سیاسی حقیقت

ہفتہ 13 مارچ 2021

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

 گزشتہ تیس برس کی سیاست پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ ملک میں دو ہی بڑی سیاسی جماعتیں یا سیاسی قوتیں ہیں؛ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) ۔ یہی دو سیاسی جماعتیں ہیں جنہیں عوام کی وسیع حمایت حاصل ہے اور عوام کو جب بھی آزادانہ طور پر اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملتا ہے تو عوام کی اکثریت ان دو سیاسی جماعتوں پر ہی اعتماد کا اظہار کرتی ہے۔

گزشتہ تین دہائیوں میں ہوئے ہر انتخابات میں چاہے اسٹیبلشمنٹ نے بھر پور مخالفت سے ان جماعتوں کا راست روکا ہو یا عوام کو آزادی سے ووٹ کا حق استعمال کرنے کا موقع دیا ہو ہر دو صورتوں میں ان جماعتوں کو بھاری تعداد میں پاپولر ووٹ ملا۔ حتیٰ کہ جب ان جماعتوں کی مرکزی قیادتوں کو آمرانہ ہتھکنڈوں سے انتخابی دوڑ سے باہر کیا گیا تب بھی عوام نے ان ہی جماعتوں کوبڑی تعداد میں پاپولر ووٹ دیئے۔

(جاری ہے)

2002 کے انتخابات میں جنرل مشرف نے غیر قانونی طو ر پر بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو انتخابات میں حصہ لینے سے زبردستی روکا، مرکزی قیادت کی غیر موجودگی کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو بھاری تعداد میں پاپولر ووٹ ملے ۔ 2007 کے انتخابات میں بینظیر بھٹو کو قتل کردیا گیا، نواز شریف بھی آمرانہ طور پر نا اہل کئے جانے کی بناء پر الیکشن میں امیدوار نہیں تھے اس کے باوجود عوام کی بھاری اکثریت نے ان ہی دو سیاسی جماعتوں کو اکثریتی ووٹ دیئے۔

یہی 2018 کے الیکشن میں ہوا۔ میاں نواز شریف کو متنازعہ فیصلے کے ذریعے الیکشن میں حصہ لینے سے روکا گیا، جیل میں ڈالا گیا الیکشن میں ہر ممکن طریقے سے دھاندلی کے ریکارڈ توڑے گئے اس کے باوجود مسلم لیگ ن نے ایک کروڑ سے زائد ووٹ حاصل کئے۔ اس سارے عرصے کے دوران اسٹیبلشمنٹ مسلسل مصنوعی سیاسی جماعتیں اور مصنوعی سیاسی قیادت پیدا کرنے کی کوشش کرتی رہی اور کئی سیاسی رہنماوٴں کو ان کے اصلی سیاسی قد سے بڑا کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر عوام کی اکثریت ایسی سیاسی جماعتوں اور رہنماوں سے دور رہی۔

ق لیگ کو جنم دیا گیا مگر ہر طرح کی سر پرستی کے باوجود ق لیگ بکھر گئی اور آج ق لیگ کے پہلے صدر میاں اظہر راندہ درگاہ ہو چکے ہیں اور چودھریوں کو آبائی حلقے سے بھی جیتنا مشکل ہوجاتا ہے اسٹیبلشمنٹ کی منت سماجت سے ایک سیٹ کے لئے کبھی اٹک بھاگنا پڑتا ہے تو کبھی چکوال۔ پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کو جنم دیا گیا مگر وہ حکومتی مدت ختم ہوتے ہی غائب ہوگئی۔

ایم کیو ایم کو پورے ملک خاص طور پر پنجاب میں پھیلانے کی کوشش کی مگر اپنے اس پراجیکٹ کے پر خود ہی کترنے پڑے۔ جنوبی پنجاب میں قوم پرست پارٹی بنانے کی کوشش کی مگر اس کو بھی اپنے دوسرے مہرے کے ساتھ ضم کرنا پڑا۔ مسلمہ سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کے لئے طاہر القادری اور تحریک لبیک جیسے مذہبی گروہ منظم کئے گئے اور نتیجہ عالمی سطح کی ملکی بدنامی کی صورت میں نکلا ، ان کو بھی محدود کرنا پڑا۔

بلوچستان میں جعلی سیاسی جماعت کھڑی کرکے اسے حکومت تھمادی گئی، اس عمل نے گذشتہ کئی برسوں سے بلوچستان کے احساس محرومی ختم کرنے کے لئے کئے گئے اقدامات کو خاک میں ملادیا ۔ اسٹیبلشمنٹ کے حالیہ جاری پراجیکٹ کے تحت بھرپور میڈیا وار کے ذریعے عمران خان کا بت تراشا گیا اور تحریک انصاف کے غبارے میں دھاندلی کی ہوا بھری گئی مگر اس کا نتیجہ ملک کی بھیانک تباہی کی صورت میں نکل رہا ہے ، عوام کی زندگی عذاب ہو چکی ہے۔

جلد یا بدیر اس پراجیکٹ کو بھی لپیٹنا پڑے گا۔ مقتدرہ کو سمجھنا چاہئیے کہ ہر طرح کا ظلم روا رکھنے اور دھاندلیوں کے باوجود اصل عوامی قیادتوں اور سیاسی جماعتوں کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔سیاست میں مداخلت اور مہرے مسلط کرنے کی کوششیں اب چھپی نہیں رہتیں۔ ملک کے لئے اتنا ہی بہتر ہوگا جتنا جلد مقتدرہ، سیاست کو اس کے حال پر چھوڑ دے اور عوامی سیاسی قیادتوں کو ختم کرنے کی سوچ سے نجات حاصل کرلے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :