افغانستان میں قیام امن کا مسئلہ !

پیر 19 جولائی 2021

Sami Uddin Raza

سمیع الدین رضا

افغانستان میں امريكي افواج کے انخلا کے بعد بالکل ویسے ہی مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں جیسے سوویت یونین کی واپسی کے وقت دیکھے گئے تھے. افغان سرزمین غیر ملکی افواج سے تقريباً خالی ہوچکی ہے. مشہور زمانہ بگرام ایٹر بیس ویران ہو چکا ہے. اور وہاں موجود فوجی سازوسامان اس کی ویرانی کو چار چاند لگا رہا ہے۔
1979 کے بعد سے افغانستان خانہ جنگی کا شکار رہا ہے۔ لیکن موجوده غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی کی صورتحال مزید شدت اختیار کرے گی۔ جس سے پاکستان سمیت سارا جنوبی خطہ متاثر ہوسکتا ہے .

کیونکہ افغان طالبان بڑی تیزی کے ساتھ پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ ایک کے بعد ایک اضلاع و شہر پر قبضہ کرتے جارہے ہیں۔

(جاری ہے)

تقریباً تمام شہروں پر افغان طالبان کا قبضہ مستحكم ہوچکا ہے. محض کابل ہی ایسا شہر بچا ہے جہاں حکومت کا کنٹرول ہے. اس صورتحال میں اگر جنگ ہوئی تو بہت سے مسائل افغان شہریوں کے لیے پیدا ہوجائیں گے۔
اس متوقع خانہ جنگی سے افغان باشندوں کو بچانے کے لیۓ امریکا تین وسطی ایشیائی ریاستوں (جن میں قازقستان, ازبکستان, اور تاجکستان شامل ہیں) سے مذاکرات میں مصروف ہے.

جن کا مقصد ي بتایا جا رہا ہے کہ امریکا ان ریاستوں سے جزوی طور پر افغان باشندوں کو پناہ فراہم کرنے کی درخواست کر رہا ہے۔ تاکہ شدید خانہ جنگی کی وجہ سے افغان باشندوں کی زندگی محفوظ سکے اور وہ وہاں سے امریکا کے ویزے کے لیے درخواست دے سکیں. مگر باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ تینوں ریاستیں افغان شہریوں کو اپنے ہاں پناه دینے سے انکاری ہو گئیں ہیں۔
یہ صورتحال افغان شہریوں کے لیے يقينا پریشان کن اور خوف سے خالی نہیں ہوگی.

کیونکہ ان کو افغان طالبان سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے امریکی افواج نہیں ہیں اور دوسری طرف افغان سیکورٹی فورس بھی افغان طالبان کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
پاکستان کا اس مسئلے کے حوالے سے کردار خاصا" محتاط" رہا ہے. اس نے محتاط حکمت عملی اپناتے ہوئے افغانستان سے ملنے والی سرحدیں بند کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ "پاکستان مزید اس تنازع کا حصہ بننا نہیں چاہے گا".

یہ بات ایک طرح سے سہی بھی ہے، کیونکہ اگر ہم ماضی کے اوراق پلٹیں تو ہمیں یہ پتا جلتا ہے کہ پاکستان افغانستان کے مسئلے پر امریکہ کی حمایت اور سوویت یونین کے مخالف گروپوں کا ساتھ دے کر مزید پریشانی اور مسائل خریدنا نہیں چاہتا.
افغانستان کے حالات کیسے بہتر ہوں گے فلحال اس حوالے سے کچھ کہہ نہیں سکتے. کیونکہ اس وقت حالات انتہائی خراب ہیں۔ طالبان افغان سکیورٹی فورس کو پسپا کرکے افغانستان کے دارلحکومت سمیت کئی اہم شہروں پر قابض ہورہے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ اس وقت سابق افغان جنگجو رہنماؤں نے بھی ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے جس سے مزید تباہی پھیلنے کا خدشہ ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ افغان عوام کو اس تباہی سے کیسے بچایا جائے ؟ اس صورتحال میں ان ممالک کو سامنے آنا چاہئیے جو وقتا فوقتا افغانستان کے معاملے میں دلچسپی لیتے رہے ہیں.

ان ممالک کو ایسی حکمت عملی تیار کرنی چاہئے جس سے افغان باشندوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچ جائے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :