قَلَم یا کمپیوٹر؟

بدھ 22 ستمبر 2021

Saifullah Saify

سیف اللہ سیفی

قَلَم مختلف مواقع پراور کئی حوالوں سے استعمال کیاجاتا ہے،مَثَلاًعِلم کے میدان میں طالبِ عِلم،اَساتِذَہ تدریس کے دوران میں اوردفاترمیں کام کرنے والے حضرات وقتِ ضَرُرَت صرف دستخط کرنے کے لیے،کیو ں کہ آج کل یہ کام کمپیوٹر نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔ویسے تو بعض افراد فیشن کے طور پر کوٹ یا قمیص کی جیب میں سجا کر بھی قَلَم کا اِستعمال کرتے ہیں۔

قَلَمکا سب سے زیادہ اور اَثَر انگیزاستعمال شاعر،اُدَبا،ڈرامانگار،تاریخ نویس،صحافی یاکالم نویس وغیرہ کرتے ہیں۔ان شعبوں سے تعلق رکھنے والے قَلَم کاروں نے، قَلَم کی ایجاد سے لے کر آج تک مُعاشَرَے پر اپنی تحریروں کے گہرے نُقُوش چھوڑے ہیں۔ قَلَم برداروں نے قوموں کی تشکیل اور مُعاشَرَے کو سنوارنے میں ہمیشہ اَہم کردار ادا کیا ہے ۔

(جاری ہے)

آج بھی ترقی یافتہ ممالک، اہلِ قَلَم سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ گو کہ ان حضرات کے قَلَم کی رَوَانی اب کمپیو ٹر کی محتاج ہوتی جا رہی ہے لیکن یہاں پر ہماری مُراد، ان کی تحریروں سے ہے۔ کیوں کہ لکھنے کا ذریعہ و طریقہ بد لا ہے مگر ہر تحریر کے لیے اب بھی یہی کہا جائے گا کے یہ فلاں قَلَم کار کے قَلَم کا کمال ہے۔
 غور طلب سوال یہ ہے کہ کیاآج کے ترقی یافتہ دور میں جہاں لوگوں کے پاس مطالِعے کا شوق نہ ہونے کے برابر ہو، قَلَم کی وہ طاقت قائم و دائم ہے جس کے لیے وہ مشہور ہے؟ ہماری نَظَر میں یہ طاقت و اہمیت آج بھی موجود ہے اور آئندہ بھی برقرار رہے گی ۔

اس کے لیے ضَرُوری ہے کہ اہلِ قَلَم اس طاقت کا استعمال جدید تقاضوں کے مطابق کریں۔دیگر شعبوں کے مقابلے میں ڈراما نگاری اور کالم نویسی کو عہدِ حاضر میں زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔اب اگر ان دو شعبوں کا ایک دوسرے سے مُوازَنَہ کریں توکالم نویسی ڈراما نگاری کے مقابلے میں کافی کمزور دکھائی دیتی ہے لیکن اس کی اہمیت آج بھی بر قرار ہے۔ایک ڈراما نگار کی تحریر ٹی وی پر ڈرامے کی صورت میں دیکھنے والوں پر جلداَثَرانداز ہو کر ،دیر تک اُن کے ذہنوں میں موجود رہتی ہے جب کہ ایک کالم نویس کی تحریر کو پڑھنے کے لیے لوگوں کے پاس مُطالِعے کی عادت اور شوق کا ہونا ضروری ہے۔

ایک دور ایسا بھی تھا جب مُطالِعے کے شوقین لوگوں کی کوشش اور چاہت ہوتی تھی کہ اُن سے کوئی بھی اچھی کتاب یا کسی کی کوئی تحریرفرو گذاشت نہ ہوجائے۔ آج یہ عالم ہے کہ صاحب ِ قَلَم اپنے قاری کی تلاش میں ہیں کہ کوئی گُم گَشْتَہ، کتابیں نہیں تو کم از کم اِن کی مختصر تحریروں کو بے شک ،کالم کی شَکْل میں ہی ،پڑھ تو لے! کیوں کہ کتابیں پڑھنے کا رِواج کم از کم ہمارے مُعاشَرَے سے تو ،ناپَید ہو تا جا رہا ہے۔


ہمارے یہاں تعلیم تو حاصل کی جاتی ہے مگر علم نہیں۔ تعلیم سے ڈگریاں ملتی ہیں جب کہ مُطالِعے سے علم حاصل ہو تا ہے جس کی اب لوگ ضَرُورَت ہی محسوس نہیں کرتے۔اس سلسلے میں سب سے اَبتَر صُو رَتِ حال وَطَنِ عزیز کی ہے۔اس میں لوگوں کا بھی کیا قصور؟ ظاہر ہے جس ملک میں عوام بنیادی سُہولَتوں سے ہی محروم ہوں ، لوگ شِدَّتِ یاس اور ہُجُومِ اِفْلا س کی وجہ سے خُود کُشی کرنے پر مجبور ہوں،وہاں پر مُطالِعے کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے۔

اِن تمام تلخ حقائق کے باوجود ،ہم حسب عادت و مزاج، پُراُمید ہیں۔ہمارے خیال میں آج بھی ایک اچھا خاصہ طَبَقَہ،کُتُب بِینی نہ بھی کرسکے مگر کم از کم کالم اور دیگر مضامین پڑھ کرہی اپنے علم میں اضافے کی کوشش کر رہا ہے۔
اب یہاں پر کالم نویس کی بھی یہ بنیادی ذِمّے داری ہے کہ وہ کالم برائے شہرت نہیں، بل کہ برائے تعمیرِمُعَاشرَہ لکھے اور یہی قَلَم کی طاقت کا مُثبَت اِستعمال ہوگا۔

ہماری اُن کالم نویس حضرات سے خاص گزارش ہے جنھیں کالم نویسی کا مُعَاوَضہ ملتا ہے کہ وہ بھی صرف مُعَاوَضے یا مَعاشی استحکام کی خاطر کالم نہ لکھیں بل کہ اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں میں شُعُور بیدارکریں،علم کی اہمیت کو اُجاگَر کریں ،اُن کے سامنے مُثبَت چیزیں پیش کریں،انھیں غَلّطیوں سے سیکھنے کے طور طریقے بتائیں اور عوام کے دلوں میں بسی ہوئی مایوسیاں خَتْم کرنے کی کوشش کریں۔

وہ نام ور کالم نویس جن کی تحریریں لوگ شوق سے پڑھتے ہیں،اُنھیں بھی چاہیے کہ صرف اپنے موجودہ قارِئین(چاہنے والوں) کی تعداد پرمطمئن ہونے کے بجائے اُن میں اضافہ کریں اور اُنھیں اس حد تک متاثر کریں کہ وہ اپنے دوست،احباب اور خانْدان کے دیگر افراد کو بھی اُن کے کالمزپڑھنے کی طرف راغب کر سکیں۔
ہر تحریر کے پیچھے لکھنے والے کا علم،مُشاہَدَہ،تَجرِبہ بہ اور تحقیق ہوتی ہے جسے وہ قَلَم کے ذریعے اپنے قاری تک مُنتَقِل کرتا ہے لیکن جیسا ہم اس سے قَبْل عرض کر چکے ہیں، تمام لکھنے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنی تحریروں میں موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق جِدَّت پیدا کریں۔

مادَّہ پرستی کے اس دور میں، ضَرُورِیّاتِ زندگی کے حُصُول میں اُلجھے ہوئے لوگوں کے پاس اب اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ مشکل،بوجھل اور ثقیل الفاظ سے بھر پور ، فَلسَفِیانَہ انداز کے طویل کالم پڑھنے کے لیے وقت نکالیں۔لوگ چاہتے ہیں کہ قلیل وقت میں انھیں سُبُک انداز میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل ہو جائیں۔گو کہ یہ اتنا سہل نہیں مگر نا ممکن بھی نہیں ہے۔

اس وقت بھی ایسے لکھنے والے موجود ہیں جو واقعی جدید تقاضوں کے مطابق ہی لکھ رہے ہیں لیکن وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ہر قلم کار کا اپنا ایک مخصوص انداز ہوتاہے مگربیش تر لکھنے والے بے شمار معلومات اور قیمتی مواد ہونے کے باوجودبھی اپنی تحریر کی اِفَادِیت کوضائِع کر دیتے ہیں۔ اِس کی وجہ اُن کا وہ روایتی اور فرسودہ اندازِ تحریر ہے جسے وہ لوگوں تک منتقل کر نے کے بجائے اُن پر مُسَلَّط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

دنیا کے موجودہ حالات میں تمام لکھنے والے، چاہے وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں مُعاشَرَے کی ترقی اور اُسے نکھارنے میں اپنے قَلَم کی طاقت کا بھر پور استعمال کرسکتے ہیں۔وہ زمانے گزر گئے جب اہلِ سیف اہلِ قَلَم پر غالب تھے۔آج قلم کا ہتھیار تمام ہتھیاروں سے زیادہ طاقت ور و فائِق تر ہے۔اگر آج ہمارے اہلِ قَلَم اسی انداز کو اپنا لیں تو وہ آنے والی نسلوں کی نگاہوں میں عزت،عظمت و مرتبہ پائیں گے اور تاریخ میں بھی زندہ رہیں گے، ورنہ آپ کا شُمار مَحض لکھنے والوں کی فہرست میں تو ہوگا لیکن قوم کے معِمَارَوں اور نَسْل اَفْروزوں میں نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :