کرنل عبد الحمید سرور کی شخصیت

منگل 6 جولائی 2021

Sheraz Hussain

شیراز حسین

میرے اندر کا ڈر کس نے ختم کیا، میری کہانی میری زبانی،مجھے آج بھی یاد ہے کہ 26 اگست 2012 کو میرا پہلا دن تھا جب مجھے حمزہ آرمی پبلک سکول اینڈ کالج سسٹم راولپنڈی میں داخلہ مل گیا جبکہ میں بچپن سے بڑے خواب دیکھا کرتا تھا اور اس داخلے پر میں بہت خوش تھا کیونکہ مجھے لگ رہا تھا کہ میں زندگی میں غریب لوگوں کیلئے کچھ نہ کچھ ضرور کرونگا، جب میں ہاسٹل میں آیا تب مجھے محسوس ہوا کہ باہر کی زندگی کتنی مشکل ہوتی ہے اور اگر آپ نے کچھ بننا ہے یہ خود کو برباد کرنا ہے تو ہاسٹل لائف میں وہ سب کچھ انسان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، اسکول میں مجھے کافی مشکل پیش آرہی تھی کیونکہ مجھے سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا اور دوسری جانب ہاسٹل والے کیسے تھیں اُن سے میں خوب واقف تھا کیونکہ اُن میں کافی بچوں کی یہی سوچ تھی کہ بس وقت پورا کروں اور گھر چلے جاؤ اور میں دن رات سوچتا تھا کہ مجھے کچھ بننا ہے بننا ہے۔

(جاری ہے)

کبھی کبھی میں سوچتا تھا کہ حمزہ کالج میں کوئی ناکام کیسے ہوسکتا ہے تب میں نے ایک بار وائس پرنسپل کرنل عبد الحمید سرور سے سنا کہ صرف حمزہ کا یونیفارم پہن لینے سے آپ آفیسر نہیں بن سکتے تب مجھے محسوس ہوا کہ کامیابی اور ناکامی یہ خود انسان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے تب میں نے خود پر سوچنا شروع کیا اور میں اس وقت دسویں کلاس تک پہنچ گیا تھا لیکن میری یہی سوچ تھی کہ میں نے ابھی تک کچھ بھی نہیں سیکھا اس کی سب سے بڑی وجہ تھی میرے اندر کا ڈر، میرا دل بہت کرتا تھا کہ میں پرنسپل سر کے پاس جاؤ اور اُن کو اپنا مسلہ بتاؤ خیر میں ہمت کر کے چلا گیا مجھے کافی ڈر بھی لگ رہا تھا کیونکہ وہ مزاج سے کافی سخت تھے میں آفس میں چلا گیا سر نے مجھے کہا کہ جی بیٹا بتاؤ اس کے بعد میں نے بتایا کہ کلاس کے دوران میرے دل میں  بہت سوالات ہوتے ہیں لیکن میں ڈر کی وجہ سے استاد سے پوچھ نہیں سکتا جبکہ کلاس ختم ہو جاتی ہے اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا سر نے مجھے کہا کہ بیٹا جب انسان اپنے اندر سے احساس کمتری نکال دیں اور یہ سوچیں کہ مجھے اللہ کی سوا کسی سے کوئی ڈر نہیں تب وہ انسان کسی سے نہیں ڈرتا ہماری بات ختم ہوئی سر نے مجھے پاس بلایا پیشانی پہ بوسہ دیا اور میرے دونوں کان میں درود شریف پڑھ کر کہا کہ آپ میرے بیٹے ہوں اور میرا بچہ دنیا میں سر اُٹھا کر لوگوں کی انکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے۔

اس دن کے بعد میں کبھی کسے سے نہیں ڈرا اور میری پوری زندگی بدل گئی میں نے خود سے لڑنا شروع کیا کہ مجھے خود کو تبدیل کرنا ہے اس کے بعد میں ہمیشہ پرنسپل عبد الحمید سرور کے پاس جاتا تھا اور ان سے اپنی ہر بات کہتا تھا، کافی لوگوں کو شکایت بھی تھی کہ آپ اُن کے پاس نہ جایا کروں چٹھی کے وقت سیدھا ہاسٹل آیا کروں لیکن میں نے کبھی کسی کی بات نہیں سنی، ایک دفعہ میں پرنسپل سر کے پاس گیا وہ کافی مصروف تھے میں نے کہا سر مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے سر نے کہا جی میں سن رہا ہوں مجھے عجیب لگا کہ سر کاغزات میں مصروف ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ میں سن رہا ہوں خیر میں نے کہا کہ سر میں ایک شخصیت بننا چاہتا ہوں جس طرح محمود غزنوی ہے سکندر اعظم ہے جو آج دنیا میں نہیں ہے لیکن پھر بھی ہر انسان کو اُن کے بارے میں پتہ ہیں، پرنسپل عبد الحمید سرور نے قلم نیچے رکھا اور عینک اُتار کر کرسی آگے کر کے مجھ سے مخاطب ہو کر بولے کہ بیٹا بیٹھ جاؤ اور پھر سے بتاؤ کیا بننا چاہتے ہوں میں نے پھر سے وہی بات بتائی جبکہ مجھے آج بھی یاد ہے کہ اُس دن سر نے مجھے پورا ایک گھنٹہ کا وقت دیا تھا اور کسی کو بھی آفس میں اندر آنے نہیں دیا تھا اور میری وجہ سے سر میٹنگ سے بھی 40 منٹس لیٹ ہوئے تھے۔

اُس دن سر نے مجھے بہت کچھ کہا تھا اور آخر میں کہا کہ بیٹا تین باتیں ہمشہ یاد رکھنا
1.    کبھی ٹیبل کے نیچے اپنا ضمیر مت بیجھنا۔
2. زندگی میں جب آپ کامیاب انسان بن جاؤ انشاءاللہ اور کسی مقام پر اگر کوئی آپ کو ڈرنکس پیش کریں تو ہمیشہ یہ یاد رکھنا کہ آج میں دنیا میں بہت طاقت رکھتا ہوں میں کچھ بھی کر سکتا ہوں لیکن مجھے میرا اللہ دیکھ رہا ہے۔


3.جب آپ ایک اکیلے کمرے میں ایک لڑکی کے پاس ہوں تو اُس وقت یہ سوچنا کہ مجھے کوئی بھی نہیں دیکھ رہا لیکن میرا اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔
پرنسپل کرنل عبد الحمید سرور ایک ایسی سخصیت کے مالک ہیں میں ہمیشہ اُن کو دعاؤں میں یاد رکھتا ہوں اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اُن کے ہاتھوں سے بڑے بڑے آرمی آفیسرز بنے ہیں، آج میں جس مقام پر ہوں میں دنیا میں کسی بھی بندے کا سامنا آرام سے کرسکتا ہوں مجھے کوئی مسلہ نہیں ہوگا لیکن میرا آج بھی دل کرتا ہے کہ میں سر سے ہمیشہ رابطے میں رہوں ان سے باتیں کروں لیکن میں جب بھی اُن سے بات کرنی کی کوشش کرتا ہوں میرا منہ خشک ہو جاتا ہے اس وجہ سے میں اپنے استاد محترم کو میسج کرتا ہوں وہ بھی ڈر ڈر کے لکھتا ہوں، میری دعا ہے کہ میری اوپر پرنسپل کرنل عبد الحمید سرور کا سایہ ہمیشہ سلامت رکھیں آمین۔


میں تمام اساتذہ سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ اپنے بچوں کی باتیں سنا کریں ان کو پیار سے سمجھایا کریں کیونکہ وہ آپ کی وجہ سے دنیا میں بڑا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :