کھیلن کو مانگے چاند!

منگل 7 دسمبر 2021

Saifullah Saify

سیف اللہ سیفی

 برصغیر کی مُوسِیقی سننے اور سمجھنے والوں میں شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جس نے مشہورِ زمانہ گیت ”اَنوکھا لاڈلا، کھیلن کو مانگے چاند “ ،نہ سُنا ہو۔اُستاد بڑے غلام علی کے بعد اوربہت سے گلوکار بھی اِ س پر طبع آزمائی کرچکے ہیں ۔کس نے کیسا گایا، اِس سے قَطْعِ نَظَر ،گانے اور سننے والوں کی دلچسپی، صِرف اور صِرف چاند ہی میں رہی۔

ویسے چاند، مَحض برصغیر کی شاعری اور مُوسِیقی تک ہی محدود نہیں بل کہ ہمیشہ سے پوری دنیا کی تَوَجُّہ کا مرکز رہا ہے۔بنیادی طور پر یہ گیت بچوں کی فطرت کو مَدّ ِنظر رکھ کر لکھا گیا کہ بعض اوقات وہ ایسی فرمائش کر دیتے ہیں جس پر عمل درآمد ممکنات میں شامل نہیں ۔برصغیر کی حد تک تو ہم واقعِی آج بھی چاند کو نہ صرف بچوں ،بل کہ بڑوں کی بھی کسی فرمائش پوری نہ کرنے کے لیے عُذْر تراشی کے طور پر اِستعمال کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ہم سے ذرا ،اُس پار کی دنیا کے لوگوں نے اپنے بچوں کو” انوکھا لاڈلا،کھیلن کو مانگے چاند“، کا طعنہ دینے کے بجائے اُنھیں کھیلنے کودنے کے لیے چاندپر ہی پہنچا دیا۔اب وہ مِرّیخ اوردوسرے سیاروں کی جانب رواں دواں ہیں۔
جہاں تک ہماری بات ہے، تو یہاں وَطَنِ عزیز کے وُجُود میں آنے سے لے کر آج تک ہر کوئی کھیلنے کو ”چاند“ ہی مانگ رہا ہے۔

نہ ہم چاند پر خود پہنچ سکے اور نہ ہی اُسے اپنے پاس بلا سکے،البتہ اِس کے ساتھ نہ صرف دُور دُور سے، بل کہ دُوربینوں سے آنکھ مِچَولی ضرور کھیل رہے ہیں۔ہماری بَلا سے، سال کے بقیہ مہینے چاند کب،کہاں اور کیسے نکلتا ہے مگر عید َین کے چاند ہمیں اپنی مرضی کے ہی چاہئیں۔کئی سال سے تین عیدیں منانے کے بعد صاحِبانِ چاند، اب یہ سوچ رہے ہیں کہ کیوں نہ، اگلی مرتبہ چار عیدیں منا کر عوام کی خوشیوں میں”چار چاند“ لگا دئیے جائیں؟ غالباًرمضان المبارک میں قید ہونے سے پہلے شیطان اپنے شاگردوں کو نصیحت کر کے جاتا ہے کہ میری غیر موجودگی میں،جو جتنی تباہی پھیلا ئے گا اُسے اپنے اعمال سے دس گنا زیادہ پھل، انعام میں دِیا جائے گا۔

ہم علم و ہنر میں تو کیا ترقی کرتے،البتہ تمغاے جہالت حاصل کرنے میں پوری دنیا کو پیچھے چھوڑچکے ہیں۔میڈیا نے بھی ”رمضانی کاروبار“اور چینلز کی ریٹنگ کے لیے خوب سیٹنگ کر رکھی ہے۔شاندار سیٹس،دِل کُشا قیمتی ملبوسات، لذیذ طعام و جذباتی ماحول کے ذریعے، میزبانوں اور مہمانوں کی جانب سے ، رمضان المبارک کی فضیلت، انتہائی رِقَّت آمیز باتوں کے ذریعے عوام کے دلوں میں پھونکنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔

اِس بھرپورتمثیلیت کے بعد بھی ،ماہِ مقدس میں بے گناہ لوگوں کے قَتْل، مہنگائی،منافع خوری و ذخیرہ اندوزی میں اضافہ،جھوٹ مکاری،روزوں،نمازوں و اِعتِکاف کے نام پر دَفاتِر میں غیر حاضری سمیت مُنافَقَت اور دیگر مکاریوں کا سلسلہ ہمہ وقت جاری رہتا ہے۔کسی پر اِن تمام باتوں کا اَثَر ہو، یانہ ہو ، لیکن میڈیا مالکان کے بینک بیلنس میں ناقابلِ یقین اِضافہ ہو جا تا ہے ۔


قیام ِ پاکستان سے لے کر آج تک جس تیزی سے پورے مُلک میں مساجد و مدارِس کے جال بچھا دئیے گئے ہیں اُس اعتبار سے تو اِس ملک کو زمین پر جنت کی مثال بن جانا چاہیے تھا۔ پاک سر زمین کو دَراَصْل اَمْن کا گہوارہ اور مظلوموں و بے سہارا لوگوں کا ٹھکانہ ہونا چاہیے تھا لیکن یہ کیسے انتہا پسندوں اوردہشت گردوں کی آماج گا ہ بن گئی؟جو لوگ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے یا ثابت کرنے پر اَز خُود معمور ہیں، وہ اِس کی حفاظت کو بھی اپنا فرضِ اَوَّل گَردانتے ہیں۔

اِن کے خیال کے مطابق ملک میں موجود کوئی بھی اِدارہ اِس قلعے کی اِن سے بہتر حفاظت کر ہی نہیں سکتا۔یہ فرماتے ہیں کہ پاکستان اور اسلام کو اَصْل خطرہ بھارت،امریکا،اسرائیل اور دیگرمُمَالِک سے زیادہ، یہاں کے ترقی پسندوں،مُجتَہَدوں،مُجَدَّدوں،مَجذُوبَوں،اِن کے مسلک کو نہ ماننے والوں اوربالخصوص غیر مسلم شہریوں سے ہے۔یہ سمجھتے ہیں کہ صفائی گھر سے شروع ہونی چاہیے،باہر والوں سے تو بعد میں نمٹ لیں گے!اِسی فارمولے کے تحت اِن کی جانب سے صرف مخالفین کی صفائی کا عمل جاری ہے۔

اِن کی سوچ کے مطابق بڑے تو بڑے،معصوم بَچَّوں کو بھی پاک سر زمین پر زندہ رہنے کاقَطْعاً حق نہیں ہے۔اُن سب کا آزاد فَضَا میں جینا، اسلام کے قلعے کی تباہی کے مُتَرادِف ہے۔علامہ اقبال نے شکوہ لکھا تو اُنھیں کافر قرار دے دیا گیا۔جوں ہی اُنھوں نے جوابِ شکوہ لکھا تو اُن سے بڑا مومن و عاشقِ رسول اِن کی نظر وں سے گزرا ہی نہیں۔یہ اور بات ہے کہ وہی علامہ اقبال یہ بھی فرماچکے ہیں، جسے سننا اور اُس پر عمل کرنا اِن حضرات کو بالکل گوارا نہیں کہ:
دیارِ عشق میں، اپنا مَقام پیدا کر
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر
مرا طریق، امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :