کتاب علم کی پہلی سیڑھی ہے!

جمعہ 24 اپریل 2020

Shahida Zubair

شاہدہ زبیر

تئیس اپریل کو دنیا بھر میں کتب بینی کا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کومنانے کا مقصد کتاب کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ کتاب علم کی پہلی سڑھی ہے۔ کتاب انسانی ذہن میں سوال کرنے کی صلاحیت کو پروان چڑھاتی ہے۔ کتاب انسان کو غور فکر کی جانب مائل کرتی ہے اور  یہی غور و فکر انسان کو حکمت و دانائی اور معرفت کی طرف لے جاتا ہے۔ کتاب انسان کو طمانیت،شعور آگہی اور وجدان کے خزینے عطا کرتی ہے۔

کتاب انسانی سوچوں کو گہرائی اور وسعت سے نوازتی ہے۔  ہم مسلمان ہیں اور ہماری زندگی کا دارومدار  اور مرکز و محورقرآ ن مجید فرقان حمید پر ہے۔ اسلام میں علم اور  کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن نے ابتدا میں ہی اپنا تعارف ’’الکتاب‘‘ کے طور پر کروایا۔

(جاری ہے)

بے شمار حکمتوں کے ساتھ ساتھ اس میں یہ حکمت  بھی ہے کہ کتا ب سے تعلق اور ربط پیدا کرنے کیلئے اللہ نے اپنے کلام کا نام ’’الکتاب‘‘ رکھا۔


میں نے اپنے یورپ میں قیام کے دوران  کتاب کو لوگو  ں کی زندگی کا بنیادی جزو بنے ہوئے دیکھا ہے۔  ڈوئچے ویلے سے وابستہ نہایت علمی اور ادبی شخصیت کے مالک امجد علی صاحب اکثر اس دن زیادہ مسرت اور خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے جس دن وہ گاڑی کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے تھے۔ ان  کاکہناتھا پبلک ٹرانسپورٹ میں مجھے کتاب پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے  ۔

اسی  طرح وہاں  پارکوں میں جابجا بوتھ بنے تھے جن میں لوگ رضا کارانہ طور پر کتابیں رکھ جاتے تھے۔ یہ بوتھ حقیقی معنوں میں علم  کے تبادلے کے مرکز کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ یورپی اقوام کی ترقی کتاب سے محبت ہی کی مرہون منت ہے۔
وہ علم کے موتی اور کتابیں اپنے آباء کی
جو یورپ میں دیکھیں تو دل ہوتا ہے سہ پارہ

آج چین میں بھی جو چیز مجھے سب سے زیادہ متاثر کر رہی ہے وہ  چینی قوم کی  کتاب دوستی ہے۔

چین کے صدر مملکت  شی جن پھنگ کی متعدد تصانیف  چینی قوم کی علمی و انتظامی محاذ پر رہنمائی کر رہی ہیں۔

چین میں جا بجا لائیبریریاں موجود ہیں۔ یہاں گلی محلوں کی سطح پر کیبن لائیبریریاں موجود ہیں ۔ جو علم کے متلاشی افراد کی  علمی پیاس کو سیراب کرتی نظر آتی ہیں۔

اس کے علاوہ یہاں منعقد ہونے والے سیمینارز بھی علم کے خزانے سے کم نہیں ہوتے۔

ہر سیمینار میں  موضوع سے متعلق متعدد کتابیں تین سے چا ر زبانوں میں ضرور موجود ہوتی ہیں۔ کتاب چینی قوم کی زندگی کا بنیادی جزو ہے۔ اسی کتاب کی وجہ سے چینی قوم آج ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔
پاکستان میں اس حوالے سے صورت حال مایوس کن ہے۔ ہم نے کتاب سے محبت کا تعلق بنایا ہی نہیں  ۔ کتاب سے ہمارا تعلق واجبی اور "مطلبی" ہے۔ حتیٰ کہ طلبا بھی اپنی نصابی کتب پڑھنے سے کتراتے ہیں۔

سکولوں، کالجوں اور پبلک لائیبرریوں میں لوگ بہت کم نظر آتے ہیں۔ نوجوان نوٹس پر اکتفا کرتے ہیں۔ کتاب پڑھنے کو وقت کا ضیاع سمجھا جاتا ہے۔   ہم نے کتاب کو بھلایا تو  علم نے ہم سے کنارہ کر لیا صورت حال پر تبصرے کی مزید ضرورت نہیں حقیقت ہم سب کے سامنے ہے۔
بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ کتب بینی سے دوری کی ایک بنیادی وجہ انٹرنیٹ پریوٹیوب،  گوگل ، فیس بک اور وکی پیڈیا وغیرہ کا زیادہ استعمال ہے۔

یہ چیزیں کوئی منفی چیزیں نہیں ہیں ۔ ان کا استعمال اور ادراک بھی یقیناً وقت  کی اہم ضرورت ہے۔ آپ انٹرنیٹ پر بھی کتب پڑھ سکتے ہیں۔ آج کل انٹرنیٹ پر بھی کروڑوں کتابیں موجود ہیں، جو مطالعے کو فروغ دینے کا انتہائی موثر ذریعہ بن سکتی ہیں۔کتب بینی کی عادت کو نئی نسل میں پروان چڑھانے کے لیے اساتذہ اور والدین کو محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ابتداہی سے بچوں میں مطالعے کی عادت کو پروان چڑھانا چاہیے، تاکہ وقت گذرے کے ساتھ ساتھ یہ عادت پختگی اختیار کر جائے۔


میں نوجوانوں خصوصاً طلبہ سے درخواست کروں گی کہ ادب سے اپنا رشتہ ضرور قائم رکھیں۔ یہ رشتہ کتاب کے ذریعے ہی استوار ہو سکتا ہے۔  ادب کو علم کا زیور کہا جاتا ہے اور علم انسانی ذہنوں کی آبیاری کرتا ہے،تہذیبوں کو جنم دیتا ہے معاشروں کو پروان چڑھاتا ہے۔اور ایسا کرنے میں کتاب بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔جب تک کوئی معاشرہ کتاب سے منسلک رہتا ہے وہاں ترقی کا سفر جاری رہتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :