
شاہ محمود قریشی اسرائیل کی دم پر بیٹھ گئے ہیں!
منگل 25 مئی 2021

سلمان دُرانی
شاہ محمود قریشی کے رات کو سی این این کی اینکر کو دئیے گئے انٹرویو کو anti-semitic بنانے کی کوشش بھی بالآخر دم توڑ گئی۔ یہ کوشش اسرائیل کے لئیے اپنے ظلم سے توجہ ہٹانے کی آخری کوشش تھی۔ اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ یہ anti-semitic آخر کیا بلا ہے جو رات سے مسلسل ڈسکس ہورہی ہے؟
ویسے تو یہ ہٹلر کے یہودیوں پر مظالم کے بعد یہودیوں کی ایجاد کردا ایک ٹرم ہے جس کی بنیاد پر یورپ میں قوانین بھی بنے ہوئے ہیں کہ یہودیوں سے متعلق کوئی بھی تعصبانہ بات کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، قانوناً جرم ہے۔ مگر اس کو استعمال اسرائیل کے مظالم کو چھپانے کے لئیے کیا جاتا رہا ہے۔ اسرائیل آج تک فلسطینیوں پر ظلم ڈھاتا آیا ہے اور جو اس کے اس عمل پر تنقید کرتا تھا اس پر anti-Semitism کا الزام لگا کر اقوام عالم کو قائل کرنے کی کوشش کرتا تھا کہ وہ بہت مظلوم ہے، مسلمان ان سے اس بات پر نفرت کرتے ہیں کہ وہ یہودی ہیں۔
اسرائیل اس سے پہلے ہی بیانیے کی جنگ ہار چکا تھا کیونکہ عالمی میڈیا کے تیور اس بار بدلے بدلے سے تھے۔ اور اگر ہم کڑیاں ملائیں تو اس بار دنیا میں کسی ملک نے بھی اسرائیل کا اس طرح سے ساتھ نہیں دیا جس طرح سے ہمیشہ دیتے تھے۔ شائید اس وجہ سے بھی کہ امریکہ سرکار اس بار اسرائیل کے ساتھ نہیں کھڑے تھے۔ امریکی نائب صدر کا اسرائیل کے لئیے حمایتی ٹویٹ اور پھر صدر بائیڈن کا اسرائیل فلسطین مسئلے پر رک رک کر اور سوچ سوچ کر بیان دینا، جیسے وہ اسرائیل کا ساتھ دینا نہیں چاہ رہے مگر مجبور ہیں، اس کی سادہ سی مثال ہے۔ بائیڈن نے بھی جنگ بندی کی اپیل کی کیونکہ وہ فی الحال عرب کے مسئلے میں پھنسنا نہیں چاہتے۔ امریکہ کا سارا فوکس اس وقت چائنہ پر ہے۔
واپس آتے ہیں، اسرائیل آج تک جدید جنگی تقاضوں کے اصولوں پر فلسطینیوں پر ظلم کرتا تھا۔ میڈیا کا کنٹرول جن تقاضوں میں اول پر ہے۔ اس کے علاؤہ اسرائیل نے یورپی حکمرانوں کو اپنے حق میں قائل کیا ہوا تھا اس کا اثر بھی ٹوٹتا جارہا ہے۔ اس بات کی تفصیل کو میں اس سازشی تھیوری سے جوڑتا ہوں کہ اسرائیل کا اصل مسئلہ عرب نہیں ہیں، وہ تو عربیوں کو ساتھ ملا کر یورپیوں کو پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ ہٹلر کے مظالم کو اب تک بھولا نہیں ہے۔ فلسطین کمزور اور آسان ہدف ہے، اس پر مظالم کرکے اسرائیل دراصل پیغام کسی اور کو دینا چاہتا ہے۔ وہ خود پر اسلاموفوبیا کا الزام بھی نہیں لگنے دیتا کیونکہ اس کو بہرحال عربیوں کی لابی میں اپنی جڑیں مضبوط کرنی ہیں۔ اس کی حالیہ مثال Abraham Accords جیسا ایک معاہدہ ہے جس میں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے تجارتی تعلقات بڑھانے پر زور دیا۔ یہی نہیں مجھے سعودی عرب کا ایک بیان بھی یاد ہے جس میں اس نے ایران کو ختم کرنے کے لئیے اسرائیل سے مدد مانگی تھی اور کہا تھا کہ جتنا پیسہ، تیل چاہیئے میں دوں گا، ایران پر حملہ کردو۔ یہ وہ اکائیاں ہیں جو ہمیں تسلیم کرنے پر مجبور کرتی ہیں کہ اسرائیل کا اصل ہدف عرب نہیں ہے۔ وہ مار کہیں رہا ہے اور دکھا کسی اور کو رہا ہے۔ حال ہی میں ایک پولینڈ سے تعلق رکھنے والے سیاستدان سے اسی موضوع پر بات ہوئی تو انہوں نے بھی اس بات کی توجیہہ پیش کی کہ یورپ میں بھی اسرائیل کے اس رویے کو یورپیوں کے لئیے خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہاں یہاں یہودیوں کے خلاف ایک عام نفرت پائی جاتی ہے اور یہ یہاں کی شدت پسند، قوم پرست تنظیموں کی وجہ سے ہے۔ جرمنی پولینڈ سمیت مختلف یورپی ممالک میں یہودیوں کو اپنی مخصوص ٹوپی پہننے کی بھی اجازت نہیں ہے کیونکہ اس سے ان کی شناخت بہت جلد ہوجاتی ہے اور ان پر حملے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ یورپ میں پچھلے کافی ٹائم سے یہودیوں کی عبادتگاہوں پر مسلمان حملے نہیں کرتے رہے، بلکہ یورپین شہری کرتے رہے ہیں جس کو آج تک خبروں میں رپورٹ نہیں کیا گیا۔ اس ساری معلومات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل عرب لابی کو ہائی جیک کرکے یورپ کو ایک پیغام دینا چاہتا ہے کہ اب وہ اپنی خیر منا لے۔
مگر اسرائیل، جس کا پچھلے گیارہ دن کی کشیدگی میں فلسطین کی دفاعی مسلح تنظیم نے بیڑہ غرق کردیا ہے وہ اس خواب سے بیدار ہوچکا ہے کہ وہ بیرونی اور اندرونی طور پر اتنا کمزور ہے کہ وہ اتنے بڑے خواب نہیں دیکھ سکتا۔ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل نے ایسا اپنی عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے کیا کیونکہ اسرائیل کے اندرونی مسائل ایک حد کراس کرچکے ہیں اور الیکشن بھی قریب ہیں۔ مطلب اسرائیل میں الیکشن جیتنے کے لئیے فلسطینیوں کا خون بہانا ضروری ہوتا ہے؟ مگر نتن یاہو اس بار اس کھیل میں کامیاب نہیں ہوسکا اور اس کو اپنے ہی ملک میں اس کی حالیہ حرکت پر گالیاں پڑرہی ہیں۔ ہم فلسطین کے جنگ بندی کے بعد پیدا ہونے والے مسائل پر تو بات کر ہی لیں گے۔ چلیں اس بار اسرائیل کی شکست اور اس کے بعد پیدا ہونے والے اندرونی اور بیرونی مسائل پر جشن مناتے ہیں۔
ویسے تو یہ ہٹلر کے یہودیوں پر مظالم کے بعد یہودیوں کی ایجاد کردا ایک ٹرم ہے جس کی بنیاد پر یورپ میں قوانین بھی بنے ہوئے ہیں کہ یہودیوں سے متعلق کوئی بھی تعصبانہ بات کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، قانوناً جرم ہے۔ مگر اس کو استعمال اسرائیل کے مظالم کو چھپانے کے لئیے کیا جاتا رہا ہے۔ اسرائیل آج تک فلسطینیوں پر ظلم ڈھاتا آیا ہے اور جو اس کے اس عمل پر تنقید کرتا تھا اس پر anti-Semitism کا الزام لگا کر اقوام عالم کو قائل کرنے کی کوشش کرتا تھا کہ وہ بہت مظلوم ہے، مسلمان ان سے اس بات پر نفرت کرتے ہیں کہ وہ یہودی ہیں۔
(جاری ہے)
کل رات کے اس انٹرویو سے یہ توجیہہ بھی دم توڑ گئی۔
اگر آپ نے اب تک وہ انٹرویو نہیں سنا، تو ضرور دیکھیں۔ (یہاں انٹرویو لگایا جاسکتا ہے)اسرائیل اس سے پہلے ہی بیانیے کی جنگ ہار چکا تھا کیونکہ عالمی میڈیا کے تیور اس بار بدلے بدلے سے تھے۔ اور اگر ہم کڑیاں ملائیں تو اس بار دنیا میں کسی ملک نے بھی اسرائیل کا اس طرح سے ساتھ نہیں دیا جس طرح سے ہمیشہ دیتے تھے۔ شائید اس وجہ سے بھی کہ امریکہ سرکار اس بار اسرائیل کے ساتھ نہیں کھڑے تھے۔ امریکی نائب صدر کا اسرائیل کے لئیے حمایتی ٹویٹ اور پھر صدر بائیڈن کا اسرائیل فلسطین مسئلے پر رک رک کر اور سوچ سوچ کر بیان دینا، جیسے وہ اسرائیل کا ساتھ دینا نہیں چاہ رہے مگر مجبور ہیں، اس کی سادہ سی مثال ہے۔ بائیڈن نے بھی جنگ بندی کی اپیل کی کیونکہ وہ فی الحال عرب کے مسئلے میں پھنسنا نہیں چاہتے۔ امریکہ کا سارا فوکس اس وقت چائنہ پر ہے۔
واپس آتے ہیں، اسرائیل آج تک جدید جنگی تقاضوں کے اصولوں پر فلسطینیوں پر ظلم کرتا تھا۔ میڈیا کا کنٹرول جن تقاضوں میں اول پر ہے۔ اس کے علاؤہ اسرائیل نے یورپی حکمرانوں کو اپنے حق میں قائل کیا ہوا تھا اس کا اثر بھی ٹوٹتا جارہا ہے۔ اس بات کی تفصیل کو میں اس سازشی تھیوری سے جوڑتا ہوں کہ اسرائیل کا اصل مسئلہ عرب نہیں ہیں، وہ تو عربیوں کو ساتھ ملا کر یورپیوں کو پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ ہٹلر کے مظالم کو اب تک بھولا نہیں ہے۔ فلسطین کمزور اور آسان ہدف ہے، اس پر مظالم کرکے اسرائیل دراصل پیغام کسی اور کو دینا چاہتا ہے۔ وہ خود پر اسلاموفوبیا کا الزام بھی نہیں لگنے دیتا کیونکہ اس کو بہرحال عربیوں کی لابی میں اپنی جڑیں مضبوط کرنی ہیں۔ اس کی حالیہ مثال Abraham Accords جیسا ایک معاہدہ ہے جس میں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے تجارتی تعلقات بڑھانے پر زور دیا۔ یہی نہیں مجھے سعودی عرب کا ایک بیان بھی یاد ہے جس میں اس نے ایران کو ختم کرنے کے لئیے اسرائیل سے مدد مانگی تھی اور کہا تھا کہ جتنا پیسہ، تیل چاہیئے میں دوں گا، ایران پر حملہ کردو۔ یہ وہ اکائیاں ہیں جو ہمیں تسلیم کرنے پر مجبور کرتی ہیں کہ اسرائیل کا اصل ہدف عرب نہیں ہے۔ وہ مار کہیں رہا ہے اور دکھا کسی اور کو رہا ہے۔ حال ہی میں ایک پولینڈ سے تعلق رکھنے والے سیاستدان سے اسی موضوع پر بات ہوئی تو انہوں نے بھی اس بات کی توجیہہ پیش کی کہ یورپ میں بھی اسرائیل کے اس رویے کو یورپیوں کے لئیے خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہاں یہاں یہودیوں کے خلاف ایک عام نفرت پائی جاتی ہے اور یہ یہاں کی شدت پسند، قوم پرست تنظیموں کی وجہ سے ہے۔ جرمنی پولینڈ سمیت مختلف یورپی ممالک میں یہودیوں کو اپنی مخصوص ٹوپی پہننے کی بھی اجازت نہیں ہے کیونکہ اس سے ان کی شناخت بہت جلد ہوجاتی ہے اور ان پر حملے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ یورپ میں پچھلے کافی ٹائم سے یہودیوں کی عبادتگاہوں پر مسلمان حملے نہیں کرتے رہے، بلکہ یورپین شہری کرتے رہے ہیں جس کو آج تک خبروں میں رپورٹ نہیں کیا گیا۔ اس ساری معلومات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل عرب لابی کو ہائی جیک کرکے یورپ کو ایک پیغام دینا چاہتا ہے کہ اب وہ اپنی خیر منا لے۔
مگر اسرائیل، جس کا پچھلے گیارہ دن کی کشیدگی میں فلسطین کی دفاعی مسلح تنظیم نے بیڑہ غرق کردیا ہے وہ اس خواب سے بیدار ہوچکا ہے کہ وہ بیرونی اور اندرونی طور پر اتنا کمزور ہے کہ وہ اتنے بڑے خواب نہیں دیکھ سکتا۔ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل نے ایسا اپنی عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے کیا کیونکہ اسرائیل کے اندرونی مسائل ایک حد کراس کرچکے ہیں اور الیکشن بھی قریب ہیں۔ مطلب اسرائیل میں الیکشن جیتنے کے لئیے فلسطینیوں کا خون بہانا ضروری ہوتا ہے؟ مگر نتن یاہو اس بار اس کھیل میں کامیاب نہیں ہوسکا اور اس کو اپنے ہی ملک میں اس کی حالیہ حرکت پر گالیاں پڑرہی ہیں۔ ہم فلسطین کے جنگ بندی کے بعد پیدا ہونے والے مسائل پر تو بات کر ہی لیں گے۔ چلیں اس بار اسرائیل کی شکست اور اس کے بعد پیدا ہونے والے اندرونی اور بیرونی مسائل پر جشن مناتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.