کون کتنا ٹیکس دیتا ہے

ہفتہ 6 مارچ 2021

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

 حال ہی میں فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) نے 2018 میں جمع کئے گئے انکم ٹیکس کی تفصیلات شائع کی ہیں۔ تنخواہ دار، غیر تنخواہ دار افراد اور کمپنیوں سے وصول کئے گئے انکم ٹیکس کے مطابق پنجاب بشمول اسلام آباد کے علاقے سے تقریبا پچاس فیصد (49.76 % ( ٹیکس وصول کیا گیا، سندھ سے تقریبا پینتالیس فیصد ) 44.91% ) انکم ٹیکس وصول کیا گیا جبکہ خیبر پختونخواہ سے صرف ساڑھے تین فیصد (3.54 %) اور بلوچستان سے تقریبا ڈیڑھ فیصد (% (1.67 ٹیکس وصول کیا گیا۔

ملک بھر میں 2018 میں اٹھائیس لاکھ پچاس ہزار انکم ٹیکس ریٹرنز جمع کر وائے گئے۔ ان میں سے تقریبا پینسٹھ فیصد یعنی اٹھارہ لاکھ اکتالیس ہزار سے زائد پنجاب بشمول اسلام آباد ریجنز میں جمع کروائے گئے۔ پنجاب میں سولہ لاکھ نوے ہزا ر (59.30 % ) اور اسلام آباد میں ایک لاکھ اکیاون ہزار (5.30 %)۔

(جاری ہے)

سندھ میں ستائیس فیصد سے زائد یعنی
 سات لا کھ اناسی ہزار ریٹرنز جمع کروائے گئے۔

پورے خیبر پختونخواہ صوبے سے صرف ایک لاکھ اکہتر ہزار اور بلوچستان سے صرف باون ہزار انکم ٹیکس ریٹرنز جمع کروائے گئے۔ واضح رہے کہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق پنجاب کی آبادی تقریباً چوّن فیصد، سندھ کی آبادی تئیس فیصد، خیبر پختونخواہ کی آبادی سترہ فیصد اور بلوچستان کی آبادی تقریباً چھ فیصد ہے۔ اگر شہروں کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو پاکستان کے صرف تین
 شہر وں کراچی، لاہور اور اسلام آباد سے سو ارب سے زائد ٹیکس جمع ہوا۔

کراچی پہلے نمبر پر رہا اور یہاں سے چار سو پچیس ارب روپے ٹیکس جمع ہوا، اسلام آباد دوسرے نمبر پر رہا ، یہاں سے دو سو چار ارب اور لاہور تیسرے نمبر پر رہا اور یہاں سے دو سو ایک ارب روپے ٹیکس جمع ہوا۔ ان تین شہروں کے علاوہ صرف پانچ شہر ایسے ہیں جہاں سے دس ارب سے زائد ٹیکس جمع ہوا۔ راول پنڈی سے پینتیس ارب ، فیصل آباد سے اٹھارہ ارب، ملتان سے سترہ ارب، پشاور سے تیرہ ارب او ر کوئٹہ سے دس ارب ٹیکس جمع ہوا۔

آٹھ ہزار ارب ٹیکس جمع کرنے کے دعوے کرنے والے خیبر پختونخواہ میں اقتدار کی دوسری مدت بھی آدھی گذار چکے ہیں لیکن باقی ملک تو ایک طرف اپنی ناک کے نیچے صورتحال یہ ہے کہ سترہ فیصد آبادی والا صوبہ محض ساڑھے تین فیصد ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ شرمناک صورتحال یہ ہے کہ اس صوبے میں سینیٹ کی ایک سیٹ کئی کروڑ کی بکتی ہے مگر ٹیکس ادا کرنے کے معاملے میں بہت پیچھے ہے۔

ملک بھر میں جمع شدہ گوشواروں کی قلیل تعداد سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ملک بھر میں عوام کی اکثریت براہ راست یا بالواسطہ ٹیکس ادا کرنے سے گریز کرتی ہے۔حکومت امیر طبقوں سے ڈائریکٹ ٹیکس لینے کے بجائے ٹیکسوں کا بوجھ غریب اور متوسط طبقے پر ڈال دیتی ہے اور یہ طبقہ بھاری جنرل سیلز ٹیکس، پیٹرولیم لیوی اور مختلف طرح کے سرچارجز اور صوبائی ٹیکسز کے نام پر نہ صرف بھاری ٹیکس ادا کرتا ہے بلکہ مہنگائی کے بوجھ تلے بھی دبتا چلاتا ہے۔ ملک کی آمدنی میں اضافے کے لئے امیر طبقات سے مناسب شرح سے ڈائریکٹ ٹیکس کی وصولی ناگزیر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :