ستم زدہ اُردو!

بدھ 23 دسمبر 2020

Saifullah Saify

سیف اللہ سیفی

7جولائی1972ء کو سندھ اسمبلی میں منظور ہونے والے بِل کے تحت سندھی کو صوبے کی سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔بل کا منظور ہونا تھا کہ اُردو کی علم برداری کے دعوے داروں نے ایک شور برپاکردیا ۔ اس موقعے پر ایک اخبار کے تمام صفحات کے کناروں پر مرحوم رئیس امرہوی کے لکھے گئے نوحے کا آخری مصرعہ ”اُردُوکا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے“ چھاپا گیا۔

اس کے ساتھ ہی احتجاج کا ایک عجیب و غریب سلسلہ شروع ہوگیا۔ نعرے بلند ہوئے کہ اُردُو کے ساتھ زیادتی ہوگئی اور” اب ہم پر سندھی زبان مسلط کر دی گئی ہے جو ہمیں ہرگز قبول نہیں“، وغیر وغیرہ۔کراچی اور حیدر آباد میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور ایسی گریہ و زاری کی گئی کہ جیسے اُردُو صفحہِ ہستی سے مٹنے والی ہے۔اس بات کوایک عرصہ بیت چکا لیکن یہ آج بھی بقید حیات ہے۔

(جاری ہے)

ہاں اِس کے لیے آواز اٹھانے والوں کی اکثریت اب حیات نہیں۔ جو اُس وقت نوجوان تھے وہ اب عمر کے ایسے حصے میں ہیں کہ انھیں وہ واقعات آج بھی اچھی طرح یاد ہوں گے۔ کیا وہ آہ و بکا صرف اُردُو سے محبت کی تھی یا کچھ اور ؟اگر یہ واقعی اُردُو سے محبت کی داستان تھی توآج کل اس” لاچار“ کے ساتھ ہونے والے ظلم پر خاموشی کی وجہ؟
اندازِ بیاں درست ہو تو ہر زبان خوبصورت لگتی ہے۔

اُردو کی خدمت میں اُن لوگوں کا کردار ناقابل فراموش ہے جن کی اپنی مادری زبان کوئی اور تھی۔اُردو کی خدمت فائیو اسٹار ہوٹلز میں صرف مشاعرے اور سیمینارز منعقدکر کے نہیں کی جاسکتی۔آج اُردو پڑھنا لکھنا تو ایک طرف، اسے بولتے وقت بھی ایسا حشرڈھایاجاتا ہے کہ الامان و الحفیظ۔ اکثریت حالتِ مجبوری میں اُردوبولتے وقت یہ بھی جتا تی ہے کہ:” مائنڈ مت کیجئے گا ہم آپ کی وجہ سے اُردو بول رہے ہیں ورنہ،ہم تو انگلش میڈیم ہیں“۔

اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ آج دنیا میں انگریزی سب سے زیادہ بولی جاتی ہے اور اسی لیے چین،رشیا،جرمنی اورفرانس جیسے ممالک بھی اب انگریزی کو اہمیت دے رہے ہیں۔ہمارے یہاں انگریز ی کو علم کادرجہ اور معیاربنادیا گیاہے۔اُردو بولنے والوں کو کم علم قرار دے کر انھیں :”Bloody Urdu Medium“ (انتہائی اُردو زدہ)پکارا جاتا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاپر اُردو کے استعمال اور درست لب و لہجے کو فوقیت حاصل تھی۔

اُس دور میں تربیت کے ساتھ اصلاح بھی ہوتی تھی اور لوگوں میں بھی جنون کی حد تک سیکھنے کا شوق تھا۔ اب اس کی درماندگی کا یہ عالم ہے کہ بے چاری کے قتل عام پر شاید ہی کوئی آنسو بہاتا ہو۔بچے ٹی وی کے ذریعے ویسی ہی اُردو سیکھ رہے ہیں اور اسی کو درست بھی سمجھ رہے ہیں۔اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھنے والے ٹی وی اینکرز بھی اِس عاجزکے ساتھ ہونے والی ناقابلِ بیان زیادتی میں شریک ہیں ۔

باقی ماندہ کسر ہندی فلموں نے پوری کردی ہے۔ یہ کم بخت، ختم تو پھر بھی نہیں ہوگی لیکن جس خوب صورتی کے لیے یہ مشہور تھی اسے مسخ کرنے کی کوشش تواتر کے ساتھ جاری ہے۔اسے پیار اور محبت کے بجائے جھگڑالُو زبان میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
آج کل بیشتر حضرات اپنی کتابیں شوقیہ چھپوا کر لوگوں کو تحفتاً پیش کر رہے ہیں۔وصول کرنے والے بھی انھیں صرف الماریوں کی زینت بناتے ہیں ۔

ہمیں اُردو سمیت کسی اور زبان کی کتابیں پڑھنے کا بھی قطعاًشوق نہیں ہے۔ہاں اپنی جھوٹی انا، خود کو دانش ور،ادیب اور مفکر کہلانے کے لیے ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں۔اُردو ادب میں ایک خاص قسم کی ”اقربا پروری“کی اجارہ داری نے اس کے چاہنے والوں کو بالکل بے بس کردیا ہے ۔وہ تو بس اپنی عزت بچانے میں ہی مصروف ہیں۔اُردو کی ترقی کے نام پر دنیا بھرمیں بے شمار انجمنیں،ہر سال من پسندافراد کو اِس کی خدمات کے اعتراف میں مختلف اعزازات سے نوازرہی ہیں۔

یہ قسمت کی ماری اپنے ساتھ ہونے والے ظلم پر کسی سے فریاد بھی نہیں کر سکتی ۔کسی کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہے کہ اس کے بارے میں فکر مند ہو کر خواہ مخواہ”مریض ِاُردُو “کا لقب حاصل کرے۔
 اُردو سے محبت کرنے والے اہل ِعلم و زبان اور سخن داں اس کے فروغ کی خاطر بہت کچھ کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ ایسے سنجیدہ و مخلص حضرات کی حوصلہ افزائی کے ذریعے اس کی خوب صورتی بحال کی جا سکتی ہے۔

بچوں کو اُردو سکھانے میں کسی پشیمانی یا احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔اگر کسی کو اُردو کے علاوہ دیگر زبانیں بھی آتی ہیں تو اس سے اچھی کیا بات ہے۔گفتگوکے دوران میں، بلا وجہ انگریزی استعمال کر کے یہ جتانے کی ضرورت نہیں کہ ہم اُردو بحالت مجبوری بول رہے ہیں۔پاکستانی شاید واحد قوم ہے جو دنیا کی کسی بھی دوسری زبان کو جب باقائدہ سیکھ لے تو پھر اسے اتنی ہی خوبصورتی سے بولتی بھی ہے ۔

کہیں گڑبڑ ہوتی ہے تو صرف اس دکھیاری اُردو کے ساتھ۔ موجودہ تکلیف دہ صورت حال کے باوجود ہمیں اُردو کے مستقبل سے مایوس ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں۔یہ وہ خوبصورت حسینہ ہے جس کے سِحرسے آنکھیں بچانا کسی بھی باذوق انسان کے لیے آسان نہیں ۔ جوش# صاحب نے یوں ہی نہیں فرمایاکہ:
ندّی کا موڑ، چشمہِ شیریں کا زیر و بم
چادر شبِ نُجوم کی، شبنم کا رختِ نم
موتی کی آگ، گُل کی مہک، ماہِ نو کا خم
اِن سب کے امتزاج سے پیدا ہوئی ہے تُو
کتنے حسیں اُفُق سے ہَویدا ہوئی ہے تُو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :