نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کی اچانک واپسی

منگل 21 ستمبر 2021

Sarwar Hussain

سرور حسین

ایک شادی کی تقریب میں عین نکاح کے وقت دولہا کے  کسی عزیز کو لڑکی والوں کے مخالفین جو عموما ہر جگہ ہوتے ہیں  کی طرف سے کال موصول ہوئی کہ اگر شادی منعقد کی گئی تو دولہا سمیت کوئی بچ کر نہیں جا سکے گا۔صاحبان عقل و فہم  جانتے ہیں کہ ایسے مخالفین کا مقصد صرف رنگ میں بھنگ ڈال کر اپنے مخالف کو نیچا دکھا کر تسکین حاصل کرنا ہوتا ہے۔

یہ نہ تو سامنے آنے کے قابل ہوتےہیں اور نہ ہی کچھ کر سکنے کے۔  اسی لئے اگر دشمن داری زیادہ ہو تو لڑکے والوں کو ممکنہ دھکمیوں سے آگاہ کر دینا چاہئے کہ بھائی ایسے کاموں میں دھکمیوں وغیرہ سے ڈر کر بھاگنا ہے تو بہتر ہے آپ گھر پہ ہی رہیں تا کہ دونوں کی عزت محفوظ رہے۔کہا جاتا ہے کہ  رشتہ طے کرتے ہوئے لڑکے والوں کی شرافت، دیانت، دولت کے ساتھ ساتھ ان کی جرات مندی  اور ثابت قدمی کا بھی پتا کر لینا چاہئے ورنہ عین موقع پر یہ بزدلی دونوں گھروںکو لے بیٹھتی ہے۔

(جاری ہے)

بس ایسا ہی کچھ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نے ہمارے ساتھ بھی کیا اور میچ سے تھوڑی دیر قبل واپسی کا رخت سفر باندھ لیا ۔ ایک عام  کرکٹ ٹیم کی سربراہ مملکت جتنی سیکورٹی، پورے شہر کی ناکہ بندی، کاروباری سرگرمیوں کی معطلی، ٹریفک کی  وجہ سے پورےشہر کی خواری ، عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی اور جانے  کیا کیاکچھ ہم کرکٹ بحالی  کے نام پر عرصہ دراز سے برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن پھر بھی صدائے احتجاج بلند نہیں کرتے کہ چلیں ملک میں ایک صحت مند سرگرمی ضرور ہونی چاہئے اس سے چاہے ہمیں کتنی ہی اذیت کا شکار کیوںنہ ہونا پڑے۔

نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم عین میچ شروع ہونے سے قبل تماشائیوں سے بھرا سٹیڈیم چھوڑ کر  فرار ہو گئی۔وزیر اعظم پاکستان کی خاتون نیوزی لینڈ سربراہ  جیسنڈا آرڈرن کو فون پر دلائی گئی ہر طرح کی  یقین دہانی اور بغیر تماشائیوں کے میچز کروانے کی پیشکش بھی قبول نہیں کی گئی۔ظاہر ہے یہ معاملہ  محض ایک دھمکی کا نہیں بلکہ اس کے پیچھے بین الاقوامی سیاسی مقاصد بھی کارفرما ہیں جن کو پوری جرأت سے بے نقاب کرنے کے لئے تمام ذمہ داران کو کسی بھی مصلحت سے کام  نہ لیتے ہوئے فرنٹ لائن پر آنا چاہئے ۔

حیرت ہے کہ ٹیم جاتے ہوئے اپنے سفیر اور سفارتی عملے کو اس غیر محفوظ مقام پر ہی چھوڑ گئی   ۔اس طے شدہ دورے کو نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا، امریکہ اور برطانیہ  پر مشتمل فائیو آئیز نامی ایجنسی کے سیکورٹی  تھریٹ  پر منسوخ کیا گیا۔کیسی عجیب بات ہے کہ دنیا کےپانچ معتبر ممالک  کی جدید ٹیکنالوجی سے لیس یہ ایجنسی جو خطرات کے پیش آنے سے قبل ہی اس کی بو سونگھ لیتی ہے اس وقت کہاں سوئی ہوئی تھی جب ایک جنونی نیوزی لینڈر نے دن دہاڑے سوشل میڈیا پر اعلان کرتے ہوئے درجنوں نہتے مسلمانوں کے جسم کو  گولیوں سے چھلنی کر کے موت کی نیند سلا دیا۔

اس قدر دہشت ناک اور غیر انسانی عمل کے باوجود پاکستان سمیت کسی ملک نے وہاں  جانے اور کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے انکار نہیں کیا۔اس وقت نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کے آزردہ چہرے اور شلوار قمیض میں ملبوس ہو کر اسلامک سینٹر کا دورہ کرنے پر وہاں کی مسلم کمیونٹی ، متاثرہ خاندان   اور دنیابھر میں موجود مسلمان اتنا سنگین ناقابل تلافی نقصان ہونے کے باوجود اس کے محض وہاں آ جانے کے عمل پر ہی مطمئن ہو کر سب کچھ بھول گئےحالانکہ بطور سربراہ مملکت یہ  تواس کی ہر طرح سے اخلاقی و منصبی ذمہ داری تھی ۔

کیسا  جدید لطیفہ ہے کہ چند دن پہلے تک پورے یورپ اور امریکہ کے افغانستان میں پھنسے لوگ جان بچانے کے لئے محفوظ پناہ گاہ پاکستان آنے کے لئے پاکستانی سفارتخانے کے باہر ویزہ حاصل کرنے کے لئے  لائنوں میں لگے تھے اور اب امریکہ سمیت سب ملکوں کے شہریوں کے بخیر و عافیت گھروں کو پہنچتے ہی یہ ملک اچانک غیر محفوظ ہو گیا۔جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

دوسری طرف اب جبکہ ایک بین الاقوامی ٹیم کا طے شدہ دورہ  معطل ہو چکاتو ہمیں کچھ چیزوں پر پوری قوم کو اعتماد میں لے کر یہ بتانے کی  بھی ضرورت ہے کہ آخر کرکٹ کی بحالی سے ہماری قومی بقا کا کون سا اہم  مسئلہ جڑا ہوا ہے ۔صاحبان اقتدار کبھی ایوان بالا کی بلند چوٹیوں سے اتر کر ان علاقوں، کاروباری مراکز اور ٹریفک کی طویل اذیتوں کا شکار ہونے والے لوگوں کے مسائل بھی سنیں جو نہ تو ان میچز کے دوران اپنا کاروبار کر سکتے ہیں، نہ بزنس مین اپنے دفتر کھول سکتے ہیں ،نہ ایمبولینسز مریضوں کو ان راستوں سے لے کر گزر سکتی ہیں اور نہ ہی اس اذیت سے بچ سکتے ہیں جو گھنٹوں ٹریفک کے بند ہونے کی صورت میں سارے شہر کے لوگ بھگتتے ہیں۔

گردونواح کے تھانوں سے دھمکی آمیز پمفلٹ الگ سے  آنا شروع ہو جاتے ہیں کہ اگر میچز کے دوران آپ نے اپنی دکان یا دفتر کھولا تو سخت قانونی کاروائی کی جائے گی اور یوں ٹیکس دہندگان ان دنوں میں گھروں میں مقید ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ پوری دنیا میں میچز ہوتے ہیں لیکن نہ تو ایسی سیکورٹی فراہم کی جاتی ہے اور نہ ہی معمول کی عوامی سرگرمیاں معطل کی جاتی ہیں۔

ہر چند کہ ہمارے ہاں سیکورٹی کے خدشات دنیا بھر کی نسبت غیر معمولی نوعیت کے ہیں لیکن ہر قیمت پر  ہی اس کا انعقاد آخر اتنا اہم کیوں ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں میچز کروانے سے زیادہ حالات کو معمول پر لانے  کے لئے اپنی توجہ مرکوز کر نی چاہئے کہ اس کے دوران لوگوں کی زندگی بھی عذاب میں مبتلا نہ ہو،معمولات زندگی بھی جاری رہیں اور عوام  ذہنی کوفت اور اذیت کا شکار بھی نہ ہوں۔

سوچنے کی ضرورت ہے کہ  ایک ممکنہ خطرے کی صرف اطلاع پر انہوں نے اپنے کھلاڑی واپس بلا لئے اور ہم  ان میچوں کے دوران اپنے لاکھوں شہریوں کو جس عذاب میں مبتلا کردیتےہیں اس کا کبھی کسی نے احساس ہی نہیں کیا۔عرصہ دراز سے ہم نے اپنے قومی کھیلوں اور اس سے منسلک کھلاڑیوں کو بہت کرکٹ کے سبب بہت نظر انداز کیا ہے ۔قومی کھیل ہاکی  اور سکوائش میں دنیا پہ حکمرانی کرنے کے باوجود ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں ۔

اس وقت کرکٹ کی بحالی سے زیادہ ہمیں کھیل کے میدان  بحال کرنے کی ضرورت ہے جو ہماری آبادیوں میں بری طرح ناپید ہو گئے ہیں۔ خالی جگہوں پر دھڑا دھڑ سوسائیٹیز بننے کی بنا کر نوجوانوں کو کھیل کے میدان ہی میسر نہیں اور ان کے لئے سوائے منفی سرگرمیوں کا حصہ بننے کے کوئی چارہ نہیں رہا ۔آخری گزارش اپنے ملک کے کھلاڑیوں سے ہے کہ آج سے اپنی ڈائٹ اور ورزش میں نیوزی لینڈ کی ٹیم کے نام سے کچھ اضافہ کر لیں اور جب بھی موقع ملے ان کی گراؤنڈ میں ایسی ٹھیک ٹھاک درگت بنا ئیں کہ یہ لوگ اپنی  آئندہ نسلوں کو بھی بتائیں کہ پاکستان کو کبھی غیر محفوظ ملک کہہ کر وہاں سے واپس نہیں آنا ورنہ جہاں بھی کہیں میچ میں ان کے ہاتھ لگ گئے تمہاری خیر نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :