ہراساں کرتے بھوکے بھیڑیے

پیر 4 مئی 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

جوں جوں دنیا نے ترقی کی راہ پہ اپنی رفتار تیز کی ویسے ہی انسانی ذہن کی شیطانی چالوں میں تیزی آتی گئی۔ اگر ایک طرف بنت حوا کو پرائیویٹ سیکٹرز میں جوب کرنے کی آزادی دی گئی۔ وہیں دوسری طرف اسے ہراساں کرنے کے ڈھیرو ڈھیر حیلے ،ہتھکنڈے بھی ایجاد کیئے گئے۔
اگر ہم اپنے چاروں طرف بستی ایسی لڑکیوں پر نظر دوڑائیں جو حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر گھر کا بھار سر پر اٹھائے ہوئے ہیں۔

کوئی پرائویٹ اسکول میں استانی لگی ہوئی ہے۔ تو کوئی ڈیوو میں ایز کنڈیکٹر بھرتی ہوئی ہوئی ہے۔ کوئی چند ہزار کیلئے کسی پرائویٹ بینک میں جوب کر رہی ہے۔ تو کوئی کسی بڑی کمپنی کے بڑے بڑے صاحب کی پی۔اے بنی ہوئی ہے۔
مگر یہاں ایک بات بتاتا چلوں یہاں ایسا سوچنا کہ یہ کمسن ناریں اپنی خوشی سے یہ سب کر رہی ہیں۔

(جاری ہے)

ایسا سوچنا انسانی تذلیل کے مافق ہو گا۔

میں نے خود کئی ایسی لڑکیوں کے حالات جانے ہیں۔ کسی کے باپ کا سایہ اس پر سے اٹھ گیا ہے۔ تو کسی کے بہن بھائی اس قدر چھوٹے ہیں،کہ انکی پڑھائی انکی پرورش کی ذمہ داری یہ بنت حوا بڑی بہن ہونے کے ناطے نبھا رہی ہے۔ کسی کی ماں چارپائی پر پڑی اپنی زندگی سے دوبھر ہے۔ تو کسی کا شوہر نشے کی لت میں دھت ہے۔
لب لبا یہ کے کوئی بھی شوق سے جوب نہیں کر رہی۔

مگر ہمارے معاشرے میں شاید برائی اچھائی سے کئی گناہ ذیادہ ہے۔ اسی برائی کا نتیجہ ہے، کہ ہم آئے دن سنتے ہیں فلاں کمپنی کے مالک نے اپنی پی۔اے کو حوس کا نشانہ بنایا۔ فلاں چوک میں فلاں گھر کے فلاں کمرے میں ایک جوں لڑکی کی لاش رسی میں جھولتی پائی گئی۔
یہاں ہر انسان تب تک شریف اور گناہوں سے پاک ہے۔ جب تک اسے گناہ کرنے کا موقع نہیں ملتا۔

جوں ہی کسی کو یہ موقع ملتا ہے وہ گویا بھوکے بھیڑیے کی طرح ٹوٹ پڑتا ہے۔
کہیں کوئی ہراساں کر رہا ہے۔ تو کہیں کوئی بلیک میل کر رہا ہے۔ کہیں کوئی چند ہزار انکم بڑھانے کا لالچ دے کر اک رات کسی ہوٹل کے تاریک کمرے میں گزارنے کا کہہ رہا ہے۔ تو کہیں ایسی لاوارث لڑکی کو شادی کے سبز باغ دکھا کر اسکا بھار سر پر اٹھانے کے جھوٹے وعدہ کر کے عزت لوٹ رہا ہے۔

کہیں کوئی امیر کسی غریب کو سوشل نیٹ ورکس میں کیریئر کو اوپر لے جانے کی ترغیب دے کر دوستی بڑھا رہا ہے۔ تو کہیں اینکر،نیوز رپورٹر،ماڈل اور ہیروئین بننے کے خواب دکھا کر بنت حوا کو یرغمال بنایا جا رہا ہے۔
بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے۔ ہمارا سب سے کارآمد محکمہ طبعی شعبہ کو ہراساں کرنے میں اگر سر فہرست قرار دے دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

یہاں آئے دن ایسے کیس سننے کو ملتے ہیں جنہیں سن کر روح تک کانپ اٹھتی ہے۔ مانتا ہوں تم ڈاکٹرز ہو ایسے گناہ کر کے انھیں ضائع کرنے کا ہنر تمہیں اچھے سے آتا ہے۔ پر یہاں کسی کی عزت کسی کی چادر پر داغ بھی لگ جاتا ہے۔ جسے کسی صورت دھونا ممکن نہیں۔ یہاں آئے دن کام کرنے والے سٹاف کے آپس میں افیئرز سننے کو ملتے ہیں کہیں کوئی کسی کو برائی پر آمادہ کر رہا ہے۔

تو کہیں کوئی نئی آنے والی ڈاکٹر کو کام سکھانے کا بہانہ بنا کر اسے ہراساں کر رہا ہے۔
یہ ہراساں کرنے کا گندہ کھیل صرف ان محکموں تک ہی محدود نہیں ہے۔ یا یوں کہیں کہ یہ ہراساں کرنے کا کھیل صرف جوب ہولڈرز لڑکیوں کے ساتھ ہی نہیں کھیلا جاتا۔ یہ کھیل کالج لیول سے شروع ہو کر یونیورسٹی لائف پر سے ہوتا ہوا شادی ہونے تک کچھ حد تک کمی میں آتا ہے۔

لیکن ایسا کہنا کہ مکمل ختم ہو جانا ایسا تو شاید بنت حوا کے مرنے کے بعد ہی کہنا بجا ہو گا۔
بیٹی جب جواں ہوتی ہے نا تو اس میں عزت کے معاملے میں ڈر اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ گر کالج میں راہ جاتے وین ڈرائیور یا کالج میں کوئی پروفیسر بھی اسے ہراس کرے گا۔ تو وہ ڈر کے مارے دبک کے بیٹھ جائے گی۔ کسی کو بتائے گی نہیں۔ یہ سوچتے ہوئے نجانے بھائی ابو سن کر کیا سوچیں گے۔

یہی ڈر انھیں لے ڈوبتا ہے۔ اور کہیں جینے کا نہیں چھوڑتا۔ البتہ ہماری کچھ نڈر بیٹیاں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں۔ جو ایسے لوگوں کی ہر بات کا ایسا منہ توڑ جواب دیتی ہیں۔ کہ پھر ایسے منہ پھٹ بھیڑیوں کی دوبارہ جرآت نہیں ہوتی کسی سے یوں بات کر جائیں۔
گر بات کی جائے یونیورسٹی کی یہاں سی۔جی۔پی۔اے اور جی۔پی۔اے کے نام پر لڑکیوں کو یرغمال بنایا جاتا ہے۔

چار میں سے چار جی۔پی۔اے کا لالچ اور ڈگری کے آخر میں گولڈ میڈل کا لالچ دے کر انکی عزت لوٹنا،اور پھر بعد میں انھیں بلیک میل کرنے جیسے کیسز بھی ہمارے معاشرے میں دیکھنے کو عام ملتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں یہ کام،یہ گندگی اسقدر تیزی سے بڑھتی چلی جا رہی ہے کہ اس نے گھروں میں بھی ڈیرے جمانے شروع کر دیئے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں میں نے ایک کیس سنا۔

ایک بہنوئی نے اپنی سالی( بیوی کی بہن) کو یرغمال بنا کر اسکی عزت لوٹ لی۔ یعنی ایک تو گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا۔ دوسرا اپنی حق حلال کی بیوی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔ اکثر ایسے کیس بہنوئی اور سالیوں کے بیچ ہی سننے کو ملتے ہیں۔ یا دیور اور بھابھی کے بیچ۔ کیونکہ ہماری بولڈ سوچ نے ہماری عقل پر ایسی پٹی باندھ رکھی ہے۔ کہ ہمیں صحیح اور غلط میں کوئی فرق نہیں نظر نہیں آتا۔


کتنے ایسے کیس ہیں جنہیں لکھنے پہ آؤں تو لکھتا ہی چلا جاؤں۔
ہراس صرف لڑکیوں کو ہی نہیں کیا جاتا۔ یہاں ہراساں ہوتے کیسز میں لڑکے بھی پیش پیش ہیں۔ کہیں مدرسہ مولوی کمسن بچے کو حوس کا نشانہ بنا رہا ہے۔ تو کہیں ماموں اپنے سگے بھانجے سے پستول کے زور پر زیادتی کر رہا ہے۔ کہیں کوئی پیسے والا پیسوں کا لالچ دے کر کسی کمسن باریش بچے کو حوس کا نشانہ بنا رہا ہے۔

تو کہیں گھنڈا گردی کرنے والے طاقت والے طاقت کے بل بوتے یہ گندگی پھیلا رہے ہیں۔
یہاں ایک کیس جو ہوتا تو بہت ریئر ہیں لیکن اگر اس پر قابو نہ کیا گیا۔ تو یہ بھی بہت تیزی سے پھیل جائے گا۔ اکثر دیکھا گیا ہے۔ کچھ لڑکے خود اس لت میں لتے ہوئے ہیں۔ اور وجہ کیا ہے گھر سے پیسوں کا نہ ملنا۔ ایسے لڑکے پھر پیسوں کیلئے جیسے کچھ لڑکیاں پیسوں کی خاطر ایسے گندے کام کرتی ہیں۔

بالکل ویسے ہی کچھ لڑکے بھی پیسوں کیلئے ایسے کام کرتے ہیں۔ میں التجا کروں گا ہر والدین سے خدارا بچوں پر نظر رکھیں۔ انکی ڈیلی روٹین چیک کریں۔ پوچھیں ان سے کدھر جا رہے ہو کدھر سے آ رہے ہو۔
آخر میں میں ایسے مالکوں سے التجا کروں گا۔ جن کے پاس حالات کی ماری ہماری بہنیں بیٹیاں کام کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ اور وہ ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ خدارا کچھ شرم کرو۔ کیا تمہیں ان بیٹیوں میں اپنی بیٹیاں نظر نہیں آتیں؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :