آخر کب تک؟

اتوار 21 جون 2020

Sidra Kamal

سدرہ کمال

جیسا کہ سب اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ جہالت ہمارے ملک کی بنیادوں کو دن بدن کھوکھلا کر رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں شرح ناخواندگی 50 فیصد ہے جب کہ 25 فیصد لوگ ایسے ہیں جو صرف پڑھنا جانتے ہیں اور انہیں بھی پڑھے لکھے لوگوں میں شامل کیا گیا ہے۔ حالانکہ دوسرے ممالک میں ایسے لوگوں کا شمار ان پڑھ طبقے میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے سکول جانے سے محروم ہیں۔

جو کہ ہمارے لئیے لمحہ فکریہ ہے۔ یہی بچے کل کے معمار ہیں۔لیکن بدقسمتی سے غربت انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے سے روک رہی ہے۔40 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جو لوگ اپنی روٹی ہی بڑی مشکل سے پوری کرتے ہیں وہ تعلیم حاصل کرنے پر کیوں کر توجہ دیں گے۔

(جاری ہے)

گندگی پاکستان کے علاقوں میں دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ ہر طرف کوڑے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔

جس کی وجہ سے بے شمار بیماریاں لاحق ہو رہی ہیں۔ انسانوں میں تقسیم کے عمل نے پاکستان کے ڈھانچےکو اس قدر نقصان پہنچایا ہے کہ وہ ناگفتہ ہے۔ کرپشن میں تقریبا ہر کوئی متوطن ہے۔ اخلاقی طور پر یہ قوم زوال پذیر ہوتی جا رہی ہے۔ سیاست صرف بحث و مباحثے کی نذر ہو گئی ہے۔ اجتماعی طور پر تو ہم کمزور تھے ہی لیکن اب انفرادی لحاظ سے بھی ہم ذہنی غلام بن چکے ہیں۔


 نیز کوئی بھی شعبہ زندگی یا پہلو اٹھا لیں ہر طرف تاریکی ہی تاریکی نظر آئے گی۔ لیکن نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ ان سب حالات کو بہتر بنانے، اپنی اصلاح کرنے اور قوم میں اتحاد قائم کرنے کے لئیے ہم رتی برابر بھی کوشش نہیں کر رہے۔  ہر مسئلے کا زمہ دار حکومت کو ٹھہراتے ہیں اور خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ گھر کے مسائل سے لے کر ملکی سطح تک ہر مسئلے کا زمہ دار حکومت کو ٹھہرانا ہماری اولین ترجیح بن چکی ہے۔

لیکن آخر کب تک ہم کبھی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے اور کبھی دوسروں کو جرم کے کٹہرے میں کھڑا کر کے ان پر الزامات کی بارش برسا کر خود راہ فرار حاصل کرتے رہیں گے؟
کب تک اپنے فرائض اور زمہ داریوں سے بھاگتے رہیں گے؟
کب تک ہم ٹال مٹول سے کام لیتے رہیں گے؟؟
کب تک ہر مسئلے پہ صرف بحث و مباحثہ کر کے تبادلہ خیال کرتے رہیں گے اور کوئی عملی کام سر انجام نہیں دیں گے؟؟
آخر کب تک؟
کتنی عجیب بات ہے کہ جب بھی کسی سے بھی کسی مسئلے پر تبادلہ خیال کریں تو نتیجتا ایسے الفاظ سننے کو ملتے ہیں جیسے سب غلطی پر ہیں اور وہ خود راہ راست پر۔

مثال کے طور پر اگر ایک جگہ ایک ہزار لوگوں کو جمع کیا جائے اور ہر ایک سے انفرادی طور پر وجہ پسماندگی کے بارے پوچھا جائے تو تقریبا ہر انسان خود کو چھوڑ کر بقیہ 999 لوگوں کو قصوروار ٹھہرائے گا۔لیکن یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اگر سبھی اپنے آپ کو صحیح کہتے ہیں تو پھر غلطی کہاں ہے؟؟ اگر سب کے سب ہی راہ راست پر ہیں تو پھر اتنی مشکلات اور پچیدگیاں دن بدن کیوں جنم لیتی جا رہی ہیں؟؟
کمی مجھ میں ہے، تم میں ہے یا ہم میں ہے
اک یہ سوال وجود کو گرہن لگائے بیٹھا ہے
ہر مسئلے کو حکومتی مسئلہ ٹھہرانا ہماری اولین ترجیحات میں سے ایک ترجیح بن چکی ہے حالانکہ بہت سارے مسائل عوام کے پیدا کئیے ہوئے ہیں۔

ان مسائل کا حل بھی عوام کے پاس ہی ہے لیکن افسوس کہ  عوام الناس اس بات کی گہرائی کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ  محلے اور چوک کے کناروں پر کھڑے مرد منہ میں پان لئیے دیواروں پر تھوکتے ہوئے بڑھتی ہوئی گندگی پہ اظہار خیال کر رہے ہوتے ہیں لیکن اپنی بحث میں ذمہ دار حکومت کو ٹھہرا رہے ہوتے ہیں۔
بالکل اسی طرح عورتیں گھروں کی صفائی کے بعد کوڑے کو گلی میں پھینک کر خاکروبوں کو گلی گندی ہونے پر کوس رہی ہوتی ہیں۔


 ایک امیر ترین آدمی اپنے بچوں کو شہر کے سب سے اچھے سکول سے تعلیم دلوا رہا ہوتا ہے لیکن ایسے میں اگر کوئی غریب آدمی آ کر بچے کی فیس کے لئیے سوال کر دے تو حکومت کی تعلیمی پالیسیوں پر لعن طعن شروع کر دی جاتی ہے۔
مزیز برآں ہمارے ہاں یہ ایک رواج بنتا جا رہا ہے کہ اپنی زمہ داریوں سے فرار حاصل کرتے ہوئے دوسروں کو مود الزام ٹھہرا دینا ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔

یہ ایک سنگین جرم ہے جس پر ضرور کام ہونا چاہئیے تا کہ ہر انسان اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہو سکے اور ایک ذمہ دار شہری ہونے کا حق ادا کر سکے۔
یہ بات حقیقت ہے کہ اگر دوسروں پر الزام تراشی کرنے کی بجائے ہر کوئی اپنی اپنی ذمہ داری کو انجام دینا شروع کر دے تو انقلاب برپا ہو سکتا ہے اور ایک مثبت تبدیلی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ کیونکہ تبدیلی فقط بحث و مباحثے یا ہاتھ میں قلم لے کر سوچوں کو قرطاس پر منتقل کرنے سے نہیں آتی بلکہ تبدیلی ان تغیراتی مراحل کا نام ہے جو انسان کو خود طے کرنے ہوتے ہیں۔

ان تغیراتی مراحل کی بدولت انقلاب انسان کے اندر برپا ہو جاتا ہے۔ جب انقلاب انسان کے اپنے اندر پیدا ہو جاتا ہے تو وہ انسان سے ایسے ایسے منفرد کام کروانے کا سبب بنتا ہے کہ جو انسان کے زعم میں بھی نہیں ہوتا۔
لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں قلم سے انقلابی باتیں لکھنے اور منہ سے جذباتی بیانات دینے کو ہی انقلاب سمجھا جانے لگا ہے۔ لیکن واقع ہی اگر آپ قدرتی طور پر انقلابی سوچ کے مالک ہیں۔

آپ میں قوم کی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر  بھرا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود بھی آپ فقط ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر خیالی پکاو بنانے میں مصروف ہیں اور صرف وقت کا ضیاع کر رہے ہیں تو یقین کریں آپ کو اس کا جواب بھی دینا ہو گا کیوں کہ ایسی سوچ بھی میرے خیال میں اللہ تعالی کی طرف سے امانت ہوتی ہے ۔ لیکن اگر لفظوں کا سہارا لے کر ہی انقلاب کی بات کرنی ہے تو سوچنے والا نقطہ یہ ہے کہ آخر کب تک ہم لفظوں کو بیساکھی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے فقط سہارا لیتے رہیں گے اور سوچ کو عملی جامہ نہیں پہنائیں گے؟؟
اس سے پہلے کہ ہم تباہی کے اس  موڑ پر پہنچ جائیں جہاں سے واپسی مشکل ترین ہو جائے، ہمیں وطن کی بقاء کے لئیے اقدامات اٹھانے اور ذمہ دار شہری بننے میں پہل کرنی چاہئیے کیوں کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر مزید مسائل پیدا کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں۔

اپنے اندر شعور کی چنگاڑی جلائیں تا کہ اس کی روشنی سے دوسروں کو بھی فیض یاب کر سکیں۔ بلاشبہ شعور ہی ایسی دولت ہے جس کی بدولت ہم گمراہیوں اور غفلتوں کی وادیوں سے نکل سکتے ہیں۔ لیکن شعور کو بیدار کرنے، انقلاب کو لانے اور مسائل کے سدباب کے لئیے یہ اشد ضروری ہے کہ اپنے اندر مثبت تبدیلیاں پیدا کی جائیں۔ اپنے تئیں کوشش کی جائے اور نا صرف اپنی بلکہ اپنے معاشرے کی اصلاح کی بھی فکر کی جائے۔

متحد ہو کر مسائل کا حل نکالا جائے۔ مسائل کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کیا جائے۔حکومت کو تنقیدی نشانہ بنانے کی بجائے خود کو سنوارنے پر محنت کی جائے۔  پھر اپنی قوم کے ساتھ مل کر امید کے دامن کو تھام کر آگے بڑھا جائے  کہ جہاں منزل انتظار میں ہے۔
ملت کے ساتھ راستہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :