استاد کی شاباشی شاگرد کو آسمان کی بلندیوں پر لے جاتا ہے

جمعہ 5 نومبر 2021

Sheraz Hussain

شیراز حسین

بعض اوقات شاگرد کا مقدر ایک استاد کے ہاتھ پہ لکھا ہوتا ہے، وہ جب اپنا گھر یہ سوچ کر چھوڑتا ہے کہ مجھے زندگی میں کچھ بننا ہے، کچھ حاصل کرنا ہے، پھر وہ انسان راستوں کی پرواہ نہیں کرتا، وہ جب پیچھے موڑ کر دیکھتا ہے تو اُن کو یہ سوچ آتی ہے کہ واپس جانے کیلئے اب کوئی راستہ ہی نہیں ہے، ایسے دو طرح کے شاگرد ہوتے ہیں ایک وہ جو منزل پر پہنچنے کیلئے ہر طرح کی حالات سے نمٹنا جانتا ہوں، ان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ میری منزل بہت بڑی ہے اس لیے میری آزمائش بھی بہت بڑی ہوگی، ایسا شاگرد جب گرتا ہے تو وہ واپس اُٹھنا بھی جانتا ہے، کیونکہ اُن کو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں دنیا کی ڈر سے میری منزل کی راہ میں کوئی رکاؤٹ نہ آجائیں، ایسا شاگرد جب زندگی کی تلخ حقیقت دیکھتا ہے، اُن کو اندازہ ہوتا ہے کہ خواب دیکھنا اور اسے پورا کرنا اِن دو لفظوں میں زمین اور آسمان کا فرق ہے تو وہ دنیا سے تھوڑا مایوس ہوجاتا ہے اُس کے چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ اُن کی مزاج میں خاموشی سی آجاتی ہے، اصل میں ایسا شاگرد غمگین یہ اداس نہیں ہوتا بلکہ وہ دنیا کی وہ شکل دیکھ رہا ہوتا ہے جو اس نے یونیورسٹی سے ڈگری لیکر اگلے چار سالوں میں جاکر دیکھنی تھی، ایسے  شاگرد کو ہم اداس نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ وقت سے پہلے اپنی زمہ داریاں اور بوجھ اٹھانے کی کوشش میں لگا ہوتا ہے، ابھی اُس میں وہ طاقت نہیں ہے جس سے وہ دنیا کی مشکل راستوں سے گزر سکیں، بلکہ اپنے دل و دماغ میں یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ حقیقت میں خوابوں کو پورا کرنا کتنا مشکل ہے، لیکن ایسا شاگرد عشق، محبت، پیار، دوستی، لگاؤ اور وعدے جب اپنی منزل کے ساتھ کر جاتا ہے تو پھر اس کو کسی کی پرواہ نہیں ہوتی کہ میرے مخالفین کتنے ہیں، مجھے کون گرانا چاہتا ہے، میری ناکامی پر خوشی کس کو ہوتی ہے اور میرے خلاف سازشیں کون کرتا ہے، ایسا شاگرد ان چیزوں کو درگزر کرتا ہے اور دنیا والوں سے صرف اتنا کہتا ہے کہ میری تقدیر پر جلنے والوں، میں گھر سے دولت نہیں بلکہ ماں باپ کی دعا لیکر نکلا ہوں، پھر اس کو روکنا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ وہ دنیا کو اپنی مسکراہٹ اور خاموشی سے شکست دینا خوب جانتا ہے، لیکن مشکل حالات میں جب ایک استاد آکر شاگرد کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہے اور اسے شاباشی دیتا ہے تو اس کو حوصلہ ملتا ہے، اور اُس کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔

(جاری ہے)


دوسرے طرح کا شاگرد صرف خالی ہاتھ گھر سے نکلتا ہے ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا لیکن وہ یہ یقین ضرور رکھتا ہے کہ ایک نہ ایک دن میں زندگی میں ضرور کچھ بنوں گا، لیکن وہ دنیا کے بجائے اپنے استاد کی طرف ہمیشہ دیکھتا ہے کیونکہ وہ سوچتا ہے کہ اس ظالم دنیا میں ایک استاد ہی تو ہے کہ وہ میری مدد کرے گا اور مجھے پیار سے سمجھائے گا کہ اس مشکل دنیا کا مقابلہ کیسے کرنا ہے لیکن اُس بیچارے اور معصوم شاگرد کو کیا پتہ کہ ہر استاد آپ کو بادشاہ نہیں بناتا، کیونکہ کچھ محاورے اکثر غلط بھی ہوا کرتے ہیں۔


لیکن استاد محترم یاد رکھیں گا کہ آپ کے بولی ہوئی الفاظ کسی کا مقدر بدل سکتی ہے، یاد رکھیں گا کہ بعض اوقات کسی کا مقدر آپ کے الفاظوں میں شامل ہوتا ہے یا تو اس سے آپ کا شاگرد بادشاہ بن جاتا ہے یا بیچارہ مایوس ہوکر لوٹ جاتا ہے اور اپنی زندگی برباد کر جاتا ہے، یاد رکھیں گا کہ کسی کی زندگی آپ کی شاباشی، آپ کی تھپکی اور آپ کی ان الفاظوں میں شامل ہیں کہ جو کسی کو مل جائیں تو وہ انسان آسمان کی بلندیوں کو چھو لیتا ہے، زندگی میں اُن شاگردوں کو شاباشی دیجئے گا جنہوں نے بڑے خواب دیکھیں ہیں، ان کے پاس ہے تو کچھ نہیں لیکن ایک ارادہ لے کر نکلے ہیں کہ ہمیں زندگی میں کچھ بننا ہے، سر اُن کو حوصلہ دیجئے گا کہ وہ آنے والے طوفانوں کا مقابلہ کیسے کریں گے، سر آپ کی شاباشی اور حوصلہ کسی کا مقدر بدل سکتی ہے، پھر ایک وقت ایسا آئے گا کہ وہ شاگرد کسی مقام پر پہنچ کر دنیا سے مخاطب ہو کر کہیں گا، کہ میری انسپائریشن یہ استاد ہیں اور آج میں اِن کی وجہ سے دنیا کی انسپائریشن بن چکا ہوں۔


زندگی میں اگر کسی انسان کی خوشی اور اطمینان کو دیکھنا ہے نہ تو اس انسان کو دیکھنا کہ جو کسی کی بلندی میں ایک بہت بڑا اہم کردار ادا کر چکا ہے، جو کسی کی کامیابی کی پیچھے کا راز ہے، اُس انسان کی خوشی کو ایک بار لازمی دیکھیں گا، ایک استاد بادشاہ نہیں ہوتا لیکن بادشاہ بنا دیتا ہے لیکن بادشاہ بننے کے بعد بادشاہ کو بھی اتنا سکون نہیں ہوتا جتنا ایک استاد کو ہوتا ہے کہ میرا شاگرد آج ایک بادشاہ بن چکا ہے، سر زندگی میں آپ کو اتنی خوشیاں ملی گی کہ آپ کی شاباشی بھی ایک دن خود پر ناز کرنے لگ جائی گی۔

اس لیے میں گزارش کرتا ہوں کہ اپنے شاگرد کو ہمیشہ شاباشی دیجئے گا کیونکہ آپ ان کے احساسات اور کیفیات سے خوب واقف ہوتے ہیں کہ میرا بیٹا کیا سوچ رہا ہے اور کیا بننا چاہتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :