تم کھڑے تھے

جمعرات 16 اپریل 2020

Shahida Zubair

شاہدہ زبیر

سقراط نے ایک بار کہا تھا کہ ”اچھے دماغ کے لوگ خیالات پر تنقید کرتے ہیں، جبکہ کمزور دماغ کے حامل، لوگوں پر تنقید کرتے ہیں۔“ لگتا ہے سقراط کو شاید ہمارے بارے میں اس وقت ضرور کوئی الہام ہوا ہوگا، جس پر انہوں نے ایک طویل عرصہ پہلے آج کے پاکستانی معاشرے کی اس خوبی سے متعلق پیشن گوئی کر دی تھی۔
پاکستا کے موجودہ  حالات کو دیکھا جائے تو بے لگام تنقید اور عدم برداشت ایک وبائی مرض کی طرح ہر طرف دکھائی دیتی ہے، جو روز مرہ معمولاتِ زندگی کی طرح عام عادت کا روپ دھار چکی ہے۔

جس طرح صبح سویرے معمول کے کام کاج کا آغاز ہوتا ہے، اسی طرح تنقید و عدم برداشت کا مادہ بھی صبح سویرے ہی انگڑائیاں لیتا ابھرتا ہے، جو رات گئے بستر پر جانے تک جاری رہتا ہے۔

(جاری ہے)

تنقید اگر تنقید برائے تنقید نہ ہو اور اصلاح کی غرض سے ہو تو واقعتاً ایک مستحسن عمل ہے  لیکن ہمارے معاشرے میں ہر شخص بلاجواز تنقید کا حق رکھتا ہے۔  ہم ہر وقت تنقید کے لیے کوئی نہ کوئی موضوع ڈھونڈنے کی تگ ودو میں ہوتے ہیں۔

خواہ مسئلہ سیاسی ہو یا پھر سماجی بس اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے کسی موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔
اس  سوچ نے ہر فرد کی شخصیت کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہم  اپنے ساتھ اتفاق نہ کرنے والوں  کو برداشت نہیں کرتے۔ ہم نے ہر حوالے سے دوہرے معیارات اپنا  رکھے ہیں۔
کسی بھی قوم کی ترقی کا راستہ حقیقت پسندی خود احتسابی اور اعلی اخلاقی معیار سے وابستہ ہوتا ہے۔

دہرے معیار رکھنے والے معاشرے محض دائروں میں ہی گھومتے رہتے ہیں اور دائرے میں گول چکر لگانے کو فاصلے کی طوالت میں کمی سمجھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں۔ اگر آپ بھی ان میں سے کسی عادت کا شکار ہیں تو خود سے نظریں مت چرائیں بلکہ اپنی اس خامی کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ کسی پر تنقید کرنے سے پہلے خود پسندی سے نکل کر اپنے کردار کا جائزہ لیں کیونکہ معاشرے میں تبدیلی دہرے پن سے نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ سوچ سے ہی آتی ہے۔


ہم تعریف کیوں نہیں کرتے؟
اس کہ وجہ محض یہ  ہم خود کو ہر فن میں یکتا اور دوسروں سے برتر تصور کرتے ہیں۔ دوسرے کی تعریف کرنے کو ایسا سمجھتے ہیں جیسے خود کو اس کے سامنے پست کررہے ہیں۔ اس طرز عمل نےہمارے معاشرے میں موجود بہت سے مثبت  حقائق  ، خوبیوں اور  اچھائیوں کو چھپا دیا ہے۔
کورونا بحران اور ہمارے رویے
چین میں کے شہر ووہان میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تو ہمارے میڈیا نے بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانے  اور حکومت پاکستان پر شب و روز تنقید کے نشتر برسائے کسی نے حقائق جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔

ہر طرف سے  آواز آئی پاکستانی طلبہ کو وآپس بھیجیں۔  اس مشکل وقت میں سفیر پاکستان نغمانہ ہاشمی وہ بہادر خاتون تھیں جنہوں نے اس مشکل ذمہ داری کو قبول کیا اور اس تجویز کی مخالفت کی۔  آج ہم سب کہہ رہیں ہیں کہ یہ ایک درست فیصلہ تھا۔میں بیجنگ میں مقیم ہوں۔  میری سفیر پاکستان سے ایک بار بھی براہ راست ملاقات نہیں ہوئی  لیکن میں ایک بات وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ محترمہ  نغمانہ ہاشمی ایک فرض شناس اورزیرک خاتون ہیں۔

وہ چین میں مشکل کے تمام دور میں  نہ صرف ووہان بلکہ چین کے تمام شہروں میں مقیم پاکستانیوں کی فلاح اور حفاظت کے لئے سرگرم عمل رہیں۔ اس دوران انہوں نے اور بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانے میں تعینات دیگر تمام افراد نے اپنے عمل سے یہ بھی ثابت کیا کہ پاکستان مشکل کی اس گھڑی میں چین کے ساتھ ہے۔ وبا کے دوران سفیر پاکستان نغمانہ ہاشمی کی چین میں مقیم ہم وطنوں کیلئے تمام سرگرمیاں اطمینان بخش اور قابل قدررہیں۔

جس طرح کوئی ماں اپنے بچوں کوکسی بیماری،مصیبت یاآفت کے رحم وکرم پرنہیں چھوڑسکتی اس طرح انتھک نغمانہ ہاشمی بھی انتہائی اخلاص ،انتظامی صلاحیتوں اوراپنے صادق جذبوں کے ساتھ ہم وطنوں کو ضروری سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ان کا چین میں مقیم طلبہ وطالبات سمیت پاکستانیوں کے ساتھ بھرپوراورموثررابطہ ہے۔


اسی طرح پاکستان میں وزیرا عظم عمران خان، صوبائی گورنرز،تمام وزرائے اعلیٰ، ڈاکٹر ظفر مرزا، این ڈی ایم اے ، مسلح افواج، ڈاکٹرز، پولیس اہلکار، ریسکیوورکرز، صحافی، بیرون ملک پاکستانی سفارت خانے،نرسز، پیرامیڈیکس، شہروں کی صفائی عملہ، این جی اوز، مذہبی رہنماؤں سمیت ہر پاکستانی اپنی اپنی سطح پر اپنی اپنی استطاعت کے مطابق وبا کے خلاف صف آرا ہیں۔


آپ دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کیا وطن عزیز میں کوئی ایک بھی ایسا شخص موجود ہے جو وبا کے خاتمے میں مخلص نہ ہو۔ یقیناً آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔ آئیں مل کر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
لہو میں بھیگے تمام موسم گواہی دیں گے کہ تم کھڑے تھے
وفا کے رستے کا ہر مسافر گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے
سحر کا سورج گواہی دے گا کہ جب اندھیرے کی کوکھ میں سے.
نکلنے والے یہ سوچتے تھے کہ کوئی جگنو نہیں بچا ہے تو تم کھڑے تھے...

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :