آزاد ریاست کے سیاسی غلام

ہفتہ 25 ستمبر 2021

Shabbir Chohan

شبیر چوہان

بہت عرصہ پہلے اندرون سِندھ اور جنْوبی پنجاب کے بارے میں  ایک تلخ اِنکشاف ہوا کہ بھٹہ خشت ( اینٹ ) کے مزدوْر اور وڈیروں کی زرعی زِمینوں کے ہاری باقاعدہ بِکتے ہیں اور یہ سِلسلہ نسل در نسل جاری ہے۔ اور یہ کہ زمین یا بھٹے کا مالک اپنی یہ مَلکیت جب کسی کو فروخت کرتا ہے تو ساتھ اس پہ کام کرنے والے مزدوروں اور ہاریوں کی قیمت بھی طے کر دی جاتی ھے جس بارے میں بِکنے والے نسل در نسل مظلوم غلام لا علم ہوتے ہیں۔

اْن کا کام صرف گدھوں کی طرح کام کرنا ہوتاہے۔ اپنے مستقبل ، حقْوق اور قِسمت کے بارے میں سوچنے کی ذِمہ داری سے وہ بری الذمّہ ہوتے ہیں۔ ان کی اپنی کوئی سوچ ہوتی ہے نہ اپنی مرضی سے جینا۔ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی اپنے مالک کے لیے طلوع آفتاب سے غروب تک کام کرتے ہیں۔

(جاری ہے)


یہ تلَخ اِنکشاف زِندگی بھر میرے لیے کرب کا باعث رہا اور رہے گا۔۔ مگر اب کے میرا یہ کرب دوگنا ہو چلا ہے جب سے نسل در نسل غْلاموں کی اِسی طرح کی ایک اور قبیل سے واسطہ پڑا ہے۔

یعنی نسل در نسل خاندانی سیا ست کے نسل در نسل سیاسی غْلام۔جو بھٹہ خشت کے مزدوروں اور وڈیروں کے ہاریوں کی طرح باپ دادا سے خاندانی سیاست کی چوکھٹ پہ غلامی کا طوق گلے میں ڈالے ظْلم کی چکّی میں پِستے چلے آرہے ہیں۔بلکہ میں یہ کہوں گا کہ غلام ابن غلام ابن غلام قسم کی نسل ہم سب کے لیے غلامی، غربت،جاہلیت اور پسماندگی کا باعث بن رہی ہے۔
اسی طرح کی ایک اور قبیل ضلع مانسہرہ میں پائی جاتی ہے  ضلع مانسہرہ میں بھی موروثی اور خاندانی سیاست کا راج رہا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی نسل در نسل خاندانی سیاست کی نسل در نسل غلام ہیں
ان کا قصور فقط یہ ہے کہ ان کے دادا جی مرحوم نے برادری ،قبیلے یا اپنے گاؤں کی محبت میں 1970ء میں ایک لیڈر صاحب کی ممبری کے لیے ووٹ کی پرچی پرٹھپّہ لگانے کی غلطی کا اِرتکاب کیا تھا۔

تب سے لے کر پہلے وہ خود پھر ان کے بیٹے ،پھر اْس کے آگے ان کے پوتے اِس ازلی و ابدی غلامی میں سختی سے جکڑ دیے گئے۔ حتٰی کہ آج اْس بابا جی کا مسکین پڑپوتا بھی اسُی ڈیرے کے کھونٹے سے بندھا ہوا ہے اور ناکردہ گْناہوں کی سزا بھْگت رہا ہے۔"جی کیا کریں۔ہمارا اُن سے خاندانی تعلق ہے "۔ جی کیا کریں۔ ہر روز ایمان تو نہیں بدل سکتے " " اوہ جی۔باپ تو ایک ہی ہوتا ہے " وغیرہ وغیرہ وہ جاہلانہ تاویلات ان لوگوں نے گَھڑ رکھی ہیں کہ اللہ توبہ۔


مانسہرہ کی جو موجودہ نوجوان نسل ہے انہوں نے ایک نیا ٹرینڈ شروع کیا ہوا ہے جن لوگوں کے پاس دو چار پیسے ہیں اور وہ دو تین لوگ مل کے ایک تنظیم بنا لیتے ہیں کوئی پوچھے تو جواب ملتا ہے کہ او جی ہم نے تو تنظیم اپنے علاقے کی پسماندگی کو ختم کرنے کے لیے بنائی ہے خیر نوجوان ان پر یقین کر لیتے ہیں اور یہ تنظیمیں اپنے ساتھ کیٹرنگ کا بزنس کرنے والے لوگوں کو بھی ساتھ ملا لیتی ہیں کیونکہ کیٹرنگ کا بزنس کرنے  والے لوگ بھی تو اسی علاقے سے ہیں ان کا بھی تو ضلع ہے انکا بھی تو گاؤں ہے وہ بھی تو چاہتے ہیں کہ ان کا علاقہ ترقی کرے اب ان تنظیموں کو پیٹنے کا بزنس کرنے والے لوگوں سے فائدہ کیا ہے  میں بتاتا ہوں جب یہ تنظیمیں اپنی کارنرمیٹنگ کوئی جلسہ کرتی ہیں تو یہ لوگ ان کے بڑے کام آتے ہیں کنوپیا کرسیاں پانی قالین دریاں وغیرہ  انہیں مفت مل جاتی ہیں    پھر یہ تنظیمیں سوشل میڈیا پر اپنا کام جاری رکھتی ہیں اور روز نئے نئے لوگوں کو اپنے ساتھ اپنی تحریک کا حصہ بناتی ہیں انہی علاقوں کے لوگ ان کے ساتھ بڑی تعداد میں شامل ہوجاتے ہیں اور ان کی ہر آواز پر لبیک کہتے ہیں ایسے یہ تنظیمیں اپنے جلسے کارنرز میٹنگ وغیرہ وغیرہ  کرتی ہیں ۔

۔۔۔
اور جہاں بہت ساری تنظیم بنیں وہاں تنظیموں میں مخالفت تو ضرور ہوتی ہے اور یہ تنظیمیں آپس میں ایک دوسرے کے مخالف روز لفظی گولا باری کرتی رہتی ہیں لیکن بے وقوف ان نوجوانوں کو بنایا ہوا ہوتا ہے جوان کی ہر آواز پر لبیک کہتے ہیں اور ان تحریکوں اور تنظیموں کی جو منزل ہوتی ہے اس پر بات کریں تو ڈسٹرکٹ لیول پر جو سیاسی ارکان ہے جن کا مختلف پارٹیوں سے تعلق ہے چند رقم کے عوض یہ تنظیمیں ان سے جا ملتی ہیں اور زیادہ تر ان تنظیموں کی کوشش رہتی ہے کہ یہ اسی لیڈر صاحب سے ملیں کہ جنہیں ان کے باپ یا دادا نے 1970 میں ممبری واسطے ووٹ دیا تھا   اور ان تنظیموں کی ہر بات پر لبیک کرنے والے وہ نوجوان جن کو بھٹہ خشتوں کی طرح باقاعدہ طور پر  فروخت کر دیا جاتا ہے  پھر ان تنظیموں کے اعلیٰ عہدیدار جنہوں نے وہ تنظیم بنائی تھی  ان کے گیت گانا شروع کر دیتے ہیں کہ جس سیاسی رکن نے انہیں خریدا تھا
جی، کیا کریں ہمارا ان سے خاندانی تعلق ہے، جی کیا کریں" ہر روز ایمان تو نہیں بدل سکتے اور یہ باپ تو ایک ہی ہوتا ہے اس طرح کے کئی سارے جملے سننے کو ملتے ہیںاور پھران تنظیموں کا سپورٹر ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہا ہوتا ہے کہ جو گناہ اس نے کیا ہی نہ ہو۔

۔  
حالانکہ جس لیڈر کے لیے وہ یہ باتیں کہہ رہے ہوتے ہیں وہ خود تو الیکشن کے الیکشن خاندانی تعلق بھی نئے سِرے سے اِستوار کرتے ہیں سیاسی ایمان بھی بدل لیتے ہیں اور سیاسی باپ بھی۔ ان لیڈر صاحب کا اپنا نہ تو مستقل کوئی تعلق ،نہ مستقل ایمان اور نہ ہی کوئی سیاسی باپ اہم ہوتا ہے بلکہ اس کے نزدیک فقط اپنا ذاتی مفاد یعنی اقتدار اہم ہوتا ہے۔


لیڈر صاحب کا نظریہ ،جماعت اور ایمان بھلے روز بدلے اس کے خاندانی غلام کی رسّی بہرحال اس کے ہاتھ میں رہتی ہے۔ جن کے بل بوتے پر وہ سیاست دان کسی بھی سیاسی جماعت یا حکومت سے اپنا حصہ وصول کرتا ہے۔ جبکہ اس سیاسی غلام کی اپنی سوچ اور فکر نہیں ہوتی۔ اس کی اپنی کوئی جماعت اور سیاست نہیں ہوتی۔ اس مظلوم کی اپنی کوئی قسمت ،عزت اور رائے نہیں ہوتی۔

یہ اپنی آزادی بلکہ کسی آزادانہ انتخاب کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس بے چارے کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ کوئی منزل نہیں ہوتی۔ جو کچھ ہوتا ہے آقا کا ہوتا ہے۔ اپنے خاندانی سیاسی آقا کی تعریف وتوصیف کرتے رہنا اس کا مقدر ٹھہرتا ہے۔اپنے آقا کے سیاسی مخالفین کی توہین اور تضحیک کرنا اس کا شیوہ ہوتا ہے۔اپنے آقا کے سیاسی مخالفین کا تمسخر اْڑانا اور گالیاں دینا اس کی وفاداری ہے۔


اِن نسل در نسل بے چاروں کی اْجرت کیا ہے کچھ بھی تو نہیں۔ فقط یہی کہ ان کا لیڈر ہنس کے ان سے بات کر لے۔ ڈیرے پہ زیادہ انتظار کرائے بغیر مِل لے۔ یا یہ کہ ایک تبادلہ ، ایک چپڑاسی کی تقرری ، ایک معطل ملازم کی بحالی ، محلے کی ایک چھوٹی سی اسکیم یا تھانے سے ایک ضمانت ،ایک فاتحہ۔۔۔وغیرہ وغیرہ اور بس۔
لیڈر صاحب مندرجہ بالا اْجرتوں میں سے ایک بھی ادا کر دے تو سیاسی غْلام کا پڑھا لِکھا برخوردار بھی فخریہ انداز میں گھوڑے کے ٹرینی (Trainer ) بچے کی طرح تانگے کے ساتھ ساتھ ٹَکّا ٹَک دوڑنا شروع ہو جاتا ہے۔

اور کچھ عرصہ بعد غلامی کے اس تانگے میں رضاکارانہ طور پر یہ بھی جْت جاتا ہے۔ اِسطرح نسل درنسل سیاسی غلْامی کا یہ سفر بغیر کسی تعطل کے جاری رہتا ہے۔ مجھ جیسا کوئی سرپِھرا آڑے آئے تو اْس کو شدید تضحیک اور اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعہ نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ مگر تمام تر تضحیک کے باوجود مجھے غلاموں کے اس طبقے سے ہمدردی ہے۔
میرا خیال ہے اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں سندھ کے ہاریوں ،جنوبی پنجاب خیبر پختونخوا اور خاص کر ضلع مانسہرہ  اور ملک کے دوسرے علاقوں کے سیاسی غلاموں کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے لیے اْٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔

ہمیں ان سیاسی غلاموں کو بتانا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں سیاسی کارکن کی کیا حیثیت ہوتی ہے انہی سیاسی کارکنوں میں سے کوئی وزیر اور کوئی وزیر اعظم بنتا ہے۔ ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں سیاسی کارکن منشور دیکھ کر کسی سیاسی جماعت کا حصہ بنتا ہے نا کہ کسی شخصیت یا خاندان کا غلام بنتا ہے۔ اور وہ سیاسی کارکن اپنے وقت کے لیڈر اور وزیراعظم کا احتساب کرنے کی بھی جرات رکھتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنے لوگوں کو شعور دلانا ہے اور ان کو ان کی اہمیت اور حقوق سے روشناس کرنا ہے۔ اگر آج بھی ہم نے نہ سوچا تو پھر ہماری آنے والی نسلوں کو بھی اسی غلامی کا طوق پہننا پڑے گا اور وہ ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :