بات سنئیے!

منگل 10 نومبر 2020

Sidra Kamal

سدرہ کمال

سنئیے!
ہم افسردگی کا لبادہ کیوں اوڑھے ہوئے ہیں؟ کیا ہم ان سنگین، تلخ، قیامت خیز اور نفرت آمیز حالات کا زمہ دار کسی اور کو ٹھہرانا چاہ رہے ہیں؟ یا ہم خاموش تماشائی بن کر ہاتھوں پہ ہاتھ دھڑے یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ فرقہ واریت کا بیج ہم نے نہیں بلکہ ہمارے آباو اجداد نے بویا تھا، جو وقت بیتنے کے ساتھ ساتھ توانا ہوتا چلا گیا اور ایک مضبوط شجر کا روپ اختیار کر گیا مگر کیا یہ سچ نہیں کہ اب اس درخت کی آبیاری صرف اور صرف ہم لوگ کر رہے ہیں۔

ہم اس زمہ داری کو زندگی اور موت کا مسئلہ سمجھ کر نبھا رہے ہیں، غم و غصے کو ہوا دینے کے ساتھ ساتھ زمین کو خون خرابے سے ناپاک بنا رہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ سنگین نتائج بھی دیکھ رہے ہیں، کہ کیسے ہماری وجہ سے پرامن تہذیب دومسخ ہو چکی ہے، رویوں میں تمدن کی زرا روش باقی نہیں رہی، ہم زندہ تو ہیں مگر دوسروں کو مارنے کے لئیے، ہم زبان سے زہر اگلتے ہیں اور خواہش شہد کی کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس سب کے باوجود ہماری بددیانتیاں، خیانتیں، بدکاریاں اور نفرتیں بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔  ہر طرف اک شور برپا ہے، جیسے کوئی ہنگامہ رونما ہو گیا ہو، سکوت کو دور کھڑے پریشان دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ہنگامی صورت حال کی وجہ سے سکوت دباو کا شکار گیا ہو۔ اس شور و ہنگامے کی وجہ اس کے علاوہ کیا ہو سکتی ہے کہ ہمارے دماغوں میں نفرت کا مواد نصب کیا گیاجس کے پھٹنے سے کرہ ارض دھویں کی لپیٹ میں آ گئ۔

دھویں کے زہر آلود مادے کی وجہ سے زمین میں مختلف بیماریاں پھیل چکی ہیں ۔ جس نے تقریبا ہر انسان کو متاثر کیا ہے۔ اس بیماری کو فرقہ واریت کا نام دیا گیا، جو دیکھتے ہی دیکھتے اتحاد کو دیمک کی طرح چاٹ گئی۔  اس بیماری کی وجہ سے ہم بحثیت قوم اشتعال انگیز بن کر منتشر ہو گئے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے فرقہ واریت کے خوف سے اتحاد نے روٹھ کر خود کشی کر لی ہو، ممکن ہے کہ اتحاد نے خود کو ختم کرنے سے پہلے چیخ چیخ کر آہ و زاری کی ہو مگر فرقہ واریت کے شور میں ہم نا فریاد سن سکے اور نا ہی  اتحاد کو بچا سکے یوں یہ کہنا غلط نا ہو گا کہ اتحاد کو ختم کرنے میں ہم سب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا سوائے ان چیدہ چیدہ افراد کے جو تب اتحاد کے پاس پہنچے جب وہ آخری سانسیں لے رہا تھا،  یوں نتیجتا ہم نے اتحاد کو کھو دیا اور  آج ٹکڑوں میں بکھرے پڑے ایک دوسرے کو مود الزام ٹھہرا کر حقارت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ وہ مساجد، امام بارگاہیں جنہیں امن کا مرکز ہونا چاہئیے تھا، جہاں سے اتحاد کی کرنوں کو پھوٹنا چاہئیے تھا، آج انہیں مسلمان کو مسلمان کا دشمن بنانے کے لئیے فرقہ واریت کے لئیے بھی استعمال کیا جانے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کو دنیا کے سامنے دہشت گرد مذہب کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا یے کہ کیا اتحاد دوبارہ کبھی جنم لے سکے گا؟ یا ہم زمین پر فرقہ واریت کے نام پر قیامت برپا کرتے رہیں گے؟ کیا انتشار سے بچاو ابھی بھی ممکن ہے یا یہ گھناونا کھیل بتدریج قائم رہے گا؟  یا یہ خطہ جسے حاصل کرنے کے لئیے ہمارے بزرگوں نے ان گنت قربانیاں دی تھیں، خون سے رنگ دیا جائے گا؟
اگر ان سوالات کے جوابات مثبت ہیں، آپ سانس لیتے جیتے جاگتے انسان ہیں تو پھر ہمیں یہ بات تسلیم کر لینی چاہئیے کہ اس سر زمین پر کوئی دوسری طاقت آ کر امن کا پرچار نہیں کرے گی بلکہ یہ صرف ہم ہی ہیں جن میں ابھی بھی اتنی قوت ہے کہ اس زمین کو فسادی بیماریوں سے پاک کر سکیں۔

تا یہ کہ مزید ہلاکتوں سے بچاو ممکن ہو سکے۔ جب میں چوک، ریلیوں اور اجتماعی محفلوں میں کافر کافر کے نعرے سنتی ہوں تو یہ سوچ کر حیران رہ جاتی ہوں کہ ہمیں تو یہ بتایا گیا کہ کفر کی سازشوں اور چالوں نے ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا مگر اب یہ نفرت آمیز آوازیں کیسی؟ ہم نے سنا کہ کافروں نے ہمیں ایک دوسرے کے خلاف کر دیا، اس پہ یقین بھی کر لیا لیکن یہ سوچنے کی کبھی جسارت نا کی کہ کیا ہماری ایمانی طاقت اتنی کمزور تھی کہ دشمن کی چالوں میں پھنس گئے۔

ایک طرف ہم حب رسول صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نعرہ لگاتے ہیں تو دوسری طرف محبت کو ثابت کرنے کے لئیے قتل کر کے اسلام کی توہین کرتے ہیں۔
ایک طرف خود کو پاک سر زمیں کا وفادار ثابت کرنے کے لئیے ہر حربہ آزماتے ہیں تو دوسری جانب ہاتھوں میں غداری کے سرٹیفکیٹ لئیے گھومتے ہیں تا کہ کسی کو بھی تھما سکیں۔ ایک طرف نظریے کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن دوسری طرف نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہم نے خود اپنے ہی ہاتھوں سے نظریاتی اساس کو نظریاتی انتشار میں بدل دیا۔

ہم نے ایسے حالات کی نشونما کی ہے کہ نظریات آنکھوں سے اوجھل ہو کر شدت پسندی کا روپ اختیار کر چکے ہیں۔ اس نے نا صرف پاکستان بلکہ اسلام کی اساس کو بھی داغ دارکر دیا ہے۔ نفرت میں پلے بڑھے لوگوں سے صرف یہ درخواست کرنا چاہوں گی کہ
اگر اس ملک اور اسلام کی سربلندی کے لئیے کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم اس کی ساکھ کو بھی نقصان نا پہنچائے، مذہب کے خیر خواہ نہیں بن سکتے تو اس کے نام پر اپنی زاتی دشمنیوں یا نسلی و لسانی تعصب کو منسوب مت کریں۔

بلاشبہ ہماری ان حرکات کی وجہ سے نا صرف عالم کفر ہم پر ہنس رہا ہے بلکہ ہمارے اپنے ہی لوگ بد ظن ہوتے چلے جا رہے ہیں اور قصوروار صرف ہم لوگ ہیں ۔ ان حالات کے پیش نظر ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر کوشیشیں کرنی ہونگی. چونکہ فرد خود کو بدلنے پہ قادر ہے، اس لئیے خود اپنی زات سے یہ کام شروع کرنا ہو گا ہر مسالک کے لوگوں ساتھ دوستی کا رشتہ قائم کر کے، ہر مسالک کی مساجد میں بغیر کسی بغض کے نمازیں ادا کر کے، تحمل مزاجی اور برداشت کو اپنا کر تا کہ دوسروں کے اختلافات کو صرف اختلافات ہی سمجھا جائے۔ والدین پر بھی ایک بہت بڑی زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کو بریلوی، دیوبندی، یا شعیہ بنانے کی بجائے مسلمان بنائیں تا کہ ایک پرامن معاشرے کی تشکیل ممکن ہو سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :