معجزے ہو رہے ہیں

جمعہ 4 دسمبر 2020

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

 کون کہتا ہے کہ اسے معجزوں پر یقین نہیں، معجزے ہو چکے ہیں اور مسلسل ہو رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کے عوام اپنی جاگتی آنکھوں اور سوتے نصیبوں سے معجزے دیکھ رہے ہیں۔ تحریک کے شہنشاہِ بالم کو دنیا اپنا لیڈر تسلیم کر چکی ہے، دنیا کا ہر خطہ ان کے نقش قدم پر چل رہا ہے ، ہر عالمی حکمران ان کی قیادت تسلیم کرچکا ہے۔ اسلامی جمہوریہ میں آہنی ہاتھوں سے برپا کئے گئے انقلاب نے پوری دنیا کو تبدیل کر دیا ہے بلکہ پوری دنیا یو ٹرن لے چکی ہے۔

اسلام کے جنوبی ایشیائی قلعے میں شہنشاہِ بالم کے ظہور کے سا تھ ہی دریائے فرات کے کنارے کتوں نے مرنا چھوڑ دیا ہے، اگر شومئی قسمت کوئی کتا مربھی جائے تو ذمہ دار علاقہ پولیس چوکی کا محرر ہوتا ہے یا ذمہ داری میونسپل کمیٹی ، قریہ الجدید ، نہر الفرات کے لوئر ڈویژن کلرک پر عائد ہوتی ہے ۔

(جاری ہے)

انقلاب کے توسیعی قانون مجریہ 2020 کے مطابق مرنے والے کتے کا ذمہ دار حکمرانِ وقت ہر گز نہیں ہوتا اور نہ ہی ریاست میں قتل ہونے والے ایک بھی بے گناہ انسان کے قتل کی ذمہ داری حکمران پر ہوتی ہے۔

یہ ذمہ داری مقتول کی اپنی ہوتی ہے یا پچھلی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
ریاست میں انصاف کی فراہمی کا یہ عالم ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا حوالدار بھی سب سے بڑی عدالت کے جج سے یہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ پندرہ لاکھ ماہانہ کی معمولی سی تنخواہ کے ہوتے ہوئے جمعرات کو اس کے لنچ بکس میں آلو گوشت کیسے آیا۔ خود کو آلو گوشت کھانے کا اہل ثابت کرنے کے لئے جج، اسکی بیوی اور بالغ و خود مختار بچوں کو گذشتہ پچیس برسوں کی آمدنی اور ٹیکس ریکارڈ دینا پڑتا ہے ۔

انصاف کی ایسی فراوانی ہے کہ ایک معمولی لانس نائیک بھی صوبے بھر کی سپاہ کے سالار کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا من پسند قید خانے میں لے جاسکتا ہے۔ انصاف کی ایسی مثال ہند اور سندھ کی ہزار سالہ تاریخ میں ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ شہنشاہِ بالم کو آغا ز میں ہی اکثر ریاستی ذمہ داریوں سے نیو ٹرل کر دیا گیا تھا ، وہ اتنے نیوٹرل ہیں کہ ان کی جاسوسی کروانے کے لئے جاسوس تعینات ہیں جو ہر صبح ان کو گذرے دن کی ریکارڈنگ سنواتے اور دکھاتے ہیں تاکہ ا ن کا ایمان تازہ ہوتا رہے۔

شہنشاہِ بالم خود بھی اپنی جاسوسی سے بے حد مطمئن ہیں اکثر کسی نہ کسی نِکے جاسوس کو اس کی کوتاہی پر ڈانٹتے رہتے ہیں ، ” اوئے نِکے جسوس ! تو ریکارڈنگ ٹھیک نہیں کر رہا سین مِس کر دیا تونے، ابھی تیرے وڈے کو شکایت لگاتا ہوں“۔ دوسری طرف تحریک کے شہنشاہ ِ بالم کی فیاضی اور امیر پروری کا یہ عالم ہے کہ ان کی منشاء سے بیس ارب کی بس سروس بنا کر سو ارب اڑا لئے گئے، دواؤں میں چار سو ارب کا ٹیکا لگا دیا گیا، چینی میں تین سو ارب ہڑپ کرلئے گئے، آٹے کے دو سو ارب ڈکار لئے گئے ، بجلی کا آٹھ سو ارب کا جھٹکا لگا دیا گیا، پانچ سو ارب کا پیٹرول چھڑک دیا گیا مگر تمام ریاستی راوی چین ہی چین لکھتے جارہے ہیں۔

دربارِ خاص سے یہ خبر بھی لِیک ہو ئی ہے کہ شہنشاہِ بالم درباری عمال کے لئے ایک خاص تمغہ کا اجراء فرمائیں گے اور اس سلسلے میں پہلا تمغہ کافروں کو لحم الخنزیر کے قیمے والے ولایتی پراٹھے کھلانے پر ایک سابق مجاہد کو دیا جائے گا۔ سابق مجاہد اور ان کے پسران ، کافروں کے دیس میں ولایتی قیمہ پراٹھوں کے سو سے زائد مورچے کھود چکے ہیں۔
 انقلابی توسیعی قانون کے مطابق پروٹوکول لینا بھی ضروری ہوچکا ہے ، یورپی حکمرانوں کو بھی پروٹوکول کے فوائد سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

ریاست مدینہ الجدید میں صاف بتادیا گیا ہے کہ صلیبی عیسائیوں کی نقل میں دس بارہ وزیروں کی مختصر کابینہ رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ ” ایماندار“ حکمران کی کابینہ اگر نصف سنچری سے اوپر نہ ہوئی تو بھولے بھالے عوام کو حکمران کی ایمانداری کے قصے کون سنائے گا۔ اب قرضے لینا حرام اور خودکشی کرنے کے برابربھی نہیں سمجھا جاتا بلکہ یہ حکمران کی مہارت ہوتی ہے کہ وہ ملک پر کم وقت میں زیادہ سے زیادہ قرض کیسے چڑھائے۔ شہنشاہ اور اُن کے مشیروں کی ” ماشیت “ بھی معجزاتی طور پر فراٹے بھرتی دوڑی چلی جارہی ہے ، لیکن شہنشاہ اور فادر شہنشاہ کی آنیوں جانیوں میں عوام بہت پیچھے رہ چُکے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :