مشرقی پاکستان اور جنرل ایوب خان

جمعہ 10 دسمبر 2021

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

جنرل ایوب خان کے مارشل لاء نے مشرقی پاکستان کے سیاستدانوں اور عوام کو یہ باور کروادیا کہ پاکستان کے حقیقی اقتدار میں ان کا حصہ چھن چکا ہے ۔ مغربی پاکستان کا جرنیل ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بن چکا تھا اور کوئی اس کو روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا۔ کثیف آبادی کا مشرقی خطہ سیاسی طور پر پہلے ہی بہت چارج تھا۔بنگالی زبان تحریک کے بعد سے سیاسی تحریکیں مضبوط ہو چکی تھیں۔

مسلم لیگ کی قیادت جو اشرافیہ اور بڑے بڑے فیوڈل لارڈز پر مشتمل تھی پارٹی پر کنٹرول کھو چکی تھی۔ پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی اور بہت سی دیگر سیاسی جماعتیں عوام میں جڑیں مضبوط کر رہی تھیں۔ مولانا بھاشانی، حسین شہید سہروردی اور شیخ مجیب الرحمن صوبائی حقوق کی علمبردار عوامی لیگ میں نئی روح پھونک چکے تھے اور مسلسل پھونک رہے تھے ۔

(جاری ہے)

جنرل ایوب خان کے مطلق اقتدار نے مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی سوچ اور تحریک کو بھرپور توانائی بخشی۔

اگرچہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب جنرل ایوب خان نے لیفٹننٹ جنرل اعظم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر تعینات کیا تو انکے دو سالہ دور میں مشرقی پاکستان میں بہت سے ترقیاتی کام کئے گئے ، اعظم خان روایتی سخت طرز حکومت کے قائل نہ تھے۔ جنرل ایوب خان یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ مغربی پاکستان کی اکثریت والی فوج کی آمرانہ حکمرانی مشرقی پاکستان کے عوام کو قبول نہیں لیکن وہ طاقت کے زعم میں خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے مرض کا غلط علاج کرتے رہے۔

ڈھاکہ کو پاکستان کا دوسرا دارالحکومت قرار دینے اور ڈھاکہ میں پارلیمنٹ بلڈنگ کی تعمیر شروع کروانے جیسے اقدامات کو مشرقی پاکستان میں ڈھکوسلہ ہی سمجھا گیا۔ جب حکومت ہی عوام کے ہاتھ میں نہیں تو دارالحکومت جہاں چاہے بن جاتا اقتدار کا پرنالہ تو اپنی اصل جگہ ہی گرنا تھا۔ جنرل ایوب خان نے سیاسی رہنماوں کو غیر قانونی آمرانہ اقدامات کے ذریعے نااہل قرار دینے کا سلسلہ شروع کیا اور تحریک ِ پاکستان کے رہنماوں کا بھی لحاظ نہ کیا ۔

ان کے آمرانہ اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ابتدائی چارٹر شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نقاط ۱۹۶۶ میں ہی وجود میں آگئے اور قوم پرست عوامی لیگ مشرقی پاکستان میں مقبولیت میں تمام دیگر سیاسی قوتوں کو پیچھے چھوڑ گئی ۔ جنرل ایوب خان نے عوام میں محرومی کی جو بنیاد رکھی تھی، صدارتی انتخابات میں دھاندلی کرکے محترمہ فاطمہ جناح کو ہرانے سے اسے اور بڑھاوا ملا۔

مشرقی پاکستان میں باوجود دھاندلی کے جنرل ایوب خان بڑی اکثریت نہ لے سکے تھے ، کثیر آبادی کے ڈھاکہ اور چٹاگانگ ڈویژنوں میں محترمہ فاطمہ جناح کامیاب ہوئیں تھیں۔ دھاندلی سے الیکشن جیتنے کے بعدعوام کی توجہ ہٹانے کے لئے جنرل ایوب خان کی بہت بڑی غلطی آپریشن جبرالٹر تھا جس کا نتیجہ ۱۹۶۵ کی جنگ کی صورت نکلا۔ ہندوستان کی طرف سے جواب اتنا بھرپور تھا کہ پاکستان، کشمیر تو کیا آزاد کرواتا الٹا اپنی سرزمین کے دفاع نے ناکوں چنے چبوادیئے۔

۱۹۶۵ کی جنگ کے دوران مشرقی پاکستان کے عوام اور قیادت میں یہ احساس پیدا ہوا کہ مشرقی پاکستان کے دفاع کے لئے پاکستان کے پاس کوئی خاطر خواہ پلان نہ تھا۔پاکستان کی فوجی حکمت عملی ناقص تھی۔جنگ کے چند دنوں میں ہی جنرل ایوب خان نے مدد کے لئے امریکہ، برطانیہ اور چین کی طرف دیکھنا شروع کردیا تھا۔۱۹۶۵ کی جنگ نے پاکستان کی دفاعی قوت اور حکمت عملی کی پول مکمل طور پر ہندوستان کے سامنے کھول دی اور چند سال بعد اگلی جنگ میں ہندوستان نے پاکستانی دفاعی قوت کو پچھاڑ دیا۔

جنگ کے بعد ایوب حکومت ملک کے دونوں حصوں میں جاری حکومت مخالف تحریک سے لڑکھڑا چکی تھی۔ نیشنل پریس ٹرسٹ کے سرکاری اخبارات اور کڑی سنسرشپ کا شکار میڈیا جعلی ترقی کا ڈھول پیٹ رہا تھا مگر حکومت کی معاشی پالیسیاں صرف مخصوص بالائی طبقات کو ہی فائدہ پہنچارہی تھیں۔ عوام بدستور غربت کا شکار تھے۔ سیاسی اقتدار سے محروم مشرقی پاکستان اپنی معاشی محرومی کا بھی مکمل طور پر ذمہ دار مغربی پاکستان کو قرار دے رہا تھا۔

مشرقی پاکستان میں جاری سیاسی تحریک میں نیا موڑ اس وقت آیا جب ایوب حکومت نے شیخ مجیب الرحمن کو ایک بار پھر گرفتار کرلیا اور پینتیس دیگر بنگالی سیاستدانوں، فوجی اور سول افسروں سمیت علیحدگی کی اسکیم اگرتلہ سازش کیس میں ملوث ہونے کے الزامات پر مقدمہ چلانے کا اعلان کیا۔ اس مقدمے نے مشرقی پاکستان میں تحریک میں مزید شدت پیدا کردی۔ مشرقی پاکستان احتجاج ، ہڑتالوں، جلاو گھیراو کا مرکز بن چکا تھا، مشتعل ہجوم نے اسٹیٹ گیسٹ ہاوس اور کئی سرکاری عمارات کو آگ لگادی۔

سخت ایجی ٹیشن نے ایوب حکومت کو شیخ مجیب الرحمن کو رہا کرنے اور اگرتلہ سازش کیس واپس لینے پر مجبور کردیا۔ جنرل ایوب نے اقتدار بچانے کی آخری کوششوں کے طور پر گول میز کانفرنس بلائی مگر معاملات ان کے ہاتھوں سے نکل چکے تھے۔ مارچ ۱۹۶۹ میں وہ استعفیٰ دینے پر مجبور ہوگئے مگر اس موقعے پر بھی اپنی افتاد طبع اور عاقبت نہ اندیشی سے مجبور ہوکر اپنے ہی جاری کئے ہوئے آئین کی سنگین خلاف ورزی کی اور اقتدار قومی اسمبلی کے اسپیکر کے حوالے کرنے کے بجائے جنرل یحیی خان کے حوالے کردیا جو اتحاد کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا اور محض ڈھائی سال میں ہی ملک ٹوٹ گیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔

کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ جنرل ایوب خان کا دورایک مکمل فریب نظر تھا اور دھوکہ تھا ۔شیخ مجیب الرحمن نے چھ نکات اسی دور میں پیش کئے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تحریک اسی دور میں پھل پھول کر ایک پھلدار درخت میں تبدیل ہوئی۔ایوب حکومت اپنے ساڑھے دس سالہ دور میں ملک کے دونوں حصوں کے درمیان وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ کرسکی۔ کیا جنرل ایوب خان بھی ملک ٹوٹنے کے ذمہ دار نہیں؟ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :