مشرقی پاکستان اور ایک بنگالی فوجی افسر کا نقطہ نظر

بدھ 15 دسمبر 2021

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

لیفٹیننٹ کرنل شریف الحق دالیم پاک آرمی کے بنگالی ا فسران کے اس پہلے گروپ کے لیڈر تھے جو منحرف ہوکر مغربی پاکستان سے فرار ہوکر بھارت گئے اور بنگلہ دیش کی مسلح تحریک میں شامل ہوگئے۔ لیفٹیننٹ کرنل شریف الحق دالیم کے شیخ مجیب الرحمن سے قریبی خاندانی تعلقات تھے اورپاکستان سے علیحدگی کے بعد ان کے بنگلہ دیش کے اعلیٰ حکومتی اور فوجی حلقوں سے قریبی تعلقات رہے۔

انہیں بنگلہ دیش کے شجاعت کے اعلیٰ ترین اعزاز بیر اتم سے بھی نوازا گیا۔ آپ بنگلہ دیش کے چین، برطانیہ، ہانگ کانگ، کینیا اور تنزانیہ میں سفیر بھی رہے۔انہوں نے اپنی کتاب Bangladesh Untold Facts (بنگلہ دیش ۔ان کہے حقائق) میں اس وقت کے حالات بیان کئے ہیں اور سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبصرہ کیا ہے۔

(جاری ہے)

اس کتاب کا اردو ترجمہ ” پاکستان سے بنگلہ دیش ان کہی جدوجہد“ کے نام سے معروف صحافی اور دانشور فرخ سہیل گوئندی کے زیر اہتمام جمہوری پبلیکیشنزلاہور نے شائع کیا ہے۔

رانا اعجاز احمد نے اس اہم کتاب کا ترجمہ کیا ہے۔لیفٹیننٹ کرنل شریف الحق نے اس کتاب میں جنرل ایوب خان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے خیال میں ایوب خان کا اقتدار کا لالچ ملک کو تباہی کی طرف لے جارہا تھا او ر نا انصافیوں کا شکار مشرقی پاکستان کے عوام مایوس ہوچکے تھے۔وہ لکھتے ہیں، ” جنرل ایوب خان نے پیشے کے اعتبار سے تیسرے درجے کے ایک وکیل منعم خان کو اپنے ایک انتہائی با اعتماد پٹھو کے طور پر منتخب کیااور اسے مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کردیا۔

ان کے ذریعے بنگالی ورثے اور تہذیب کو تباہ کرنے کی کوششیں شروع کی گئیں۔یہ وہ وقت تھا جب بدعنوانی اور دہشت گردی کو مشرقی پاکستان کی یونیورسٹیوں اور اہم کالجوں میں متعارف کروایا گیا ۔ منعم خان کے بیٹے خسرو نے طلباء میں ایوب دشمن جذبات کو کچلنے کے لئے مسلح گروپ منظم کئے۔بہت تھوڑے عرصے میں منعم خان کی عوام دشمن پالیسیوں نے بنگال کے عوام میں عمومی سطح پر اور طلباء میں خاص طور پر ایوب دشمن جذبات پیدا کرنے میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔


 اگرتلہ سازش کیس کے دوران ایوب مخالف تحریک شدت ختیار کرچکی تھی۔ ان دنوں لیفٹیننٹ کرنل شریف الحق کوئٹہ میں تعینات تھے۔ ان کے علاوہ کوئٹہ میں بنگالی افسروں کی خاصی تعداد موجود تھی جو مختلف رجمنٹوں اور بٹالینوں میں تعینات تھے اور آپس میں قریبی میل جول اور رابطہ رکھتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں، ” ہم اپنی ملاقاتوں میں خیالات کا تبادلہ کرتے اور ہر نئی پیش رفت اور خبر کا تجزیہ کرتے۔

ہمیں مشرقی پاکستان کے بارے میں گھروں سے آنے والے خطوط سے خبریں ملتی تھیں۔ قومی میڈیا میں خبریں اور رپورٹیں یک طرفہ پروپیگنڈا پر مشتمل تھیں لہذا ہم بی بی سی، وائس آف امریکہ، آل انڈیا ریڈیو اور وائس آف آسٹریلیا سنتے تھے۔بعض اوقات بنگالی فوجی، سگنل سینٹر سے وہ خفیہ معلومات لے کر آتے جو آرمی ہیڈ کوارٹر، ڈویژنل ہیڈکوارٹر کو بھیجتا تھا۔

ہم ان رپورٹوں سے فوجی ٹولے کے ارادوں کا کچھ اندازہ لگا سکتے تھے۔ جو کچھ ہورہا تھا ہم سب اس پر بہت پریشان تھے،ان واقعات کا کیا نتیجہ نکلے گا، صدر ایوب کا اقتدار کا لالچ ملک کو کہاں لے کر جائے گا، پاکستان کیسے زندہ رہے گا،۔یہ پاگل پن، نا انصافی، ناجائز استحصال کب ختم ہوگا۔ایوب انتظامیہ بری طرح ناکام ہوچکی تھی، کیا وہ محض اپنے اقتدار کی خاطر قوم کومزید تباہی اور مکمل بربادی کی طرف کھینچ کر لے جائے گی۔

ہم غصے سے ابل رہے ہوتے تھے مگر اپنی نفرت اور غصے کے جذبات کواپنے اعلیٰ افسروں خاص طور پر غیر بنگالیوں کی نگاہوں سے چھپا کر رکھنا پڑتا تھا۔ ہمارا ہر لمحہ اور ہر گھڑی امید و ناامیدی اور مایوسی میں گزر رہاتھا۔“ لیفٹیننٹ کرنل شریف الحق دالیم لکھتے ہیں ، ” ۱۹۵۸ سے جب جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا، فوج اور جرنیلوں نے اپنے آپ کو پوری قوم کا واحد نگران خیال کرنا شروع کردیا تھا۔

وہ سیاست دانوں کو افسوس کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ان میں کچھ استثناء بھی تھا۔“ لیفٹیننٹ کرنل شریف الحق کی رائے ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ایوب مخالف تحریک میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل یحیی خان اور ایوب مخالف اعلیٰ بیورکریٹس کی حمایت حاصل تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ جنرل یحیی خان نے جنرل پیرزادہ کے ذریعے بھٹو کو ایوب مخالف تحریک میں تیزی لانے کی حوصلہ افزائی کی۔

لیفٹیننٹ کرنل شریف الحق کا کہنا ہے کہ ۱۹۶۹ تک بنگالی قوم خود مختاری یا آزادی کسی ایک بات کا اٹل فیصلہ کرچکی تھی۔وہ جنرل یحیی خان حکومت کے بارے میں لکھتے ہیں، ” جنرل یحیی حکومت درحقیقت کوئی خارجہ پالیسی بھی نہ رکھتی تھی، خارجہ تعلقات کے تمام تر فیصلے جنرل پیرزادہ اور جنرل عمر کے ہاتھوں میں تھے۔ ان دونوں جنرلوں کو خارجہ معاملات، بین الاقوامی تعلقات اور سفارتی سرگرمیوں کی کوئی تربیت نہ تھی، اس کے باوجود یہ دونوں خود کو ہنری کسنجر سے کم تر سفارت کار خیال نہ کرتے تھے“۔

وہ بھٹو کے بارے میں لکھتے ہیں، ” طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے بھٹو بڑی ہوشیاری کے ساتھ حکمران ٹولے میں موجود چند با اثر جنرلوں سے تعلقات کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔مغربی پاکستان میں مقبولیت حاصل کرنے کے لئے وہ مختلف صوبوں میں مختلف باتیں کرتے تھے۔ پنجاب میں بھٹو نے پنجابیوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ، اگر ضرورت پڑی تو ہم گھاس کھالیں گے اور ہندوستان سے ہزار سال تک جنگ کریں گے۔

دوسرے چھوٹے صوبوں میں بھٹو علاقائی استحصال اور منصفانہ اور مساویانہ معاشرتی رتبے کے حصول کے لئے اسلامی سوشلزم کی بات کرتے تھے۔“
 لیفٹیننٹ کرنل شریف الحق مزید لکھتے ہیں، ” الیکشن کے بعد جنرل یحیی اور بھٹو کی لاڑکانہ میں ملاقاتوں نے شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ حکمران ٹولے میں موجود جنرل حامد، جنرل عمر،جنرل گل حسن اور جنرل پیرزادہ نے بھٹو کو پاکستان کی بنیاد اور مفادات کا واحد حمایتی سیاستدان قرار دیا۔

صدر جنرل یحیی نے قومی اسمبلی کا اجلاس ۳ مارچ کو ڈھاکہ میں بلایا تو بھٹو نے صدر کے اعلان کی پرزور مخالفت کی۔ بھٹو نے کہا جب تک ان کے اور شیخ مجیب کے درمیان آئین کے مسودے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوجاتا، قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں ہوگا۔ بھٹو نے خبردار کیا کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو پورے مغربی پاکستان میں خیبر سے لے کر کراچی تک آگ بھڑک اٹھے گی۔

بھٹو اچھی طرح جانتے تھے کہ فوجی ٹولے میں اکثریت ان کے حق میں ہے۔بھٹو کے شدید دباوٴ کے نتیجے میں صدر یحیی نے یکم مارچ کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے ڈھاکہ میں ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا۔کہا جاتا ہے کہ صدر جنرل یحیی کی یہ تقریر بھٹو اور جنرل پیرزادہ نے مل کر تیار کی تھی۔یہ اعلان سن کر مشرقی پاکستان کے عوام غم و غصے سے پھٹ پڑے۔

شیخ مجیب الرحمن نے تحریک عدم تعاون شروع کردی اوراس کے نتیجے میں عملی طور پر مشرقی پاکستان میں تمام سول انتظامیہ شیخ مجیب کے قبضے میں آگئی۔شیخ مجیب نے ۳۱ انتظامی احکامات جاری کئے، جن میں سرکاری اور نیم سرکاری دفاتر بند رہنے اور مغربی پاکستان سے تمام رابطے اور مواصلات منقطع کرنے کے احکامات بھی شامل تھے۔ صرف فون، ٹیلیکس وغیرہ کے ذریعے رابطہ برقرار تھا۔

اس طرح آزادی کی تیاری نے عملی شکل اختیار کر نا شروع کر دی تھی۔ سوائے مسلح افواج کے تمام حکومتی ادارے شیخ مجیب کی ہدایات پر عمل کر رہے تھے۔بھارت طیارے کے اغوا کا بہانہ بنا کر پاکستان کے لئے اپنی فضائی حدود بند کر چکا تھا۔ ۱۴ مارچ کو صدر یحیی خان کسی حل کی تلاش میں ڈھاکہ روانہ ہوئے تو بھٹو نے بیان دیا، اگر آئین پر سمجھوتے سے قبل انتقالِ اقتدار کی کوئی کوشش کی جاتی ہے تو پھر مغربی اور مشرقی پاکستان کے دونوں اکثریتی رہنماوٴں کو علیحدہ علیحدہ اقتدار منتقل کیا جائے۔

اگلے روز ایک قدم مزید آگے بڑھتے ہوئے بھٹو نے کہا، موجودہ وقت میں اگر پاکستان کے دونوں حصوں میں جغرافیائی فرق مدنظر رکھا جاتا ہے تو پھر اکثریت کی بنیاد پر انتقالِ اقتدار کا اصول اپنا جواز کھو دیتا ہے۔یحیی خان نے بھٹو سے ڈھاکہ آنے کی درخواست کی، بھٹو کا جواب تھا کہ وہاں جاکر مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں جب شیخ مجیب بالواسطہ طور پر پہلے ہی مشرقی پاکستان کی آزادی کا اعلان کر چکے ہیں۔

اس قسم کے بیانات سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ بھٹو کے لئے اقتدار ملک کے حصے بخرے ہونے سے اہم تھا۔وہ اور شیخ مجیب صرف اور صرف اقتدار کے بھوکے تھے، انہیں اس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ ملک اور قوم کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ اقتدار کی خاطر وہ بیرونی طاقتوں کی مداخلت قبول کرنے پر بھی تیار تھے۔“ لیفٹیننٹ کرنل شریف الحق کی رائے ہے کہ ” اس وقت مسلح افواج اور مغربی پاکستان کے عوام کا اکثریتی حصہ شیخ مجیب الرحمن کو بطور وزیر اعظم قبول کرنے کے لئے تیار تھا، بشرطیکہ وہ پاکستان کی علاقائی سا لمیت کو برقرار رکھیں۔

اسی طرح مشرقی پاکستان کے عوام بھی پاکستان توڑنے کے حق میں نہیں تھے، ان کا مطالبہ حقیقی خود مختاری کا تھا۔پاکستان کے مقدر کا انحصار اس وقت واضح طور پر صرف دو رہنماوٴں پر تھا، ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن ۔جاہ و ثروت کے طالب یہ دونوں رہنما اس وقت محض اقتدار کے حصول میں اندھے ہورہے تھے جو انہیں قومی مفاد سے بھی زیادہ عزیز تھا۔“

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :