا اِجتماعی،دُرست ہوں یا غَلَط ،فیصلے کرنے والے تو ہر پہلو کو سامنے رکھ کر قدم اٹھاتے ہیں ۔بعض فیصلے ہنگامی حالات میں اور بعض، بہت سوچ بچار کے بعد کئے جاتے ہیں۔جب بھی کہیں فیصلے کئے جاتے ہیں تو پھر ساتھ میں یہ کیوں لکھا اور کہا جاتا ہے کہ” اُصُولی فیصلہ“ کرلیا گیا؟ کیا دیگر فیصلے غیر اُصُولی ہوتے ہیں؟اب اگر کوئی یہ کہے کہ میں نے اُصُولی طور پر کھانے کا فیصلہ کرلیا، اُصُولی طور پر شادی کا فیصلہ کرلیا، فلاں صاحب کی عَیادَت کرنے کا اُصُولی فیصلہ کرلیا، تو اس کا کیا مطلب ہوا؟
ہمیشہ یہی سنتے آئے ہیں کہ پِرنٹ مِیڈیا کے ذریعے تحریری غَلَطیوں کی دُرُستی میں مدد ملتی ہے۔

(جاری ہے)

ریڈیو کے ذریعے آواز کے اُتار چڑھاوٴ سمیت تَلَفظُّ کی بہتری اور ٹی وی کے ذریعے، دیگر اَدَب و آداب سیکھنے میں مدد ملتی ہے۔گُذَشتہ ڈیڑھ دَہائی سے تو اِن تمام چیزوں کا اُلَٹ ہی دیکھ رہے ہیں۔ جس طرح لوگ ”ڈیرھ اِینٹ کی مسجد“ بنا تے ہیں۔اُسی طرح ہر ایک نے اپنی سہولت کے مطابق ” چار اینٹوں کی اُردُو“ بنا رکھی ہے۔جس کا دل چاہا قلم اُٹھایا اور مضمون دھر دیا۔

کسی نے شاعری میں میر# اور غالب# کو مات دینے کی ٹھان لی۔کسی نے نَثْر نگاری میں دیگر بڑے بڑے ناموں کو نیچا دکھانے کا فیصلہ کرلیا۔ اُردُو ٹی وی چینلز کی نہ صرف بھرمار ہے بلکہ مارا ماری ہے۔اگر اُن کی نشریات کو دیکھیں تو بیش تر پروگراموں کے نام انگریزی میں ہیں۔ میزبانوں کو دیکھ اور سُن کر پیش کار کی قابلیت کا فوری اندازہ ہوجاتا ہے۔
بات شروع کی تھی ”اصولی فیصلہ“ کے استعمال کی۔

ہم نے اُردُو کو یا تو پیچیدہ کردیا ہے یا پھر بے ہُودَہ۔اس کی خوبصورتی اور شائستہ پن کو کہیں دَفْن کردیا ہے۔ہر شخص اپنے آپ میں ماہرِ اُردُو ہے۔اگر آپ نے کسی کا تَلَفُّظ دُرُست کرنے کی گستاخی کردی تو سمجھ لیجئے شامت آگئی۔ہم کوئی پہلے یا آخری دِل جلے نہیں ہیں جن پر ایسا گِریہ طاری ہُواہے ۔یہ اَذِیت ہمارے اَساتِذَہ بھی جھیل چکے ہیں۔

آپ سے بااَدَب درخواست ہے کہ اگر کسی کے پاس ہمارے مخمصے کا کوئی حل ہے تو براہِ کرم ضَرُور تجویز فرمائیں۔چلتے چلتے ایک حیران کُن لفظ کا ذِکْر بھی آپ کی نَذْر۔آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے زیر اہتمام ،چودہویں عالمی اُردو کانفرنس کی افتتاحی تقریب کی خاتون میزبان نے فرمایا: ”روشنیوں کا یہ شہر،صوبہ ِسندھ کا دَارُالخِلافہ ہے۔“ یہ سُن کر ابھی تک عالَمِ اِستِغْراق میں ہیں کہ کیا واقعی صوبہ ِسندھ میں نظام ِخلافت رائج ہو چکا ہے؟ اور کیا اب شہرِ کراچی ، سندھ کے دارالحکومت کی جگہ، دَارُالخِلافہ بن گیا ہے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :