گندگی مت پھیلائو

منگل 14 جولائی 2020

Sidra Kamal

سدرہ کمال

ایک دن ہوسٹل جانے کے لئیے یونیورسٹی کی بس میں جیسے ہی بیٹھی تو دیکھا کہ ایک طالبہ نے کچھ کھایا اور کھاتے ہی ریپر بس کی کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ ایک پڑھی لکھی لڑکی کے یوں ریپر پھینکنے پر مجھے شدید غصہ آیا لیکن اس غصے کو مجھے پینا پڑا اور میں بس یہی کہہ پائی کہ ریپر کوڑے دان میں پھینک دیا کریں، اس طرح انسان اچھا نہیں لگتا۔

اسی طرح کچھ دن پہلے کی بات ہے۔ کام کے سلسلے میں ساہیوال جانا پڑا۔ جیسے ہی گھر سے باہر قدم رکھا، ہمیشہ کی طرح جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر نظر آئے۔ لیکن انہیں نظر انداز کرتے ہوئے جی ٹی روڈ کی طرف چل دی۔ جی ٹی روڈ پہ جگہ جگہ پھلوں کی ریڑھیاں لگی ہوئی تھیں اور پھل فروش آوازیں لگا لگا کر بیچنے میں مصروف تھے۔ ایک راہ چلتے مسافر نے رک کر کچھ کیلے خریدے، ان کے چھلکے اتار کر وہیں پھینکے اور خود کھانے میں مصروف ہو گئے۔

(جاری ہے)

میں نے افسوس کی ایک نگاہ ان پر ڈالی ۔ ہمت کی اور آہستہ سے کہا کہ برائے مہربانی یہ چھلکے یہاں سے اٹھا لیں۔ ملک کو مزید آلودہ نا کریں۔ لیکن انہوں نے بغیر شرمندگی محسوس کرتے ہوئے مسکرا کر جواب دیا میرے چھلکے اٹھا لینے سے کون سا ملک صاف ہو جائے گا، جہاں اس قدر کوڑا پڑا ہے وہاں میں بھی پھینک دوں تو کیا حرج ہے۔
مسافر تو جواب دے کہ چل دیا لیکن آس پاس پڑے ہوئے کوڑے کے ڈھیر نے مجھے یہ سوچنے پہ مجبور کیا کہ ہم کس قدر لاپرواہ اور غیر زمہ دارانہ شہری ہونے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

ہم خود تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جہاں جی چاہے کوڑا پھینک دیتے ہیں لیکن جب بات آتی ہے صفائی ستھرائی کی تو حکومت کو لعن طعن کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہماری اسی لاپرواہی کی وجہ سے پاکستان میں گندگی کی سطح دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ گاوں ہو یا شہر، ہر طرف گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی اس گندگی کی وجہ سے بیماریوں میں بھی دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

آلودگی نا صرف زمین کو متاثر کر رہی ہے بلکے فضا اور پانی میں بھی اس کی سطح کافی بڑھ چکی ہے۔
اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان فضائی آلودگی سے متاثر ہونے والا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔  ہوا میں موجود آلودگی کے زرات کی وجہ سے سانس کی بیماریاں دن بدن بڑھ رہی ہیں۔
دوسری طرف ندی، نالے، نہریں، دریا اور سمندر بھی آلودگی کی وجہ سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔

اس سے نا صرف آبی حیات کو شدید خطرات لاحق ہیں بلکہ یہی پانی جب انسان پینے کے لئیے استعمال کرتا ہے تو ایسا زہر ثابت ہوتا ہے جو آہستہ آہستہ انسان کو بیماریوں میں لپیٹ کر موت کی طرف لے جاتا ہے۔
بڑھتی ہوئی اس آلودگی کی وجوہات تلاش کی جائیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر مسئلے کی طرح اس مسئلے کی بڑی وجہ بھی ہم خود ہی ہیں۔ کیوں کہ ہم جگہ جگہ کوڑا پھینک کر خود ہی زمین کو آلود کر رہے ہیں۔

ندی نالوں کو آلودہ کرنے میں ہم ہی پیش پیش ہیں۔ اسی طرح فضا بھی ہماری وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔
آلودگی کے بڑھتے ہوئے اس رجحان کو کنٹرول کرنا بہت ضروری ہے وگرنہ مستقبل قریب میں شدید مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ آلودگی کی بڑھتی ہوئی سطح کو قابو کرنے کے لئیے ہمیں ہی کوشش کرنا ہو گی کیوں کہ ہم ہی وہ لوگ ہیں جو صفائی کے معاملے میں یورپین ممالک کی مثالیں دیتے ہوئے تھکتے نہیں لیکن کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر یہ نہیں سوچا کہ اپنے ملک کو صاف بنانے کے لئیے ہم کیا کر رہے ہیں۔


اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک  ہو تو ہمیں چاہئیے کہ زمہ دار قوم بنیں اور زمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نا صرف خود گندگی پھیلانے سے بعض رہیں بلکہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو بھی اس کے اثرات سے آگاہ کریں۔
اس زمین سے محبت کو ثابت کرنے کے کئیے ہم ہزاروں الفاظ کا سہارا لے اظہار تو کر سکتے ہیں لیکن اس زمین سے محبت کا حق تب تک ادا نہیں ہو گا  جب تک اس کی بہتری اور ترقی کے لئیے ہم دن رات کوشاں نہیں ہوں گے۔
زمیں کیوں ہر طرف بیماریوں کی زد میں لگتی ہے
زمیں مادر ہے اپنی مانگ اس کی مت اجڑنے دو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :