سکھر ٹرین حادثہ: ایک تبصره

جمعرات 24 جون 2021

Sami Uddin Raza

سمیع الدین رضا

7 جون کو ایک ایسا حادثہ پیش آیا جس نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ پاکستان ریلویز کی ٹرینوں میں سفر کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے. اطلاعات کے مطابق یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب ملت ایکسپریس نامی ٹرین کی بوگیاں پٹری کے ویلڈنگ جوائنٹس ٹوٹنے کی وجہ سے"ڈی ریل" ہو کر دوسری طرف موجود " ڈاؤن" پٹری پر الٹ گئیں. شومئی قسمت " ڈاؤن" پٹری پر دومنٹ بعد کراچی جانے والی سرسید ایکسپریس آن موجود ہوئی.رات کی تاریکی اور وقت کی کمی کے باعث ڈرائیور بروقت بریک نہ لگا سکا اور سرسید ایکسپریس کا انجن ملت ایکسپریس کی الٹی ہوئی بوگیوں سے جا ٹکرایا.

اس شديد تصادم کے نتیجے میں 65 مسافر جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے.
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اس حادثے پر گہرے صدمے کا اظہار کیا اور حادثے کی تفشیش کرنے کا حکم دیا. سابق وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق نے ریلوے پٹریوں کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کو حادثے کا سبب قرار دیا. سبب کچھ بھی ہو مگر اس دلخراش واقعے نے ایک حقیقت واضع کردی کہ پاکستان ریلویز دوران سفر مسافروں کی سلامتی کو یقینی بنانے میں ناکام ہوچکی ہے .

اس ضمن میں مختلف ادوار میں برسر اقتداد آنے والی حکومتوں نے جو وعدے کیے تھے وه سب ریت کی دیوار ثابت ہوئے ہیں. اس واقعے نے ریلوے میں موجود سال خورده پٹریوں, ناقص سنگلنگ سسٹم جیسی سنگین خرابیوں کو واضح کر دیا جو سابق حکمرانوں کی طرف سے بارہا کئے جانے والے بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود دور نہ کی جاسکیں.
مزید برآں پاکستان ریلویز سے منسلک عہدیداران اور وزراء کا اپنی کوتاہی قبول نہ کرنا اور اس حادثے کا سارا ملبہ سابقہ حکومتوں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قراردینا ایک افسوسناک پہلو ہے۔

(جاری ہے)

اس ضمن میں ن لیگ کے خواجہ سعد رفیق، پی ٹی آئی کے چوہدری فواد اور وزیر داخلہ کے بیانات اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ ہمارے ان وزرا کو اپنا اقتدار میں رہنا عوام کی زندگیوں سے زیاده عزیز ہے
.پاکستان ریلویز ماضی میں بھی مسافروں کی سلامتی یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے۔ اگر ہم ماضی میں ہونے والے حادثات پر نظر ڈالیں تو یہ بات ہمارے علم میں آتی ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں ان جان لیوا حادثوں کی تعداد بہت زیاده بڑھ گئی ہے۔ آئے دن ہم مسافر اور مال بردار گاڑیوں کی بوگیوں کی پٹری سے اترنے کی خبریں سنتے رہتے ہیں.

اور کئی تو ایسے واقعے ہیں جنہیں خبروں میں جگہ تک نہیں ملتی. ان سب حادثات کی وجہ پاکستان ریلویز کا وہی فرسودہ انفرااسٹرکچر ہے. دیگر اسباب پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انگریزوں کے دور میں بچھی ہوئی پٹریاں، ناقص انٹرلاکنگ سسٹم اور اپنی ميعاد پوری کرنے والے ریلوے انجن اور بوگیاں بھی آئے دن نئے حادثے کو ریکارڈ بک میں درج کرانے کا سبب بنتی رہتی ہیں۔
ان سب چیزوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان ریلویز کو اپنے تمام شعبوں میں جدید اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے.

مزید برآں ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ملک میں انگریز دور کی بچھی ہوئی پٹڑیوں کو ازسر نو تبدیل کیا جائے. ایسے انجن اور ڈبے جو اپنی ميعاد پوری کر چکے ہیں انہيں ریلوے نظام سے خارج لیا جائے. الغرض مختصر بات کی بے تو پاکستان ریلویز کو اپنے اس نظام( جو گذشتہ 150 سال سے چل رہا ہے) کو جديد خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے. وگرنہ اسی طرح مسافروں کی زندگیاں حادثات کی نظر ہوتی رہیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :