سینئر صحافی اور استاد محترم طارق محمود ملک کی یادیں۔۔

جمعہ 18 دسمبر 2020

Sheraz Hussain

شیراز حسین

کُلُّ نَفْسٍ ذَائقة الْمَوْتِ “ہر متنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے”
مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں استاد محترم علی بہادر کے شاگرد ہوتے ہوئے بھی مجھے آج لکھنے سے ڈر لگ رہا ہے شاید میری قلم میں اتنی طاقت نہ ہوں کہ میں کچھ لکھ سکوں لیکن میرے دل و دماغ میں سر علی بہادر کی یہ بات ہمیشہ رہتی ہے کہ بیٹا قلم سے آپ دنیا میں انقلاب برپا کر سکتے ہوں اس وجہ میں نے خود کے ساتھ یہ عہد کیا تھا کہ میں ہمیشہ لکھتا رہونگا لیکن آج مجھ سے کچھ نہیں لکھا جا رہا کیونکہ میرے خون کے آنسوں اور میرے کاپنتے ہوئے ہاتھ مجھے یہ اجازت نہیں دیتی کہ میں اپنے استاد محترم طارق ملک محمود کی یادوں پر تزکرہ کر بیٹھوں کیونکہ وہ آج دن تک ہمارے درمیان موجود رہے لیکن اب وہ خالق حقیقی سے جاملے۔

(جاری ہے)

میری آنکھوں میں آنسوں بھر آتے ہیں جب میں مرحوم کا لفظ سنتا ہوں لیکن ہاۓ افسوس جب موت کا لفظ آتا ہے تو ہر انسان بےبس نظر آنے لگتا ہے کیونکہ ہم اس دنیا میں جس مقصد کیلئے آئے ہیں اور جس خالق نے ہمیں اس دنیا میں ایک مخصوص امتحان کیلئے بیھجا ہے ہم سب کسی نہ کسی دن اُن کے طرف ضرور واپس جائینگے اب مرضی انسان کی ہے کہ وہ اللہ اور محمد صلی الله عليه وسلم   کے بتائے ہوئے طریقوں پر اپنی زندگی گزارے یہ شیطان کے راستے پر چلے۔


ایک دن میں لائبریری میں بیٹھے امتحان کی تیاری میں مصروف تھا تو ایک سینئر سٹوڈنٹ میرے پاس آیا اور مجھ سے پوچھنے لگا کہ بھائی کیا یہ جگہ خالی ہے میں نے کہا جی آپ ادھر بیٹھ سکتے ہیں خیر اس کے بعد ہماری باتیں ہوتی رہی تو انہوں پوچھا کہ بتاؤ مستقبل میں آپ کے کیا ارادے ہیں؟ میں جواب دیا کہ ایک اچھا پروگرام اینکر بننا چاہتا ہوں لیکن اس سے پہلے ایک اچھا رپورٹر بننا ہے تو اُن کا جواب سن کر میں سوچنے لگا اس بھائی کا جواب کچھ یوں تھا “ اگلے سمیسٹر میں آپ کو سر طارق محمود پڑھانے کیلئے آئینگے جو ہم نیوز میں ایک سینئر صحافی بھی ہیں اور وہ ایسے استاد ہیں کہ جو بچے دل سے کچھ بننا چاہتے ہیں وہ ان کی بہت مدد کرتا ہے “ بھائی کا یہ جواب سن کر جب میں ہاسٹل پہنچا تو میں نے سر طارق محمود کے بارے میں سرچ کیا تو مجھے اُن کے بارے میں بہت کچھ جاننے کو ملا۔

وقت گزرنے کے بعد جب ہم اگلے سمیسٹر میں پہنچے تو سر طارق محمود ملک صاحب ہمیں پڑھانے کیلئے کلاس میں تشریف لائے انہوں ہمارے ساتھ بہت ساری باتیں کیں اُن باتوں میں مجھے اُن کے کچھ عزیم الفاظ آج بھی یاد ہے جو سیدھا آکر میرے دل کے اندر رہ گئی اور ہمیشہ کیلئے اُن کے یہ الفاظ مجھے یاد ہیں انہوں نے کہا “کہ بیٹا مجھے دیکھوں میں آپ لوگوں کے سامنے ایسا کیوں کھڑا ہوں یہ جو کچھ مخصوص صحافیوں کے پاس جلدی سے بڑی بڑی گاڑیاں آجاتی ہیں یہ سب کچھ میں بھی حاصل کر سکتا ہوں لیکن نہیں مجھے اپنے بچوں کے پیٹ میں حرام کا نوالا نہیں ڈالنا اور مجھے اللہ کو جاکر جواب بھی دینا ہے اور انہوں یہ کہہ کر اپنی بات ختم کردی کہ بچوں آپ لوگ صحافی بننے جارہے ہیں اور کبھی اپنی ضمیر کا سودا مت کرنا ”
محترم استاد طارق محمود ملک نے ہماری ہر مشکل میں مدد کی اور مجھے اُمید ہے کہ وہ اللہ کے پاس اچھے اعمال لیکر گئے ہونگے اور اللہ اُن کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کریں امین۔


میں آخر میں اتنا ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ جس طرح نیک اولاد دنیا میں جو بھی اچھے کام کرتے ہیں اور اُن کا ثواب والدین کو آخرت میں ملتا ہے اسی طرح ہم سر طارق محمود ملک کے بچے ہیں اور صحافت کے میدان میں کبھی اپنے ضمیر کا سودا نہیں کرینگے اور حق اور سچ کیلئے آواز اُٹھائینگے اس میں چاہیں ہماری جان کیوں نہ چلی جائے اور  دنیا میں ہم جو بھی اچھے کام کرینگے اس کا اجر اللہ کریم ضرور مرحوم طارق محمود ملک کو دینگے کیونکہ یہ اُن کی پرورش کا نتیجہ ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :