سقوطِ مشرقی پاکستان نا گزیر تھا؟

بدھ 16 دسمبر 2020

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

 پاکستان کو ٹوٹے ہوئے پچاس برس ہونے کو آئے ہیں لیکن آج بھی اس کی وجوہات پر تفصیلی تجزیات دستیاب نہیں ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری دونوں سطحوں پر ایسی کاوشیں نظر نہیں آتی جو قیام پاکستان کے بعد سے 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام تک کے واقعات اور سقوط سے جڑی وجوہات کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرتی ہوں ۔ حمود الرحمن کمیشن کا فوکس بھی آخری مہینوں اور دِنوں پر زیادہ رہا۔

اگرچہ دانشور اور تجزیہ کار حضرات بنگالی زبان کے بجائے اردو کو قومی زبان بنائے جانے کو بھی وجہ بتاتے ہیں تاہم ان کا زیادہ زور معاشی ناہمواری، مشرقی پاکستان میں غربت اور مغربی پاکستان کے مقابلے میں حکومتی وسائل سے کم حصہ دینے کے معاملات پر رہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں موجودہ مغربی پاکستان کے کیا معاشی حالات تھے، غربت کا کیا عالم تھا، عوام کے لئے وسائل کی کیا فراوانی تھی۔

(جاری ہے)

کیا مغربی پاکستان کے عوام خوشحال ہوچکے تھے۔ ایسا بالکل بھی نہیں تھا ، مغربی پاکستان کے عوام بھی ویسے ہی معاشی حالات کا شِکار تھے جو بر صغیر کے تقریباً ہر علاقے کے عوام کو درپیش تھے۔ مغربی پاکستان کے آبادی کے بڑے مراکز پنجاب اور سندھ میں لاکھوں مہاجرین کی آبادکاری کا مسئلہ بھی درپیش تھا ۔محدود ذرائع آمدورفت کے اثرات بھی بڑے رقبے کی وجہ سے مغربی پاکستان پر زیادہ تھے۔

ذرائع آمدورفت کی کمیابی کی وجہ سے عوام کے لئے معاشی بہتری کے لئے مختلف علاقوں کو سفر کرنا دشوار تھا۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں فاصلاتی دوری کی وجہ سے عوام کا میل جول بھی عام نہیں تھا۔ کراچی سے ڈھاکہ کا فاصلہ تقریباً دوہزار چار سو کلومیٹر، لاہور سے ایک ہزار آٹھ سو کلومیٹر اور اسلام آباد سے دو ہزار کلومیٹر ہے۔ ٹی وی کی کوریج ( پہنچ) نہ ہونے کے برابر تھی۔

اِن حالات میں یہ سمجھنا بھی شاید غلط ہو کہ مشرقی پاکستان کے عوام ، مغربی پاکستان کے عوام کی مبینہ خوشحالی اور ترقی کا مشاہدہ کر رہے تھے اور ان میں اِس وجہ سے احساسِ محرومی جنم لے رہا تھا۔ آخر وہ کیا وجوہات تھیں کہ انگریزوں سے آزادی کے محض اٹھارہ انیس برسوں میں ہی مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے خیالات جنم لے چکُے تھے، علیحدگی کا ابتدائی چارٹر شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نقاط ۱۹۶۶ میں وجود میں آچُکے تھے اور انگریزوں سے آزادی کے بعد محض چوبیس برس بعد ہی مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔


 اگر دانشور غور کریں تو مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک کے جنم لینے کی سب سے بڑی وجہ سیاسی تھی۔ عوام کے اپنے نمائندوں اور حکمرانوں کے انتخاب کے حق کو ختم کردیِا گیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں یہ احساس جنم لے چکا تھا کہ اِ س ملک میں اگر مغربی پاکستانی ڈکٹیٹر نے ہی اقتدار پر قبضہ کر کے حکومت کرنی ہے اور طویل عر صے تک اقتدار پر قابض رہنا ہے تو مشرقی پاکستان کے عوام، مملکت کے اقتدار میں شرکت سے محروم رہیں گے۔

کیا وجہ ہے کہ بھارت میں شدید اختلافات کے با وجود بھارتی صوبے (ریاستیں) بھارت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور زیادہ تر علاقوں میں علیحدگی کی تحریکیں دم توڑ چکی ہیں۔ سب سے بڑی وجہ جمہوریت کا تسلسل کے ساتھ جاری رہنا ہے۔ آزادی کے بعد سے بھارت میں بغیر کسی رکاوٹ کے جمہوریت قائم و دائم ہے۔ تمام تر خرابیوں کے باوجود بھارتی عوام کو حاصل ووٹ کی طاقت اور انکے ووٹ کی عزت ملک کے استحکام کا باعث ہے۔

عوام کو کسی نہ کسی سطح پر اقتدار کو ہلانے اور حکمرانوں کو للکارنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ مختلف اوقا ت میں تسلسل کے ساتھ ہوتے قومی انتخابات، صوبائی (ریاستی) انتخابات، بلدیاتی انتخابات، پنچائتی راج انتخابات میں عوام کی براہِ راست شرکت ان کو فیصلہ سازی میں حصہ داری کا احساس دلاتی ہے اور مقامی، صوبائی اور ملکی معاملات سے جوڑے رکھتی ہے۔

مختلف اوقات میں ہونے والے راجیہ سبھا ( سینیٹ) اور ودھان سبھا ( صوبائی سینیٹ) کے بلواسطہ انتخابات بھی عوام کی دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں۔ ہر چند ماہ بعد ہونے والے کسی نہ کسی علاقے اور کسی نہ کسی سطح کے انتخابات عوام میں ووٹ کی طاقت یعنی ان کی اپنی طاقت کا احساس اجاگر کرتے ہیں۔
جنرل ایوب خان کے مارشل لاء نے سیاسی رہنماوں کو غیر قانونی آمرانہ اقدامات کے ذریعے نااہل قرار دینے کا سلسلہ شروع کیا اور تحریک ِ پاکستان کے رہنماوں کا بھی لحاظ نہ کیا اس نے عوام میں محرومی کی جو بنیاد رکھی تھی، ۱۹۶۵ کے صدارتی انتخابات میں دھاندلی سے محترمہ فاطمہ جناح کو ہرانے سے اسے اور بڑھاوا ملا۔

مشرقی پاکستان میں باوجود دھاندلی کے جنرل ایوب خان بڑی اکثریت نہ لے سکے تھے ، ڈھاکہ اور چٹاگانگ ڈویژنوں میں محترمہ فاطمہ جناح کامیاب ہوئیں تھیں۔ مارشل لاء اقدامات سے زیادہ تر اہم سیاسی رہنما غیر متعلق کر دیئے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ علیحدگی کا ابتدائی چارٹر شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نقاط ۱۹۶۶ میں ہی وجود میں آچُکے تھے اور قوم پرست عوامی لیگ مشرقی پاکستان میں ، تمام دیگر سیاسی قوتوں کو پیچھے چھوڑ چکی تھی۔

عوامی لیگ کی گرفت مشرقی پاکستان پر اتنی مضبوط ہوگئی کہ ۱۹۷۰ کے انتخابات تک دیگر وفاق پرست سیاسی اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے لئے سیاسی عمل میں حِصہ لینا ہی تقریباً ناممکن ہوچکا تھا۔ یاد رہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن نے ۵ دسمبر ۱۹۶۹ کو ہی مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کا نام دینے کا اعلان کر دِیا تھا اور جنرل یحییٰ خان نے عام انتخابات اس کے ایک سال بعد سات دسمبر ۱۹۷۰ کو منعقد کروائے تھے۔

انتخابات کا نتیجہ ایسا نِکلا کہ مارشل لائی جرنیلوں کے لئے نا قابلِ قبول تھا۔ مشرقی پاکستان کے عوام پر ایک بار پھر واضح ہوگیا کہ ان کے لئے پاکستان میں اقتدار اعلی کا حصول ناممکن ہوچکا ہے۔ انتہائی سخت فوجی آپریشن نے علیحدگی کی سلگتی تحریک کو مزید بھڑکا دِیا۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ مُکتی باہنی کے لاکھوں افراد پر مشتمل تربیت یافتہ جتھوں کا قیام چند ہفتوں میں تو عمل میں نہیں آگیا تھا ۔

اِس سے واضح ہوتا ہے جنرل ایوب خان کے دور میں شروع ہوئی علیحدگی کی تحریک کیسے پنپ رہی تھی۔ فوجی قیادت کی توجہ اپنے اصل کام سرحدوں کی حفاظت کے بجائے سیاست دانوں کو نا اہل کرنے اور سولین معاملات میں دخل اندازی کی رہی ، ملک کے سب سے بڑے حصے کے عوام مرکز سے دور ہوتے گئے اور فوج سرحدوں کے دفاع سے نا اہل ہوگئی۔ اگر ملک میں جمہوریت اور سیاسی عمل جاری رہتا تو شاید نہ ملک ٹوٹتا اور نہ اتنی بڑی فوجی شِکست ہوتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :