ثناء خوانی اور فلمی دھنیں

بدھ 2 دسمبر 2020

Saifullah Saify

سیف اللہ سیفی

اُردو میں مروّجہ دیگر اَصنافِ سخن میں سے حمد اورنعت کو ایک خاص مرتبہ حاصل ہے ۔اُردو سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ حمد کی صِنف کواللہ تعالیٰ کے صفات کی تعریف و توصیف سے منسوب کیا گیا ہے۔اِسی طرح نعت اُس نظم کو کہتے ہیں جو محمد مصطفی کی مدحت سے وابستہ ہو۔ حمد و نعت گوئی کا سفر اپنے آغاز سے عہدِ حاضر تک مختلف مراحل سے گزرتا ہوا جس شکل میں آج ہمارے سامنے موجود ہے اس پربہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔

اِبتدا میں شاعر حضرات ،حمد یہ و نعتیہ کلام کسی مشاعرے میں خود تحت اللفظ یا ترنم سے حاضرین کو سنا دیا کرتے تھے۔اُن کا اپنے رب اور اُس کے نبی سے اظہارِ محبت لوگوں کو بھی متحرک کرتا تھا۔اب شاعری ہر ایک کے بس کی بات بھی نہیں لہٰذا لوگ اُنہی شعرا ء کے کلام یاد کر کے دیگر احباب و اقارب کے سامنے سناکر،ربّ ِ کاینات اور حضور سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا کرتے۔

(جاری ہے)

جیسے جیسے اِن اَصناف کی مقبولیت میں اِضافہ ہوتا گیا ویسے ویسے حمدیہ و نعتیہ مشاعروں کا سلسلہ بھی تیزی سے بڑھتا رہا۔لوگ مختلف تہواروں،شادی بیاہ و دیگر خوشی کے مواقع پر قوالیوں اور مشاعروں کا اہتمام کرنے لگے۔ظاہر ہے اب ہر وقت، ہر جگہ تو تمام شاعر دستیاب نہ ہوتے چنانچہ لوگوں نے ایسی محفلوں کا سلسلہ شروع کردیا جن میں قوال یا خوش اَلحان لوگ مشہور شعرا کے کلام کواپنے مخصوص اندازمیں پیش کر کے دادِتحسین وصول کیا کرتے۔

اِس طرح پیشہ ورثناء خوانوں کاایک الگ ہی قبیلہ قائم ہوگیا۔میزبان وشرکاے محفل، بے خودی کے عالم میں اُن پرپیسوں کی بارش بھی برساتے۔اب شاعر حضرات تو صرف مشاعروں تک ہی محدود رہ گئے لیکن اِن ثنا ء خوانوں کی زندگیاں یکسرتبدیل ہوگئیں اور وہ مالی اعتبارسے خوش حالی کی منزلوں کی جانب تیزی سے بڑھنے لگے۔
پھریہ سلسلہ عقیدت ومحبت کے دائرے سے نکل کرمحض تجارتی و کاروباری سطح پر آگے بڑھتاچلاگیا۔

ان قوالوں اورثناء خوانوں کے تو وارے نیارے ہوگئے ،ان کی بھی مختلف قیمتیں مقرر ہونے لگیں۔گاوٴں،گلیوں،محلّوں،شہروں اور قومی سطح سے نکل کر یہ سلسلہ دیارِ غیر تک جا پہنچا۔سفری اَخراجات اورقیام و طعام کے علاوہ ان سب کوبہترین معاوضے ملنے لگے۔محفلوں میں شرکاء کی جانب سے لُٹائے جانے والے نوٹ سونے پر سہاگا۔
انسانی فطرت کے مطابق جب مالی مفادات سامنے ہوں تو تمام اَقدار،احترام،محبت،عقیدت وغیرہ، بالاے طاق رکھ دئے جاتے ہیں۔

حُدود و قیود سے آزاد ہر فرد کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے معاشی اِستحکام۔جب اِن اَصناف کو تجارت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا تو ان میں سے روحانی اور ادبی عناصربا لکل خارج ہوگئے ،ان کی جگہ تُک بندیوں اور فلمی گانوں کی دھنوں نے لے لی ۔ یہ سلسلہ بیسویں صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائی میں آہستہ آہستہ شروع ہوچکا تھا۔ایسا نہیں تھا کہ اس وقت اس رَوِش کے خلاف آواز نہ اٹھائی گئی ہو۔

انفرادی ،اجتماعی و سرکاری سطح پر فلمی دھنوں کے سہارے ثناء خوانی کرنے والوں کی مَذمَّت بھی کی گئی ۔ستّر کی دہائی میں اُس وقت پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے حکم پر اطلاعات و نشریات کی وِزارت کی جانب سے ریڈیو اور ٹی وی کو ایک خصوصی حکم کے ذریعے پابند کردیا گیا تھا کہ وہ کسی بھی فلمی دُھن پر مرتّب کی گئی حمد ،نعت اور قوالی کو قطعاًنشر نہیں کریں گے۔

اُن کی حکومت کے بعد یہ سلسلہ پھر سے مضبوط ہو کر اتنی تیزی سے بڑھا کہ آج تک رکنے کا نام نہیں لیا۔ اِس وقت یہ کاروبار سوشل میڈیا کی مہربانیوں سے بر صغیر سمیت پوری دنیا میں اپنے عروج پر ہے ،نہ کوئی روکنے ،ٹوکنے اور پوچھنے والا ہے۔آج کل یہ پیشہ ور نعت خواں اور قوّال کسی بھی مشہور فلمی گیت کو ،گلی مَحلّوں کے نام نہاد شاعروں کے پاس لے جا کراُن سے کچھ رُوپے کے بدلے اُس دُھن پر قوالی یا نعت لکھوا لیتے ہیں۔

لوگوں میں اتنی جرأت نہیں رہی کہ انھیں اس نامناسب اور عامیانہ عمل پر ٹوک سکیں۔ نجی محفلوں کے ساتھ ساتھ اب فلموں اور خاص طور سے الیکٹرانک میڈیا پرتو یہ عمل انتہائی زور و شور سے جاری ہے۔ان خود ساختہ عقل مندوں کو اتنا نظر نہیں آتا کہ جب کسی فلمی دھن پر حمد یا نعت پڑھی جاتی ہے تو لوگوں کا ذہن خدا اور اس کے نبی سے قربت کے بجائے اُس اصل گانے کی جانب مائل ہوجاتا ہے ۔

اب تو ٹی وی اور نجی محفلوں میں لوگوں نے وَجد کے بہانے باقائدہ جسم کی جنبش اورتِھرکنا بھی شروع کردیا ہے ۔ظلم کی انتہا یہ ہے کہ کسی بھی بے تُکے فلمی گیت میں زبردستی لفظ”مولا“شامل کرکے اسے صوفیانہ کلام کا خطاب دینے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ہمارے سادہ مزاج عوام بھی ان غیر اخلاقی مصنوعی اشیا ء سے خود کو بہلانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

یقینا آج بھی لوگوں کی اکثریت اس نا شائستہ عمل سے خود کو دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہوگی۔یہ اتنا سہل نہیں ہے، کیوں کہ سب کچھ منظم طریقے سے لوگوں پر مسلط کردیا گیا ہے۔اس سلسلے میں اہلِ دانش ،اساتذہ اور والدین کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔یہ بچوں اور نوجوانوں کی رہنمائی کریں اور اپنے اپنے طریقوں سے عوامی شعور کو بیدار کریں۔

عوام کو بھی چاہیے کہ وہ ایسی بے ادب محفلوں کی حوصلہ شکنی کریں تاکہ ہمارے بزرگوں کی قائم کردہ پاکیزہ ثنا ء خوانی کی روایت اور بنیاد پھر سے اپنی اصل روح کے ساتھ معاشرے میں سرایت کر جائے۔آج ہر شخص سکون کی تلاش کے لیے مختلف بہانے اور ذرایع ڈھونڈتا رہتا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ذہنی پاکیزگی کے ذریعے کسی بھی صحت مندمعاشرے کی ٹھوس بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔

آخر میں ضیا# کرناٹکی اور رحمت النساء ناز# کے چند خوبصورت حمدیہ و نعتیہ اشعار صاحبِ ذوق قارئین کی نذر۔
بے چین دل کو آج تُو صبر و قرار دے
تسکین بھی سکون بھی پروردگار دے
بکھری اِدھر اُدھر ہے ہماری یہ زندگی
تُوہی سنوار سکتا ہے اِس کو سنوار دے
#####
دل مدینے میں بہل جائے تو کچھ بات بنے
میری حالت بھی سنبھل جائے تو کچھ بات بنے
موت برحق ہے مگر ناز کی خواہش ہے یہی
دم ، مدینے میں نکل جائے تو کچھ بات بنے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :