عوام دوست قیادت

ہفتہ 6 فروری 2021

Shahid Afraz

شاہد افراز خان

حالیہ عرصے میں عالمی سطح پر چین کے نمایاں کردار کو اجاگر کرنے میں چینی صدر شی جن پھنگ کا کلیدی کردار ہے۔انہوں نے عوام کو فوقیت دیتے ہوئے نہ صرف ملکی سطح پر موئثر گورننس کا ماڈل متعارف کروایا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی  تمام کثیر الجہتی پلیٹ فارمز پر  عوامی مفاد  پر مبنی اقدامات کی حمایت کی ہے اور ٹھوس تجاویز پیش کی ہیں۔

یہ چینی صدر کی متحرک قیادت کا ثمر ہی ہے کہ چین غربت کے مکمل خاتمے سے ایک معتدل خوشحال معاشرے کی تعمیر کے لیے کوشاں ہے۔چینی صدر کا عوام دوست رویہ اور عام افراد سے مسلسل غیر رسمی تبادلہ خیال ، انھیں نہ صرف چین بلکہ بیرون ملک بھی ایک مقبول رہنما کے طور پر پیش کرتا ہے۔ شی جن پھنگ ہمیشہ اہم تہواروں کے موقع پر عوام کے پاس جاتے ہیں اور عام افراد کے حالات زندگی دریافت کرتے ہوئے موقع پر اہم ہدایات جاری کرتے ہیں۔

(جاری ہے)


تہواروں کا زکر کیا جائے تو چینی ثقافت میں جشن بہار اپنی اہمیت کے لحاظ سے سب سے بڑا تہوار کہلاتا ہے ،یہ خاندانوں کے ملاپ کا موقع ہوتا ہے جس میں ملک کے مختلف حصوں میں روزگار کے سلسلے میں مقیم افراد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جشن بہار کی خوشیاں اپنے گھر والوں کے ساتھ منائیں۔ جشن بہار کی مناسبت سے ملک گیر مختلف رنگا رنگ سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں چینی باشندے بھرپور طور پر شریک ہوتے ہوئے اس تہوار کی خوشیوں سے بھرپور لطف اٹھاتے ہیں۔


  جشن بہار کے موقع پر چین کی اعلیٰ قیادت بھی اپنے عوام کے ساتھ  گھل مل کر ان خوشیوں کو مناتی ہے اور  عوام دوست رویوں کا عملی نمونہ دیکھا جا سکتا ہے۔اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے چینی صدر شی جن پھنگ نے جشن بہار سے قبل صوبہ گیوئی جو کا دورہ کیا اور  مقامی باشندوں سے اُن کے حالات زندگی دریافت کیے۔حالیہ برسوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ چینی صدر نے مختلف صوبوں میں شہری تعمیر و ترقی کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ تواتر سے دیہی علاقوں یا گاوں کے دورے کیے ہیں تاکہ نچلی سطح پر عوام کو درپیش مسائل کا خود مشاہدہ کیا جا سکے اور غیر رسمی طور پر دیہی باشندوں سے تبادلہ خیال کیا جا سکے۔

انہوں نے صوبہ گیوئی جو  میں بھی میاو قومیت کے ایک گاوں کا دورہ کیا ،جشن بہار کی مناسبت سے منعقدہ ثقافتی سرگرمیوں میں شریک افراد کے ساتھ تبادلہ خیال کیا اور ملک میں بسنے والی تمام اقلیتوں کے لیے جشن بہار کے موقع پر نیک تمناوں کا اظہار کیا۔انہوں نے  بی جیے شہر میں دریائے وو جیانگ کے ماحولیاتی تحفظ کا  جائزہ بھی لیا۔یہ شہر ماضی میں چین کا ایک پسماندہ ترین علاقہ کہلاتا تھا لیکن مرکزی حکومت اور دیگر ریاستی اداروں کے تعاون سے  اس شہر میں قابل کاشت رقبے کو بڑھاتے ہوئے بنجر پہاڑوں کو  سبزے میں تبدیل کیا گیا ، بعد میں دیہی باشندوں نے ماہرین کی رہنمائی میں  زراعت ،جانوروں کی افزائشی صنعت اور دیہی سیاحت کو فروغ دینا شروع کیا۔

بی جیے شہر نے مشکلات پر قابو پاتے ہوئے فطرت سے ہم آہنگ ترقی کی اور   غربت کی لکیر سے باہر نکلنے میں کامیاب رہا۔یہی وجہ ہے کہ صدر شی جن پھنگ نے بی جیے کی کامیابی کی کہانی کو "چین کی انسداد غربت مہم کا نمونہ" قرار دیا ہے۔
چینی صدر نے ایک ایسے موقع پر صوبہ گیوئی جو کا دورہ کیا ہے جب یہاں کے عوام غربت کو  مکمل طور پر شکست دیتے ہوئے ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہیں۔

یہ بات قابل زکر ہے کہ گیوئی جو کا شمار غریب آبادی کے لحاظ سے چین کے سب سے بڑے صوبے میں کیا جاتا تھا  مگر حکومت کی بہترین پالیسیوں اور انسداد غربت کی کٹھن جدوجہد کی بدولت 2012 سے اب تک 90 ملین سے زائد افراد کو غربت سے باہر نکالا گیا ہے جبکہ سال 2020میں گیوئی جو کی جی ڈی پی 1.78 ٹریلین یوآن (276 بلین امریکی ڈالرز) تک پہنچ چکی ہے۔اس صوبے کا 92.5 فیصد رقبہ پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے اور  یہ چین کا واحد صوبہ ہے جہاں ہموار میدانی علاقہ نہیں ہے۔

گرم  مرطوب آب و ہوا کے ساتھ ساتھ بارش کے وافر پانی کی بدولت یہ علاقہ ایک منفرد ماحولیاتی نظام کا حامل ہے۔اسی طرح سیاحت کے مواقع ،یہاں کی مقامی ثقافت اور ترقیاتی امکانات اسے کئی اعتبار سے دیگر علاقوں سے ممتاز کرتے ہیں۔  
انہی مقامی خصوصیات کے تحت چینی حکومت نے صوبہ گیوئی جو میں انسداد غربت کے لیے موئثر پالیسیاں اپنائیں اور دیہی معیشت کو فروغ دیا گیا۔

زرعی شعبے میں جدت لائی گئی ،کسانوں کو قرضے فراہم کیے گئے ، لائیو اسٹاک شعبے کی بہتری سے لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوا ،  انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی بدولت ای کامرس کو فروغ ملا جبکہ مقامی باشندوں کو بنیادی ضروریات زندگی مثلاً تعلیم ،رہائش اور صحت کی معیاری سہولیات میسر آئیں۔
صدر شی جن پھنگ نے صوبہ گیوئی جو کے عوام کے ساتھ جشن بہار کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہوئے یہ پیغام دیا ہے کہ اعلیٰ قیادت اپنے عوام سے کس قدر لگاو رکھتی ہے ،  عوام دوست رویے اور عوامی فلاح و بہبود ہی چینی کمیونسٹ پارٹی کی اولین ترجیح ہے اور اسی بنیاد پر  چین کی ترقی کو مزید عروج حاصل ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :