
ہارے بھی تو بازی مات نہیں
جمعہ 19 فروری 2021

سدرہ کمال
(جاری ہے)
ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ایسی لاتعداد شخصیات ہمارے سامنے آتی ہیں جن کے کام کو ان کی زندگی میں اہمیت نہیں دی گئی مگر ان کی وفات کے بعد نا صرف کام کو سراہا گیا بلکے ان کی کاوشوں کو تسلیم بھی کیا گیا۔
آج کے دور میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو زندگی کے راستے کو مقصد کی طرف گامزن کرتے ہیں۔ مقصد کو پانے کے لئیے جان کی بازی لگانے کے لئیے بے تاب رہتے ہیں۔ ایسے ہی بامقصد لوگوں کی فہرست میں محمد علی سدپارہ کا نام شامل ہے۔
محمد علی سدپارہ کا تعلق سکردو کے گاوں سدپارہ سے ہے۔ گاوں کے نام کی وجہ سے ان کا نام محمد علی سدپارہ ہے۔ پاکستان میں کوہ پیمائی اور سدپارہ لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سدپارہ کی عورتیں اپنے بچوں کو بچپن میں یہ کہہ کر کھانا کھلاتی ہیں کہ "کھانا نہیں کھاو گے تو کے ٹو سر کیسے کرو گے"۔ یہی وجہ ہے کہ سدپارہ میں کوہ پیما جنم لیتے ہیں۔ محمد علی سدپارہ نے بھی اس علاقے میں جنم لیا اور دنیا کے عظیم ترین کوہ پیماوں میں اپنا نام لکھوایا۔ محمد علی نے دنیا کی بلند ترین چوٹیاں سر کیں۔ کٹھن پہاڑی راستوں کے باوجود ان کے پایہ استقلال میں کبھی کمی واقع نہیں ہوئی بلکے وہ ہر دفعہ پہلے سے زیادہ ہشاش اور پرعزم نظر آتے۔ حالیہ سال یعنی 2021 میں دوسرے کوہ پیماوں کی طرح محمد علی سدپارہ نے کے ٹو کو موسم سرما میں سر کرنے کا پھر سے فیصلہ کیا، تا کہ پاکستان کا جھنڈا چوٹی پر لہرا سکے۔
دنیا بھر کے 19 ممالک میں سے 59 کوہ پیماوں نے کے ٹو سر کرنے کے لئیے پاکستان کا رخ کیا۔ حالانکہ یخ سرد موسم میں کے ٹو کو سر کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی موت کے کنویں میں چھلانگ لگا دے اور کے ٹو سے بخیرو عافیت واپس آجانا ایسے ہے جیسے شیر کے منہ سے بچ نکلنا۔ ان سب باتوں کے باوجود سرد موسم کے سامنے کوہ پیماوں کے ارداوں میں لغزش نا آئی۔
نیپالی کوہ پیماوں کی ٹیم نے 16 جنوری 2021 کی صبح کو سردیوں کے موسم میں "کے ٹو" کو سر کر لیا۔ کوہ پیماوں کی ایک اور ٹیم "کے ٹو" سر کرنے کے لئیے کمر بستہ ہوئی۔ اس ٹیم میں پاکستانی کوہ پیماوں کے ساتھ ساتھ کچھ غیر ملکی کوہ پیما بھی شامل تھے۔ محمد علی سدپارہ کے ہمراہ ان کے بیٹے بھی تھے مگر طبعیت خرابی کی وجہ سے ان کے بیٹے نے واپسی کا سفر اختیار کر لیا۔ محمد علی سدپارہ، سنوری اور جے پی موہر پانچ فروری کی رات "کے ٹو" سر کرنے کے آخری مراحل میں داخل ہو چکے تھے مگر چوٹی سے چند سو میٹر دوری کے فاصلے پر ان کے ٹریکر نے کام کرنا چھوڑ دیا اور یوں محمد علی سدپارہ اور ان کے ساتھی پہاڑ کی رعنائیوں میں لاپتہ ہو گئے۔
لاپتہ کوہ پیماوں کو تلاش کرنے کے لئیے پاکستانی ہیلی کاپٹروں سمیت نیپالیوں نے بھی حصہ لیا مگر لاپتہ کوہ پیماوں کا سراغ نا مل سکا۔
5 فروری کی رات ہر پاکستانی کے لئیے بہت مشکل سے گزری کیوں کہ پوری قوم محمد علی سدپارہ اور ساتھیوں کے لئیے پریشان تھی۔ ہر لحظہ سلامتی کی دعائیں مانگی گئیں مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کافی دنوں تک سرچ آپریشن جاری رہا مگر پہاڑوں کی رعنائیوں میں کھوئے کوہ پیماوں کا پتا نا چل سکا۔ ہر آنکھ اشک بار ہوئی، ہر دل نے محمد علی کو خراج تحسین پیش کیا، ہر ہاتھ دعا کے لئیے اٹھا اور یوں تین اور کوہ پیما اپنے مقصد کی خاطر جان کی بازی لگا گئے۔ اپنے مقصد کے حصول کے لئیے جان کی قربانی رائیگاں نہیں گئی بلکے انہوں نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اگر انسان کسی مقصد کو پانے کے لئیے جدوجہد کرتا ہے لیکن منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی حیات جاودانی کی طرف چل پڑتا ہے تب بھی مقصد انسان کو مرنے نہیں دیتا اور انسان کے عزائم کو مات نہیں ہوتی۔
محمد علی سدپارہ کے عزائم، بہادری اور ہمت پر پوری قوم خراج تحسین پیش کر رہی ہے۔ محمد علی سدپارہ بلاشبہ ہمارے ہیرو ہیں۔ ہمیں ان پر فخر ہے۔ محمد علی ہمارے دلوں میں ہمیشہ مقیم رہیں گے۔
بقول فیض احمد فیض
گر جیت گئے تو کیا کہنے ہارے بھی تو بازی مات نہیں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سدرہ کمال کے کالمز
-
وہ دیکھو ایک عورت آ رہی ہے
جمعہ 19 مارچ 2021
-
ہارے بھی تو بازی مات نہیں
جمعہ 19 فروری 2021
-
ویلنٹائن ڈے کا متبادل
پیر 15 فروری 2021
-
دماغ کی راحت
منگل 9 فروری 2021
-
بات سنئیے!
منگل 10 نومبر 2020
-
آن لائن تعلیم کے مسائل
پیر 27 جولائی 2020
-
گندگی مت پھیلائو
منگل 14 جولائی 2020
-
آخر کب تک؟
اتوار 21 جون 2020
سدرہ کمال کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.