
یوم مزدور
جمعہ 1 مئی 2020

سلیم ساقی
ہمارا ملک گویا کہ اک مشین ہے اور مزدور اس مشین کے پرزے ہیں اب پل بھر کو سوچو کیا پرزوں کے بنا مشین کارآمد رہ سکتی ہے؟ مزدور ہمارے ملک کا وہ اثاثہ ہیں جنکا مول اور جنکا قرض کوئی چکا نہیں سکتا
مزدور وہ ہستی ہے جسکے گھر کا چولہا بیشک جلے نہ جلے لیکن یہ آپ کا چولہا جلانے کے اسباب پیدا ضرور کر دیتا ہے پھر چاہے وہ کسی کسان کے کھیتوں میں چار پیسے لے کر دن رات مزدوری کرے یا کسی مل فیکٹری میں چند ہزار لے کر جان ہتھیلی پہ رکھ کے بنا صحت کی پرواہ کیئے بنا جان کی پرواہ کیئے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالنے کیلیئے دن رات دونوں شفٹوں میں کام کرے چاہے وہ کسی بلڈنگ کے تعمیراتی کام میں مستری کے ساتھ کام میں مشغول ہو کر ہو یا مزدوری نہ ملنے پر چار آنے آ ہی جائیں دن خالی نہ جائے کی سوچ سوچ کر معمول کی مزدوری سے چار پیسے کم پر راضی ہو کر کسی کے ساتھ کام پر جا کر ہو
اک مزدور جب دن بھر کی مزدوری سے تھکا ہارا گھر کو لوٹتا ہے نا تو وہ ڈر کے مارے اس خوف سے کہ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے اور ننھی کلیاں کہیں اس کی جیب کی بساط سے ذیادہ کی فرمائش نہ کردیں یا کوئی ایس عرضی زبان پہ نہ لائیں جسکو وہ چاہ کر بھی پورا نہ کر سکے وہ ہمیشہ شب کے پچھلے پہر گھر کی چوکھٹ پہ قدم رکھتا اور منہ اندھیرے بچوں کو سوتا چھوڑ کر کام ڈھونڈنے نکل پڑتا ہے
ہم بھی عجب سسٹم کا حصہ ہیں جہاں یکم مئی عالمی مزدور دن کے نام سے منایا جاتا ہے جس دن کی چھٹی عالمی چھٹی قرار دے دی گئی ہوئی ہے جہاں جوب ہولڈرز طبقہ اس دن چھٹی کے مزے لیتا ہے وہیں وہ مزدور بیوی بچوں کا پیٹ پالنے کی غرض سے مزدوری کر رہا ہوتا ہے
اگر ہم اپنے ان کورونا کے دنوں پر نظر دوڑائیں تو جہاں جوب ہولڈرز طبقہ گھر بیٹھا مزے سے تنخواہ لے رہا ہے وہیں مزدور سب کام بند ہونے کے باعث مزدوری نہ ملنے کی وجہ سے گھروں میں ہاتھوں پہ ہاتھ دھرے بیٹھا ہے
جہاں باقی لوگوں کے سروں سے کاموں کا بوجھ کورونا کے باعث گھر بیٹھے کچھ کم ہوا ہے وہیں مزدور کے سر پہ گھریلو زمہ داریوں کا بوجھ اور بڑھ گیا ہے
کوئی آئے دن قرضے کے بوجھ تلے دبا جا رہا ہے تو کوئی خود کشی کرنے کے آخری دہانے پر پہنچ چکا ہے کسی کی بیوی اس سے ناراض ہو کر میکے بیٹھی ہے تو کسی کے بچے بھوک سے بھوکے مر رہے ہیں کسی نے اپنی جوان بیٹی کا فرض سر سے ادا کرنا ہے تو کسی نے لاچار چارپائی پر پڑی بوڑھی ماں کا علاج کروانا ہے
لب لباب یہ کہ مزدور کا جینا کورونا کے باعث آئے دن دو بھر ہوئے جا رہا ہے کوئی کہاں تک انکا بھار سر پر اٹھائے یہاں جسے پھرولو تو لگتا ہے وہ ہم سے ذیادہ دکھی ہے
یہاں ضرورت ہے ان وبائی دنوں میں اپنے اردگرد بستے ان سفید پوش لوگوں کی داد رسی کرنے کی کیونکہ یہ سفید پوش بھوکے تو مر سکتے ہیں پر کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے یہ یہ نہیں کہیں گے ہم بھوکے ہیں ہمیں کھانا دو ہم ننگے ہیں ہمیں کپڑا دو بلکہ ایسی صورت میں ہمیں پہل کرنی ہے اور ان سفید پوش لوگوں کی خدمت کچھ ایسے انداز میں کرنی ہے کہ یہ مدد کم بھائی چارہ ذیادہ لگے تا کہ کسی کی دل آزاری بھی نہ ہو اور کسی کا مہینوں بند پڑا چولہا جل اٹھے
کوئی کیسے سمجھ پائے گا ہمارا ملک کیسے چلتا ہے۔۔۔۔۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
سلیم ساقی کے کالمز
-
افزائش نسل کی بڑھوتری کے ثمرات و نقصانات
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
عشق مجازی سے عشق حقیقی
پیر 13 ستمبر 2021
-
''ہم زندہ جاوید کا ماتم نہیں کرتے''
منگل 24 اگست 2021
-
تھرڈ کلاسیے ایکٹرز
منگل 1 جون 2021
-
''جسد خاکی یہ ستم نہیں اچھا''
منگل 4 مئی 2021
-
لیبرز ڈے
ہفتہ 1 مئی 2021
-
رمضان کو بخشش کا فرمان کیسے بنائیں؟
منگل 27 اپریل 2021
-
کہاں کھو گیا وہ برگد کا پیڑ پرانا
ہفتہ 24 اپریل 2021
سلیم ساقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.