دماغ کی راحت

منگل 9 فروری 2021

Sidra Kamal

سدرہ کمال

پرامن زندگی انسان کا خواب ہوتی ہے۔ یہی وہ شے ہے جس کے لئیے انسان بچپن سے لے کر جوانی تک اور جوانی سے بڑھاپے تک انتھک محنت کرتا ہے، دن رات تگ و دو کرتا ہے، محبت کی سیڑھیاں پھلانگتا ہے، زندگی میں آسائشات پیدا کرتا ہے تا کہ پر امن زندگی کا حصول ممکن ہو سکے مگر کبھی کبھار انسان اپنی فطرت کے خلاف کاروائی کر بیٹھتا ہے یا ایسے راستے کی طرف چلنے لگتا ہے جو اسے پریشانیوں میں دھکیل دیتا ہے۔

ان پریشانیوں کا بروقت علاج نا کیا جائے تو مسلسل غم و غصے کی وجہ سے مختلف بیماریاں لگنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ انسانی دماغ کا توازن برقرار نہیں رکھ پاتا اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔
ڈپریشن کی ابتدائی وجوہات  میں سے ایک وجہ منفی سوچیں ہیں جس کی وجہ سے دماغ میں پیدا ہونے والے کمیائی مرکبات کا نظام درہم برہم ہونے لگتا ہے، زندگی جہنم دکھائی دیتی ہے اور انسان اپنے دماغ کے ہاتھوں بے بس ہو جاتا ہے کیوں کہ انسانی دماغ کا نظام سوچ کے کنٹرول میں ہوتا ہے مگر جب سوچ ہی کنٹرول میں نا ہو تو دماغ کا کنٹرول میں ہونا ممکن ہی نہیں۔

(جاری ہے)


1839 میں اینرک ولیم ڈیو نے آواز کی لہروں کے اثرات کے متعلق بتایا کہ کس طرح سے آوازیں منفی اور مثبت پہلووں یا سوچوں کو اجاگر کرنے کی وجہ بنتی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جیسے ہی آوازیں زہنوں سے ٹکراتی ہیں اسی وقت جواب ان آوازوں کا جواب دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان اگر مثبت آوازیں سنے گا تو دماغ بھی مثبت ردعمل دے گا۔ یہاں مزید بتاتی چلوں کہ سائنس دانوں نے ایک اور بات واضح کی ہے کہ دماغی سیلز ہمیشہ حرکت میں رہتے ہیں، ان کے متحرک رہنے سے دماغی امراض کی نشاندہی کی جاتی ہے کہ کس قسم کے سیلز زیادہ متحرک ہیں یعنی کون سے سیلز متحرک ہیں جن کی وجہ سے دماغ کنٹرول میں نہیں ہے۔

درحقیقت دماغ میں وہی سیلز زیادہ متحرک ہوتے ہیں جن کی تعداد زیادہ ہو کیوں کہ یہ نیوروٹرانسمیٹرز بالکل ویسے ہی پیدا ہوتے ہیں جیسی آوازیں اور سوچیں اس کے دماغ تک رسائی حاصل کرتی ہیں۔ ان کا اثر دیرپا ہوتا ہے۔ چونکہ سیلز کے بننے کا عمل جاری رہتا ہے یہاں تک کہ جب انسان بولتا ہے، چلتا ہے یا سنتا ہے تو ویسے ہی سیلز دماغ میں بننے لگتے ہیں۔


اس لئیے جب انسان ایسے ماحول میں رہتا ہے جہاں پر وہ خوشی محسوس نہیں کرتا، پریشانیوں کا بسیرا ہوتا ہے تو انسان کے دماغ میں ایسے سیلز پیدا ہونے لگتے ہیں جو نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ اس لئیے دماغ تک ایسی باتوں کی رسائی بہت ضروری ہے جو اسے ڈپریشن جیسی انتہائی خطرناک بیماری سے دور رکھ سکیں۔ ان تشویش ناک بیماریوں سے بچنے کے لئیے  اس نفسا نفسی کے عالم میں یہ بہت ضروری ہے کہ انسان کچھ ایسا سنیں یا ایسا کرے جس سے اس کے دماغی خلیوں کو نقصان نا پہنچ سکے اور دماغ سکونت برقرار رہے۔

سکون کو اپنے اندر اتارنے کے لئیے میرے خیال میں قرآن پاک کی تلاوت بہترین عمل ہے۔ کیوں کہ جب انسان قرآن پاک کی تلاوت سنتا ہے تو دماغ کا بوجھ ہلکا ہونے لگتا ہے۔ جب انسان قرآن پاک کی تلاوت سنتا ہے تو قرآن کے لفظوں سے جو آواز پیدا ہوتی ہے اس سے دماغی خلیے دوبارہ سے متوازن ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ چونکہ وہ الفاظ جن کی انسان کو سمجھ نا بھی ہو مگر دماغ مسلسل سنتا رہے تو دماغ میں انہی الفاظ سے مطابقت رکھنے والے سیلز پیدا ہونے لگتے ہیں جس سے دماغ مانوس ہو جاتا ہے اور ان ہی لفظوں سے مطابقت والے نیوروٹرانسمیٹرز پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں اس لئیے انسان جب قرآن پاک کی تلاوت سنتا ہے تو دماغ میں راحت دینے والے سیلز پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

جب انسان پورے غوروفکر کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت سنتا ہے تو نا صرف قرآن پاک کے لفظوں سے پیدا ہونے والی آواز کی لہریں انسانی دماغ پر اثر کرتی ہیں بلکہ دماغ کو پرسکون رہنے کی ترغیب بھی دیتی ہیں جس سے انسان پر نیند طاری ہونے لگتی ہے اور جب انسان سو کر اٹھتا ہے تو یوں محسوس کرتا ہے جیسے زندگی ایک نئے زاویے سے سامنے آئی ہے اس لئیے انسان پھر سے آگے بڑھنے کی کوشش شروع کر دیتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :