ہارے بھی تو بازی مات نہیں

جمعہ 19 فروری 2021

Sidra Kamal

سدرہ کمال

انسانی زندگی یا تو مقصد کے گرد گھومتی ہے یا پھر بے مقصد ہی گزر جاتی ہے۔ جہاں بے مقصد زندگی زمین کے لئیے بوجھ بن جاتی ہے، وہیں بامقصد حیات کی اہمیت سے انکار قطعا ممکن نہیں۔ جو انسان با مقصد زندگی بسر کرتے ہیں وہ کبھی بھی مرتے نہیں بلکہ ان کا کام، مقصد اور خیالات ہمیشہ کے لئیے وجود پا لیتے ہیں۔ با مقصد زندگی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جو لوگ اپنی عمر حصول مقصد کے لئیے قربان کرتے ہیں، وہ کبھی ضائع نہیں ہوتے۔

دنیا ان کی زندگی میں ان کے کام کو ماننے سے انکار کر بھی دے مگر وقت کی گھڑیاں خود بخود اس طرح سے گھومتی ہیں کہ دنیا کے سامنے ان اشخاص کی تصویریں لے آتی ہیں جو حصول مقصد کے لئیے تگ و دو کرتے رہے۔ ایسی شخصیات ہمیشہ کے لئیے تاریخ کے اوراق میں رقم ہو جاتی ہیں۔

(جاری ہے)


ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ایسی لاتعداد شخصیات ہمارے سامنے آتی ہیں جن کے کام کو ان کی زندگی میں اہمیت نہیں دی گئی مگر ان کی وفات کے بعد نا صرف کام کو سراہا گیا بلکے ان کی کاوشوں کو تسلیم بھی کیا گیا۔

اس میں سب سے معتبر مثال مینڈل کی ہے۔ مینڈل نے اپنی زندگی میں وراثت کے منتقل ہونے والے فیکٹرز پر مشاہدہ کیا۔ ان مشاہدات کی بناء پر تجربات کئیے جن کے نتائج بالکل درست آئے۔ مینڈل نے 1866 میں اپنے کام کو سب کے سامنے پیش کیا مگر مینڈل کے کام کو مسترد کر دیا گیا۔ مینڈل کی وفات کے کافی عرصے بعد ان کے شاگردوں نے دوبارہ سے کام کو پیش کیا، جسے پذیرائی ملی۔

جیسے ہی مینڈل کا کام دنیا میں آیا، سائنسی میدان میں انقلاب برپا ہو گیا۔ نیز وراثتی علم کو سمجھنے اور اس سے مستفید ہونے کے لئیے مینڈل کے کام کو بنیاد قرار دیا گیا۔ یعنی مینڈل کی دن رات کی محنت اور استقلال کی بدولت دنیا اس کے کارناموں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئی۔
آج کے دور میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو زندگی کے راستے کو مقصد کی طرف گامزن کرتے ہیں۔

مقصد کو پانے کے لئیے جان کی بازی لگانے کے لئیے بے تاب رہتے ہیں۔ ایسے ہی بامقصد لوگوں کی فہرست میں محمد علی سدپارہ کا  نام شامل ہے۔
محمد علی سدپارہ کا تعلق سکردو کے گاوں سدپارہ سے ہے۔ گاوں کے نام کی  وجہ سے ان کا نام محمد علی سدپارہ ہے۔ پاکستان میں کوہ پیمائی اور سدپارہ لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سدپارہ کی عورتیں اپنے بچوں کو بچپن میں یہ کہہ کر کھانا کھلاتی ہیں کہ "کھانا نہیں کھاو گے تو کے ٹو سر کیسے کرو گے"۔

یہی وجہ ہے کہ سدپارہ میں کوہ پیما جنم لیتے ہیں۔ محمد علی سدپارہ نے بھی اس علاقے میں جنم لیا اور دنیا کے عظیم ترین کوہ پیماوں میں اپنا نام لکھوایا۔ محمد علی نے دنیا کی بلند ترین چوٹیاں سر کیں۔ کٹھن پہاڑی راستوں کے باوجود ان کے پایہ استقلال میں کبھی کمی واقع نہیں ہوئی بلکے وہ ہر دفعہ پہلے سے زیادہ ہشاش اور پرعزم نظر آتے۔ حالیہ سال یعنی 2021 میں دوسرے کوہ پیماوں کی طرح محمد علی سدپارہ نے کے ٹو کو موسم سرما میں سر کرنے کا پھر سے فیصلہ کیا، تا کہ پاکستان کا جھنڈا چوٹی پر لہرا سکے۔


دنیا بھر کے 19 ممالک میں سے 59 کوہ پیماوں نے کے ٹو سر کرنے کے لئیے پاکستان کا رخ کیا۔ حالانکہ  یخ سرد موسم میں کے ٹو کو سر کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی موت کے کنویں میں چھلانگ لگا دے اور کے ٹو سے بخیرو عافیت واپس آجانا ایسے ہے جیسے شیر کے منہ سے بچ نکلنا۔ ان سب باتوں کے باوجود سرد موسم کے سامنے کوہ پیماوں کے ارداوں میں لغزش نا آئی۔
 نیپالی کوہ پیماوں کی ٹیم نے 16 جنوری 2021 کی صبح کو سردیوں کے موسم میں "کے ٹو" کو سر کر لیا۔

کوہ پیماوں کی ایک اور ٹیم  "کے ٹو" سر کرنے کے لئیے کمر بستہ ہوئی۔ اس ٹیم میں پاکستانی کوہ پیماوں کے ساتھ ساتھ کچھ غیر ملکی کوہ پیما بھی شامل تھے۔ محمد علی سدپارہ کے ہمراہ ان کے بیٹے بھی تھے مگر طبعیت خرابی کی وجہ سے ان کے بیٹے نے واپسی کا سفر اختیار کر لیا۔ محمد علی سدپارہ، سنوری اور جے پی موہر پانچ فروری کی رات "کے ٹو" سر کرنے کے آخری مراحل میں داخل ہو چکے تھے مگر چوٹی سے چند سو میٹر دوری کے فاصلے پر ان کے ٹریکر نے کام کرنا چھوڑ دیا اور یوں محمد علی سدپارہ اور ان کے ساتھی پہاڑ کی رعنائیوں میں لاپتہ ہو گئے۔


لاپتہ کوہ پیماوں کو تلاش کرنے کے لئیے پاکستانی ہیلی کاپٹروں سمیت نیپالیوں نے بھی حصہ لیا مگر لاپتہ کوہ پیماوں کا سراغ نا مل سکا۔
5 فروری کی رات ہر پاکستانی کے لئیے بہت مشکل سے گزری کیوں کہ پوری قوم محمد علی سدپارہ اور ساتھیوں کے لئیے پریشان تھی۔ ہر لحظہ سلامتی کی دعائیں مانگی گئیں مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔  کافی دنوں تک سرچ آپریشن جاری رہا مگر پہاڑوں کی رعنائیوں میں کھوئے کوہ پیماوں کا پتا نا چل سکا۔

ہر آنکھ اشک بار ہوئی، ہر دل نے محمد علی کو خراج تحسین پیش کیا، ہر ہاتھ دعا کے لئیے اٹھا اور یوں تین اور کوہ پیما اپنے مقصد کی خاطر جان کی بازی لگا گئے۔ اپنے مقصد کے حصول کے لئیے جان کی قربانی رائیگاں نہیں گئی بلکے انہوں نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اگر انسان کسی مقصد کو پانے کے لئیے جدوجہد کرتا ہے لیکن منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی حیات جاودانی کی طرف چل پڑتا ہے تب بھی مقصد انسان کو مرنے نہیں دیتا اور انسان کے عزائم کو مات نہیں ہوتی۔


 محمد علی سدپارہ کے عزائم، بہادری اور ہمت پر پوری قوم خراج تحسین پیش کر رہی ہے۔ محمد علی سدپارہ بلاشبہ ہمارے ہیرو ہیں۔ ہمیں ان پر فخر ہے۔ محمد علی ہمارے دلوں میں ہمیشہ مقیم رہیں گے۔
بقول فیض احمد فیض
یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہے لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنے ہارے بھی تو بازی مات نہیں
 ایسے باہمت واقعات سے ہمیں  یہ سبق ملتا ہے کہ اگر انسان کا حوصلہ آسمانوں جتنا ہو تو وہ اپنے مقصد کو پانے کے لئیے پہاڑوں کو بھی تسخیر کر سکتا ہے۔ اس لئیے ہمیں چاہئیے کہ ہم اس مشعل کو اپنے ہاتھ میں ضرور پکڑیں جس سے ہمارے استقلال میں کمی واقع نا ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :