مشرقی پاکستان اور اسکندر مرزا

منگل 7 دسمبر 2021

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

محض چوبیس برس متحد رہ کر پاکستان کو ٹوٹے ہوئے پچاس برس ہونے کو آئے ہیں لیکن آج بھی اس کی وجوہات پر تفصیلی تجزیات دستیاب نہیں ہیں۔ دانشور حضرات بنگالی زبان کے مسئلہ ، ملک کے دونوں حصوں میں معاشی نا ہمواری، مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان کے مقابلے میں حکومتی وسائل اور ملازمتوں میں کم حصہ دینے جیسے معاملات اور ۱۹۷۰ کے الیکشن کے بعد عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہ کرنے کو علیحدگی کی وجوہات بتاتے ہیں۔

ظاہر ہے علیحدگی کی یہ فصل اچانک تو نہ پکی تھی بقول شاعر
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اس وقت کے اہم ترین کرداروں جنرل یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن پر تو عام طور پر لکھا جاتا ہے مگر اس وقت کے اور ماضی کے دیگر اہم کرداروں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

آ زادی کے بعد متعدد بنگالی رہنما متحدہ پاکستان کے حکمران رہے۔

ان میں خواجہ ناظم الدین، اسکندر مرزا، محمد علی بوگرا، حسین شہید سہروردی اور نورالامین شامل ہیں جو گورنر جنرل بھی رہے، صدر بھی ، وزیرِ اعظم بھی اور نائب صدر بھی ۔ ریٹائرڈ میجر جنرل اسکندر مرزا اس وقت کی ایک اہم بنگالی شخصیت تھے لیکن ان کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے۔اسکندر مرزا کا تعلق میر جعفر کے خاندان سے تھا۔ اسکندر مرزا پاکستان کے پہلے سیکرٹری دفاع تعینات کئے گئے اور ۱۹۴۷ سے ۱۹۵۴ تقریبا سات سال اس عہدے پر کام کرتے رہے۔

۱۹۵۴ میں مشرقی پاکستان (اس وقت کا مشرقی بنگال صوبہ) کے گورنر تعینات کئے گئے اور مئی سے اکتوبر تک اس عہدے پر رہے۔ اکتوبر ۱۹۵۴ میں وزیر اعظم محمد علی بوگرا کی کابینہ میں وفاقی وزیر داخلہ اور سرحدی علاقوں کے انچارج وزیر تعینات ہوئے۔ اسکندر مرزا نے ۷ اگست ۱۹۵۵ کو پاکستان کے چوتھے گورنر جنرل کے عہدے کا حلف اٹھایا اور ۲۳ مارچ ۱۹۵۶ تک اس عہدے پر تعینات رہے۔

۱۹۵۶ کے آئین کے تحت پاکستان جمہوریہ بنا تو گورنر جنرل اسکندر مرزا اس کے پہلے صدر بنائے گئے اور ۲۷ اکتوبر ۱۹۵۸ کو جنرل ایوب خان کے مارشل لا ء کے نفاذ تک پاکستان کے صدر رہے۔ ۱۹۵۴ میں مشرقی بنگال میں یونائیٹڈ فرنٹ نے بھاری اکثریت سے الیکشن جیت کرحکومت بنائی، تحریک پاکستان کے رہنما اے کے فضل الحق جو بنگالی زبان کو سرکاری زبان بنانے کی تحریک کی بھی قیادت کر رہے تھے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے ۔

وزیر اعظم محمد علی بوگرا نے سیکرٹری دفاع اسکندر مرزا کو مشرقی بنگال کا گورنر تعینات کردیا۔ انکی بطور گورنر تعیناتی کے ساتھ ہی مشرقی بنگال میں گورنر راج لگادیا گیا اور اے کے فضل الحق کی یونائیٹڈ فرنٹ حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اسکندر مرزا نے بطور گورنر مشرقی پاکستان میں طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا۔ اس وقت سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں تحلیل شدہ بنگال اسمبلی کے درجنوں ارکان اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسرز بھی شامل تھے۔

اسکندر مرزا کی طرف سے حکومتی طاقت کے وحشیانہ استعمال نے مشرقی بنگال میں پاکستان کی مرکزی حکومت کے خلاف نفرت کے بیج بونے میں اہم کردار ادا کیا۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ اسکندر مرزا نہ صرف خود بنگالی تھے بلکہ اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم محمد علی بوگرا بھی بنگالی تھے۔ اسکندر مرزا اس سے پہلے بطور سیکرٹری دفاع ملٹری پولیس اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے بنگالی زبان تحریک کے دوران پر تشدد ایکشن کی بھی منظوری دے چکے تھے۔

بڑھتی ہوئی تنقید کی بنا پر ان کو فارغ کرنے کے بجائے وزیر اعظم محمد علی بوگرا نے گورنری سے ہٹا کر ملک کا وزیر داخلہ لگادیا ۔ کچھ عرصے بعد گورنر جنرل ملک غلام محمد کو فالج کی وجہ سے علاج کے لئے ملک سے باہر بھیجا گیا اور وزیر داخلہ اسکندر مرزا کو قائم مقام گورنر جنرل بنایا گیا ۔ اسکندر مرزا کچھ عرصے بعد ملک غلام محمد کو برطرف کرکے مکمل گورنر جنرل بن گئے۔

جلدہی گورنر جنرل اسکندر مرزا کے ملک کے بنگالی وزیر اعظم محمد علی بوگرا سے اختلافات بڑھ گئے اور اور انہوں نے محمد علی بوگرا کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا۔ ۲۳ مارچ ۱۹۵۶ کے آئین کے تحت ملک کو جمہوریہ بنایاگیا تو اسکندر مرزا صدر منتخب ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد ہی صدر اسکندر مرزا کے وزیر اعظم چوہدری محمد علی سے اختلافات بڑھ گئے اور اور انہوں نے چوہدری محمد علی کو بذریعہ تحریک عدم اعتماد فارغ کردیا۔

صدر اسکندر مرزا نے تحریک پاکستان کے ایک اور بنگالی رہنما جو اب عوامی لیگ کے رہنما بن چکے تھے، حسین شہید سہروردی کو حکومت بنانے کی دعوت بنادی اور یوں سہروردی ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ مگر ملک کے دونوں بڑے بنگالی حکمران، صدر اور وزیر اعظم ایک بار پھر ساتھ نہ چل سکے اور حسین شہید سہرودی بھی مستعفی ہوگئے۔ صدر مرزا نے آئی آئی چندریگر کو وزیر اعظم نامزد کیا مگر صرف دوماہ میں ہی چندریگر بھی عہدے سے ہٹادئے گئے۔

ان کے بعد صدر اسکندر مرزا نے سر فیروز خان نون کو وزیر اعظم نامزد کیا۔ مگر ان کو بھی برداشت نہ کرسکے اور اسمبلیاں تحلیل کرکے نہ صرف وزیر اعظم کو برطرف کیا بلکہ ملک میں پہلے مارشل لاء کے نفاذ کا بھی اعلان کردیا اور بری فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور وزیر اعظم بنادیا۔ صرف تین ہفتوں بعد جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو گرفتار کرکے ملک بدر کردیا ۔

بنگالی صدر کا لگایا ہوا یہ مارشل لاء ملک ٹوٹنے تک جاری رہا۔ اسکندر مرزا کے اٹھائے گئے یہ تمام اقدامات بتاتے ہیں کہ وہ اقتدار کے بھوکے اور آمرانہ مزاج رکھنے والی شخصیت تھے اور پارلیمانی جمہوریت سے خدا واسطے کا بیر رکھتے تھے۔ انہوں نے بطور گورنر جنرل اور صدر چار وزرائے اعظم کو برطرف کیا اور پاکستان کے پہلے آئین کو بھی منسوخ کردیا۔

ان کے دور میں کئے گئے اقدامات نے مشرقی اور پاکستان میں دوریاں بڑھادیں۔ ان کے دور میں مشرقی پاکستان شدید سیاسی بے چینی کا شکار رہا۔ اس عرصے میں مشرقی پاکستان میں پانچ گورنرتبدیل کئے گئے اور چھ وزرائے اعلیٰ کو اپنے عہدے چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ مختلف النوع تہذیبی، لسانی و نسلی پس منظر رکھنے والے ممالک میں پارلیمانی جمہوریت ہی وہ نظام ہے جو مختلف علاقوں کے عوام کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھتا ہے۔

صدارتی نظام میں اختیارات کا منبع ایک ہی جگہ جمع ہوجانے سے وفاقی اکائیاں خود کو ملکی معاملات سے کٹا ہوا محسوس کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ ملکی نظام سے لاتعلقی اختیار کرلیتی ہیں۔ مشرقی پاکستان میں بنگالی زبان تحریک کے خلاف حکومتی تشدد ، مقبول عوامی حکومتوں اور بنگالی لیڈروں کے خلاف ایکشن، ون یونٹ جیسی اسکیمیوں کے پیچھے بنگالی لیڈر خواجہ ناظم الدین، اسکندر مرزا، محمد علی بوگرہ،حسین شہید سہروردی، نورالامین وغیرہ ہی تھے۔


 پاکستان کی وفاقی حکومتوں کو توڑنے جوڑنے کا کام بنگالی صدر کر رہا تھا تو جیسے تیسے ملک چل رہا تھا مگر جب یہی کام آہنی طاقت سے مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے صدر نے شروع کیا تو مشرقی پاکستان میں احساس محرومی چھلک پڑا۔
کیا مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے بیج بونے اور ان کی آبیاری کرنے کی ذمہ داری اسکندر مرزا پر بھی عائد نہیں ہوتی؟ کیا پاکستان ٹوٹنے کے ایک بڑے ذمہ دار اسکندر مرزا بھی نہ تھے؟ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :