چینی کمیونسٹ پارٹی پر عوام کا بھر پور اعتماد

ہفتہ 18 جولائی 2020

Shahida Zubair

شاہدہ زبیر

جولائی کا مہینہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے قیام کا مہینہ ہے۔ آج سے سوبرس قبل جنم لینے والی اس جماعت کے حوالے سے ہاروڈ یونیورسٹی نے ایک 14 سالہ فالو اپ تحقیقی رپورٹ جاری کی اس رپورٹ کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ چینی عوام کی اپنی مرکزی حکومت سے اطمینان کی شرح  گزشتہ برسوں میں 90 فیصد سے زیادہ رہی ہے۔ یہ نتائج اس بات کی بھی دلیل ہیں کہ  چینی قوم اپنی حکمران جماعت پر بھر پور اعتماد کرتی ہے  اور اس جماعت کو عوام کی مکمل  حمایت  حاصل ہے۔


عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد سے اب تک کیمونسٹ پارٹی چین کی حکمران جماعت ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ چینی عوام کا اپنی حکمران جماعت پر اعتماد بڑھتا جار ہاہے۔ یہ محض ایک مفروضہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے قربانیوں، جہد مسلسل اور مثبت نتائج وخدمات کی ایک طویل داستان پوشیدہ ہے۔

(جاری ہے)

یہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی جہد مسلسل کا نتیجہ ہی ہے کہ چین آج دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔

چین دنیا میں زرمبادلہ کا حامل سب سے بڑا ملک ہے۔ کووڈ-19 کی وبا پر قابو پانے کے بعد ترقی کے راستے پر گامزن ہونے والی دنیا کی پہلی معیشت بھی چین ہی ہے۔
دوسری جانب مغرب خصوصاً امریکہ میں سرد جنگ کی ذہنیت کا حامل ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو چینی عوام کےاپنے جماعت کے لئے مخلصانہ جذبات کے حوالے بغض، کینہ اور عناد سے بھر پور خیالات رکھتا ہے۔

حال ہی میں ، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ، امریکی قومی سلامتی کے معاون رابرٹ اوبرائن اور  بعض چین مخالف امریکی سیاستدانوں نے چینی حکمران جماعت کو جان بوجھ کر بدنام کرنے کی کوشش کی ہے اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے  ساتھ  چینی عوام کے تعلقات کونقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔ظاہر ہے کہ  اس طرح کے بے بنیاد بیانات اور الزامات سے چین کی حکمران  جماعت کو بدنام کرنے والے امریکی سیاستدانوں کی  خود اپنی توہین ہوئی ہے۔


در حقیقت ،رابرٹ او برائن جیسے امریکی سیاستدانوں کی طرف سے چینی کمیونسٹ پارٹی اور چینی عوام کے مابین تعلقات کو خراب کرنے کی سازش کے پیچھے  سرد جنگ کی ذہنیت اور انتہائی نظریاتی تعصب کے جذبات کارفرما ہیں ، وہ چین کی ترقی کو  روکنا چاہتے ہیں اور  اس مقصد کے لئے چین حکمران جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسرا ، یہ امریکی سیاستدان  امریکہ میں انسداد وبا کے سلسلے میں اپنی نا اہلی   کو چھپانے کے لئے اس طرح  کی کوششیں کر رہے ہیں۔

حقیقت سے ثابت ہوتا ہے کہ مائیک  پومپیو ،رابرٹ اوبرائن اور دیگر لوگ ذاتی مفادات کے لئے امریکی عوام کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرتے ہیں ،دوسری طرف  چینی حکمران جماعت پر چینی عوام کے بھر پور  اعتماد اور  حمایت نے   ان کو  حسد اور  نفرت کی آگ میں جھونک دیا ہے۔چین مخالف جذبات ابھارنے والے یہ سیاستدان اپنے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ، حالیہ ابتر معاشی صورت حال اور وبا کے مقابلے میں لب کشا ہونے سے خوف زدہ ہیں لہذا ان کا آسان ہدف چین ہے۔


چین بھی اس صورت حال پر خاموش نہیں ہے۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں چین نے امریکہ کو اپنے ملک میں انسانی حقوق کی ابتر صورت حال پر نظرثانی کرنے اور اس حوالے سے اصلاحی اقدامات اختیار کرنے کا مشورہ دے دیا۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا 44 واں اجلاس مقامی وقت کے مطابق 17 جولائی کو ، جنیوا میں اختتام پذیر ہوا۔ اس اجلاس کے دوران ، چین نے متعدد ممالک کے ساتھ مل کر امریکہ میں انسانی حقوق کے معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ، امریکہ سے اپیل کی کہ وہ خود اپنے مسائل کا سامنا کرے اور اپنی تمام تر توانائیاں اپنے ملک میں انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ میں صرف کرے۔


نسل پرستی کے معاصر فورمز پر انسانی حقوق کونسل کے خصوصی نمائندہ کے ساتھ بات چیت کے دوران ، چین نے ممالک کے ایک گروپ کی جانب سے ایک مشترکہ تقریر کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی کہ ڈربن ڈیکلریشن" اور "پروگرام آف ایکشن" کو اپنانے کے تقریباً بیس سال بعد بھی ، فرائیڈ کی موت جیسے دیگر واقعات پیش آئے ، نسلی امتیاز اور پولیس تشدد کی وجہ سے کمزور گروہ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

بظاہر پولیس تشدد نظر آنے والے ان واقعات کی جڑیں کہیں نہ کہیں نسلی امتیاز اور معاشرتی عدم مساوات سے ملتی ہیں۔
دوسری طرف چینی کمیونسٹ پارٹی ملک میں وبا پر قابو پانے کے بعد حالیہ شدید بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی سیلابی صورت حال پر قابو پانے  اور ملک میں تجارتی سرگرمیوں کی بحالی میں مصروف ہوگئی ہے۔ اپنے قیام سے لے کر آج تک چینی کمیونسٹ پارٹی کا واحد مقصد اپنے عوام اعلیٰ معیاری زندگی کی فراہمی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :