استاد محترم علی بہادر کی شخصیت اور میرے پرچے کے آخری چالیس منٹ

پیر 21 دسمبر 2020

Sheraz Hussain

شیراز حسین

استاد محترم علی بہادر کی مثال اُن عظیم اساتذہ میں شمار ہوتا ہے جو اپنے بچے مستقبل کیلئے تیار کرتے ہیں،استاد محترم علی بہادر میرے دل کے بہت قریب ہے کیونکہ جو میں مستقبل کیلئے سپنے دیکھ رہا ہوں مجھے ایسا لگتا ہے جیسے سر علی بہادر مجھے اُن کیلئے تیار کر رہے ہیں، سر نہ صرف امتحان کیلئے تیار کرتے ہیں بلکہ زندگی کیلئے بھی سٹوڈنٹس کو تیار کرتے ہیں یہ میں جو کچھ بھی لکھ رہا ہوں اور جس کو آپ پڑھ رہے ہیں یہ صرف سر علی بہادر کی محنت کا نتیجہ ہے۔

میں ایک چھوٹا سا واقعہ سناؤ میں جب مڈ ٹرم امتحان کیلئے اُردو صحافت کے پیپر کیلئے بیٹھا اور ہمارا تیسرا سوال ایک کالم کا تھا جس میں ہمیں ایک کالم لکھنا تھا۔ سب سے پہلے میں نے کالم لکھنا شروع کیا میں اُس کالم میں اتنا گہرا چلا گیا کہ ایک وقت میں کلاس میں موجود استاد محترم سر عاطف کی آواز آئی کہ بچوں چالیس منٹ رہ گئے اور اُس وقت تک میں اس طرح کالم لکھنے میں مصروف تھا جیسے میں کسی سنسان ویران علاقے میں بیٹھا کالم لکھ رہا ہوں ہمارا امتحان شروع تھا اور اتنے میں ایک صاحب تشریف لائے اور انہوں نے سر عاطف سے کہا کہ ٹی بریک اُن کے ہاتھوں سے استاد محترم نے ایک کپ چائے اور ایک بسکٹ لیا سر نے بچوں سے پوچھا کہ کوئی چائے پینا پسند کرے گا سب نے کہا نو سر شکریہ میں بلکل ایک کونے میں بیٹھا پیپر کر رہا تھا کیونکہ جب ہمارا پرچہ شروع ہوا تو اس وقت میں کلاس میں بلکل درمیان والی کرسی پر بیٹھا تھا جب میں  نے کالم کا موضوع دیکھا تو میں وہاں سے اُٹھ کر دوسری جگہ پر گیا اور میں  سر عاطف کے بلکل قریب ایک کرسی پر بیٹھ گیا جب سر چائے پی رہے تھے تو استاد محترم نے مجھے ایک بسکٹ دیا کہ شیراز بچے یہ لو کھا لوں میں نے اُن سے ایک بسکٹ لیا اور کھا لیا اور اس سے مجھے بہت انرجی ملی مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ پتہ نہیں میں نے کتنا ذیادہ کھانا کھا لیا اس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے صبح کا ناشتہ نہیں کیا تھا اور دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا اور ہمارا پیپر پونے چار بجے شروع ہوا تھا مجھے ایسا لگا جیسے استاد محترم عاطف صاحب کو کسی نے آکر کان میں بتایا کہ شیراز کو بہت بھوک لگی ہے میں تو دل ہی دل میں سر کا بہت شکریہ ادا کر رہا تھا لیکن میں اپنے کالم میں بہت مصروف تھا اور بہت دل ودماغ لگا کر اس کالم میں بہت گہرائی میں جا چکا تھا خیر میرا پرچہ اتنا اچھا تو نہیں ہوا کیونکہ میں پریشان ہو گیا تھا کہ میں کہا گم تھا کہ میرا پورا پیپر ابھی رہتا ہے اور وقت ختم ہوگیا۔

(جاری ہے)

یہ داستان میں نے اس لیئے سنائی کہ مجھے اتنا اچھا لگا تھا جب میں پریشان اور خاموش سا ہوکر پیپر سے واپس ہاسٹل کی طرف جا رہاتھا اور وقت جب ختم ہوا تو میں نے صرف اتنا کہا تھا سر عاطف سے کہ میرا دماغ بلکل بند سا ہو گیا ہے کیونکہ مجھے ہوش ہی نہیں تھا کہ میں پیپر کیلئے بیٹھا ہوا ہے۔ استاد محترم نے مجھ سے پوچھا کہ بیٹا کیوں کیا ہوا میں نے کہا کہ سر میں نے سب سے پہلے کالم لکھنا شروع کیا تھا۔

استاد محترم عاطف سر نے مجھے کہا کہ بیٹا کالم تو سب سے آخر میں لکھتے ہیں۔ میں جب ہال سے نکلا اور ہاسٹل کی طرف واپس جا رہا تھا میں راستے میں سوچتے سوچتے کبھی اُداس ہوتا رہا اور کبھی کبھی مسکرا دیتا تھا یعنی کبھی خوشی کبھی غم والا ماحول تھا۔ مجھے غم اس بات کا تھا کہ میرا پیپر اچھا نہیں ہوا اس کی وجہ یہ تھی کہ اُردو صحافت کا پیپر مجھے اچھا لگ رہا تھا اور مجھے صرف اس پیپر کا انتظار تھا کہ کب ہمارا یہ پیپر ہوگا جوکہ اچھا نہیں ہوا اور خوشی اسی بات کی تھی کہ چلو اگر پیپر اچھا نہیں ہوا تو کیا ہوا میں نے زندگی کیلئے بہت کچھ سیکھا کہ کالم کیسے لکھتے ہیں اور یہ سب استاد محترم علی بہادر کی وجہ سے مکمن ہوا تھا۔

کیونکہ وہ ہمیں بہت دل سے پڑھاتے تھے اور ایک دن میں اپنے دوست اعجاز کو کہا کہ یار سر علی بہادر کتنے دل سے پڑھاتے ہیں ایسا لگتا یے کہ جیسے ہمیں صحافت میں بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے اعجاز نے بھی کہا کہ یار سچ میں بہت دل ہی دل سے ہمیں وقت دیتا ہے اور ہماری ہر مشکل میں مدد بھی کرتے ہیں۔ آپ تو شاید بہت بور ہوچکے ہیں کہ پتہ نہیں شیراز کیا کہانی سنا رہا ہے یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ ہیں کہ مجھے استاد محترم علی بہادر کی ایک بات ہمیشہ یاد رہی گی کہ بیٹا تلوار اور ایٹمی ہتیاروں سے ذیادہ طاقت ور یہ قلم ہے اور اس قلم سے آپ لوگ دنیا میں انقلاب برپا کر سکتے ہوں آخر میں اتنا کہونگا کہ استاد محترم پر جتنا کچھ لکھا جائے وہ کم ہے میرے الفاظ شاید ختم ہو جائے لیکن سر علی بہادر کی خصوصیات کبھی ختم نہیں ہونگے کہ کس دل سے اپنے بچوں پر محنت کرتے ہیں کہ میرا ہر ایک بچہ زندگی میں کامیاب ہو جائے۔

شکریہ سر شکریہ استاد محترم علی بہادر صاحب۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :