جہان درشن

ہفتہ 27 فروری 2021

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

 ہمیشہ سے مجھے ایسی کتابوں اور تحریروں سے دلچسپی رہی ہے جو غیر ملکی لکھاری پاکستان کے بارے میں لکھتے ہیں یا ایسے پاکستانی مصنفین جو بیرونی ممالک میں مقیم ہیں۔ ان تحریروں سے نہ صرف دنیا کے سوچنے سمجھنے والے دماغوں کی پاکستان کے بارے میں سوچ سے آگاہی ہوتی ہے بلکہ ایسی تحریریں مصنف کے مختلف جغرافیائی اور ثقافتی پس منظر کی وجہ سے اکثر مختلف تہذیبوں کا احاطہ بھی کرتی ہیں۔

پاکستان سے مختلف وجوہات کی بناء پر نقل مکانی کرکے بیرونی ممالک میں بس جانے والے مصنفین کی تحریریں اس لحاظ سے دلچسپ ہوتی ہیں کہ مصنف پاکستانی ثقافت اور روایات سے آگاہ ہوتا ہے اور بیرونی دنیا میں اپنے مشاہدات کا موازنہ شعوری اور لاشعوری طور پرنہ صرف پاکستانی معاشرے میں رائج روایات سے کرتا رہتا ہے بلکہ معاملات کو پرکھتے ہوئے اس کی سوچ کا زاویہ بھی وسیع ہوجاتا ہے ۔

(جاری ہے)

حال ہی میں کینیڈا میں مقیم مصنف عمران نذیر چوہدری کے افسانوں کا مجموعہ ” جہان درشن“ شائع ہوا ہے۔ عمران نذیر چوہدری سوشل میڈیا پر ڈیجیٹل درویش کے نام سے معروف ہیں۔ جہان درشن کے مختصر افسانے ہمارے معاشرے کی زندہ تصویریں ہیں۔عمران نذیر چوہدری نے صدیوں سے گلیوں، بازاروں میں بکھری ہوئی کہانیوں کو خوبصورت تحریری موتیوں میں پرو دیا ہے۔

پاکستان کے دیہی ، نیم شہری ، اور شہری ماحول میں پرورش پاتا تعلیم یافتہ نوجوان عمران نذیر معاشرے کی اچھائیوں، برائیوں اور تعصبات سے گذرتا ہوا بہتر معاشی ذرائع کی تلاش میں کینیڈا جا پہنچا تو سوچ کے دائرے وسیع ہوتے چلے گئے اور جہان درویش وجود میں آئی۔ جہاں عمران نذیر کی کہانیاں مذہبی اعتقادات، طبقاتی تقسیم ، تعصبات ، فرسودہ روایات، روز مرہ کی نوسر بازیوں اور اقربا پروری کا احاطہ کرتی ہیں وہیں ایثار، محبت، غیرت، نفرت، کینہ، حسد جیسے جذبات کو الفاظ کا ایسا روپ دیتی ہیں کہ قاری خود کو ان واقعات کا عینی شاہد محسوس کرتا ہے۔

” سلو آپا“ کی ذات برادری کی غیر منصفانہ روایات کا شکار سلو آپا جیسے کردار آپ کو ہر قریے ہر شہر میں نظر آتے ہیں۔ ہر قاری خود کو ” تیرہ تولے کی چین“ والی بس کا مسافر محسوس کرتا ہے۔ تقریبا ً ہر محکمے میں ” اعوان صاحب کے آدمی“ سے بھی ملاقات ہو جائے گی۔ ”تبدیلی رضاکار“، ” آخری راز“ اور ” کامیاب نمائش جاری ہے“ کے سیاسی استعارے منجن خریدتے قاری کو سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں۔

بقول مصنف اس کتاب میں شامل بیشتر تحریریں حقیقی واقعات پر مبنی ہیں ۔ شاید اسی لئے قاری کو اجنبیت محسوس نہیں ہوتی اور وہ فوراً ہی کہانی کا حصہ بن جاتاہے ۔
 معروف شاعرہ اور مصنفہ ڈاکٹر صغرا صدف نے عمران نذیر چوہدری کی کتاب کو نثری ادب میں ایک خوبصورت اثاثہ اضافہ قرار دیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران نذیر کی تحریر میں ایک فطری تسلسل، روانی اور بے ساختگی پائی جاتی ہے جو شروع سے آخر تک ایک سحر میں مبتلا رکھتی ہے۔


جرمنی میں مقیم پاکستانی مصنف محسن حجازی نے عمران نذیر چوہدری کی کہانیوں کو تجربات ، مشاہدات اور تخیل کی کسوٹی پر پرکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران نذیر نے نہایت فنکاری، دستکاری اور چابکدستی سے الفاظ و تشبیہات کو نگینوں کی طرح جوڑ کر یوں مصور کیا ہے کہ قاری کے پردہ تخیل و حواس پر کردار و واقعات طاری ہوجاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :