
یہ کم بخت تاریخ
جمعہ 14 اکتوبر 2016

شاہد سدھو
(جاری ہے)
اِس خطّے میں تاریخ کب سے بننا شروع ہوئی ؟ اِس تاریخی سوال کا جواب تو شاید اتنی آسانی سے نہ مِل سکے لیکن تاریخ ”ایجاد “ کرنے والے موٴرخوں کا ”کھُرا“ ناپا جاسکتا ہے۔
تاریخ سے نا بلد دیوانوں کا خیال ہے کہ تاریخ ”ایجاد“ کرنے والے موٴرخین کافی ” حساس “ اور ”نظریاتی“ ہوتے ہیں۔ اِن موٴرخین کی نشوونما پر جی ڈی پی کا کافی بڑا حِصّہ اُٹھ جاتا ہے، تب کہیں جاکر مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں تاریخ ظہور پذیر ہوتی ہے جو قوم کے نونہال سال بھر رٹا لگا کر حِفظ کرتے ہیں اور قوم کے ” حساس“ دانشور اس تاریخ کو قوم کے کُند ذہنوں میں کوٹ کوٹ کر بھرتے ہیں ۔ نظریاتی ٹکسال میں ڈھالی گئی اِس تاریخ کے زیرِ اثر مِلت کے مقدر کا ہر ستارہ اور آوارہ یہ فرماتا نظر آتا ہے، ”ہم“ نے ہندوستان پرہزار سال حکومت کی، ”ہم“ نے اسپین اور یورپ پر سات سو سال حکومت کی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ لال قلعے پر جھنڈا لہرانے کے لئے انقلابی روح والے ان جوانوں کا سارا زور لال قلعہ ریسٹورنٹ کی سالم مرغیوں کو مال غنیمت کی طرح بھنبھوڑ نے پر ہوتا ہے۔اگرچہ صلاح الدین ایوبیوں کے اِس دیس میں اٹھکیلیاں کرتی تاریخ اور مچلتے جغرافیہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے، لیکن مجال ہے کہ اِس بد کردار تِھرکتے ، بِدکتے جغرافیہ کا تاریخ میں ذکر بھی آئے۔ بُرا ہو اُن غیر حساس اور غیر نظریاتی ” غیر مُلکی ایجنٹوں“ کا جِن کی وجہ سے یہ سوال اُٹھا دیا جاتا ہے کہ اِس خِطّے کی تاریخ پانچ ہزار سال پُرانی ہے ، چودہ سو سال یا انہتر سال۔ کبھی کبھار یہ غیر دانشور حضرات ”حساس“ تاریخ سے بھی چھیڑ چھاڑ کی کوشش کرتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر خود بھی تاریخ کا حِصہ بن جاتے ہیں۔تاہم ہومیو پیتھک تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کے لئے اقبال کا ہر شاہین الٹنے پلٹنے اور جھپٹنے کے لئے مادر پدر آزاد ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس مردم خیز خِطّے میں تاریخ کی نظریں بغیر پتھرائے کئی بار لمحوں کو خطا کرتے اور صدیوں کو سزا پاتے بھی دیکھ چُکی ہیں ۔
ایک اور دانشور فرماگئے کہ ”تاریخ اپنے آپ کو دُہراتی ہے۔پہلی بار بطور سانحہ اور دوسری بار ایک مذاق کے طور پر۔“ یہ صاحب تاریخ کو دوبار دُہرا کر ہی خاموش ہوگئے اِن کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ ” مردِ کوہستانیوں اور لالئہ صحرائیوں “ کے دیس میں تاریخ گنتی بھول کر اپنے آپ کو دُہراتی چلی جائے گی۔ مغربی دانشور فرماگئے ہیں کہ ” تاریخ سے ہم صرف یہ سیکھتے ہیں کہ تاریخ سے ہم کُچھ نہیں سیکھتے۔“ دانشور کا یہ قول جو اسکی اپنی مغربی اقوام میں تو بُری طرح پٹ چُکا ہے، کی اس مشرقی قوم میں پذیرائی دیکھ کر آنجہانی کی روح بھی شاید یہاں کے کِسی مسخریہ ٹاوٴن کے گورا قبرستان میں پلاٹ بُک کروا چُکی ہوگی اور ہر ماہ باقاعدگی سے لشکری بینک میں ٹیکس فری قسطیں جمع کروا رہی ہوگی۔ ( واضح رہے کہ زرمبادلہ پر اسلامی ریاسست میں کوئی ٹیکس نہیں ہے)۔ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ یہاں کے تاریخ بنانے والے عبقری ، تاریخ کے کِسی قبرستان میں دفن ہونا پسند نہیں فرماتے، اور نہ ہی تاریخ کا قرض ادا کرنے میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں تاہم تاریخ کا کوڑے دان بھرنے میں انہیں کوئی اعتراض نہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
شاہد سدھو کے کالمز
-
مشرقی پاکستان اور ایک بنگالی فوجی افسر کا نقطہ نظر
بدھ 15 دسمبر 2021
-
مشرقی پاکستان اور جنرل ایوب خان
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
مشرقی پاکستان اور اسکندر مرزا
منگل 7 دسمبر 2021
-
سیاسی حقیقت
ہفتہ 13 مارچ 2021
-
کون کتنا ٹیکس دیتا ہے
ہفتہ 6 مارچ 2021
-
جہان درشن
ہفتہ 27 فروری 2021
-
سقوطِ مشرقی پاکستان نا گزیر تھا؟
بدھ 16 دسمبر 2020
-
معجزے ہو رہے ہیں
جمعہ 4 دسمبر 2020
شاہد سدھو کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.