کسان،گندم اور حکومتی ہدایات

ہفتہ 16 مئی 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

یہ حکومت وقت بھی نا پے در پے اپنے کرتوتوں پر لکھنے کے لیے کالم نگاروں کو نت نئے موقع دیتی ہی رہتی ہے۔ کبھی ان کی زبان چار سے بارہ موسموں پر آ کر پھسل جاتی ہے۔ تو کبھی آٹا چین بحران کے ایجنڈا کو منظر عام پر لا کر اچانک سے پیٹ پیچھے پھینک دیتی ہے۔
ابھی چند دن پہلے بہت ہی شانتی تھی سوائے کورونا کا رونا رونے کے علاوہ کوئی چول ہی منظر عام پر نہیں دیکھنے کو مل رہی تھی۔

جسے تڑکا لگا کر کوئی کالم لکھا جا سکے۔ پھر اچانک ایک دن اپنے محلے کی مسجد میں اعلان سننے کو ملا۔ جی حکومت کا آرڈر ہے۔ ہر گھر پچیس من سے ذیادہ گندم سٹور نہیں کر سکتا۔ پچیس من سے زائد کی گندم حکومت کو دینا ہو گی۔ کیوں بھئی حکومت کو فنڈنگ کم پڑ گئی ہے کیا؟
یہ کیا لاجک ہوا سال بھر کی محنت سے حاصل کردہ اناج میں سے بس پچیس من گھر رکھ کر باقی حکومت کی نظر کر دیا جائے۔

(جاری ہے)

اچھا ایک چھوٹا سا سوال کا جواب دے دیں ہمیں اگر جواب ہمیں معقول لگا تو ہم پچیس من گھر رکھ کر باقی حکومت کو دے دیں گے۔ سوال یہ ٹھہرا کہ جو لوگ جوائنٹ فیمیلیز میں رہ رہے ہیں۔ جس گھر میں پچیس سے پچاس افراد رہ رہے ہوں۔ کیا تمہیں لگتا ہے ایک سال کے لیے پچیس من کافی ہو گی؟
ارے بھئی ہم گاؤں کے لوگوں کا تم شہریوں جیسی چھوٹی سے روٹی کھا کر پیٹ نہیں بھرتا۔

یہاں کھانا شیف نہیں مائیں پکاتی ہیں۔ بہت سواڈش کھانا پکتا ہے ہمارے ہاں۔ جسے شروع کرو تو چھوڑنے کا من نہیں کرتا۔ ایسے میں پچیس من سال تو کیا میرے خیال سے  تین سے چار ماہ تک نہ چل سکے۔ تمہارا کیا خیال ہے یہاں صرف گندم کھانے کے لیے ہی استعمال کی جاتی ہے بس؟ یہاں مرنا پرنا شادی بیاہ غریب غرباء آیا گیا ہر اوچ نیچ انسان کے ساتھ چلتی آ رہی ہے۔


وزیر خوراک کا کہنا ہے اس سٹیپ سے گندم کی قلت میں کمی آئے گی۔ میرے خیال سے تو ایسے نہ صرف قلت ذیادہ ہو گی۔ بلکہ ساتھ ہی غریبوں کی جیبیں بھی صاف ہوں گی۔ کیونکہ ہماری گھٹیا سوچ کا معیار تو یہ ٹھہرا، جب ہمیں پتہ چل گیا کہ جس چیز کی ڈیمانڈ ذیادہ ہے اور سپلائی کم ہے تو ہم نام نہاد مسلمان اس چیز کا ریٹس بڑھا دیتے ہیں۔ اب آپ بتائیں کس چیز کو سہنے کی جرات رکھتی ہے آپ کی حکومت؟ آٹا چینی بحران کی طرح گندم بحران یا غریبوں کی ہائیں؟یا پھر کسانوں کی سٹرائیکس؟
کیونکہ جب گندم اگانے والا کسان ہی چند مہینے بعد گندم کے لیے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتا نظر آئے گا۔

کیا فائدہ پھر ایسی کھیتی باڑی کا جب خود اپنے ہاتھوں سے کاشت کر کے کاٹ کر پھر اپنے ہی ہاتھوں سے پرائے ہاتھوں میں دے دینی ہے،پھر بعد میں خود کا پیٹ بھرنے کے لیے پیسے دے کر گندم خریدنی پڑے گی۔ سٹرائیکس تو ہوں گی پھر قانون کی خلاف ورزیاں تو ہوں گی۔ کب تک لائسنسنگ کنٹرول آڈر(1957) کی دفعہ (7/1) کا اطلاق کرو گے؟ کب تلک گودام سیل کرو گے؟ کب تک جیلیں بھرو گے؟ ویسے جیلیں بھرنے سے یاد آیا یہاں بھی آم کے آم گھٹلیوں کے دام والا معاملہ ہے۔

کیونکہ آپکا یہ قانون ہر بار کی طرح اس بار بھی مڈل کلاس طبقہ پر لاگو ہو گا۔ انھیں دھر لیا جائے گا۔ پھر ان کی کھال ادھیڑ کر انکی جمع پونجی ہتھیا کر معاملہ نچلے لیول پر ہی آپس میں ہی کنٹرول کر لیا جائے گا۔
 یہ عجب بات ہے عوام کو حلال کر کے عوام کا گوشت عوام کو ہی کھلا کر انکا پیٹ بھرا جائے۔ کسان کے لیے اسکی زمین اسکی ماں کے مانند ہوتی ہے۔ اور ماں کی کوک سے جنم لینے والے بہن بھائیوں کے مانند ہوتے ہیں۔ بھلا تم ہی سوچ کر بتاؤ کوئی اپنے بہن بھائیوں کو اپنے ہاتھوں سے دوسروں کو اس لیے سونپ دے کہ وہ تعداد میں ذیادہ ہیں؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :