آن لائن تعلیم کے مسائل

پیر 27 جولائی 2020

Sidra Kamal

سدرہ کمال

گزشتہ سال کے اختتام پہ کرونا وائرس نے چائنہ کے شہر وہان میں جنم لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چائنہ میں جانی اور مالی تباہ کاریوں کے بعد وائرس نے اپنا رخ دنیا کے مختلف ممالک کی طرف کیا اور کچھ ہی عرصے میں دنیا کا نظام درہم برہم کر کے رکھ دیا۔ قیمتی جانوں کے ضیاع اور معشیت میں خسارے نے پوری دنیا کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا۔

کرونا وائرس جیسی اچھوتی بیماری نے دوسرے کئی ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معشیت اور معمولات زندگی کو بھی شدید متاثر کیا۔ اس خطرناک صورتحال سے نبٹنے اور قیمتی جانوں کو بچانے کے لئیے حکومت نے لاک ڈاون کا اعلان کیا اور ساتھ ہی ساتھ تعلیمی اداروں کو بھی بند کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

تعلیمی ادارے جہاں سے ہر وقت پڑھنے پڑھانے کی آوازیں آتی تھیں، تنہائی کا شکار ہو گئے۔


شہر گم صم راستے سنسان گھر خاموش ہیں
کیا بلا اتری ہے کیوں درودیوار خاموش ہیں
جہاں نظام زندگی شدید متاثر ہوا وہاں طلبہ کو بھی دھچکا لگا لیکن چونکہ کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار علم و تعلیم پر ہوتا ہے۔اور ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ اقوام کا کل آج کی تعلیم پر منحصر ہے۔ اس تعلیم کے بل بوتے پر ہی طالب علم مستقبل کے معمار کہلائے۔

اس لئیے معاشرہ نظام تعلیم کی ترقی اور بحالی کے لئیے ہمیشہ کوشاں رہتا ہے۔ کیوں کہ اگر اس کوشش کو یقینی نا بنایا جائے اور تعلیم کی اہمیت کو نظر انداز کر دیا جائے تو قوم زوال کا شکار ہو جاتی ہے۔اس لئیے طلباء کو  تعلیمی خسارے سے بچانے اور قوم کو تعلیمی بحران سے بچانے کے لئیے ضروری تھا کہ کوئی ایسا نظام متعارف کروایا جائے جس سے تعلیم کا حرج نا ہو۔


انٹرنیٹ کے اس جدید دور میں اس مسئلے کے حل کے لئیے آن لائن کلاسز شروع کروانے کی تجاویز سامنے آنا شروع ہوئیں۔ تا کہ طالب علموں کے وقت کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔ وقت کو موثر بنانے کے لئیے وفاقی وزیر شفقت محمود نےیکم جون سے آن لائن کلاسز کے آغاز کا اعلان کیا۔
طلباء  کو آن لائن پڑھانے کے لئیے انٹرنیٹ پہ موجود مختلف ایپلیکیشنز کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسا نظام متعارف کروانے کی کوشش کی گئی جس سے طلباء کم سے کم مشکلات سے دوچار ہوں۔

آن لائن نظام تعلیم کو کامیاب بنانے کے لئیے اساتذہ اور طلباء کو اعتماد میں لیا گیا۔ لیکن اس کے باوجودآن لائن کلاسز کے آغاز کے کچھ ہی عرصہ بعد نوجوانوں کی شکایات کی لمبی فہرست سامنے آنا شروع ہو گئی۔ جس سے یہ واضح ہو گیا کہ آن لائن کلاسز سے طلباء خوش نہیں ہیں بلکے انہیں بہت سارے مسائل سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ بہت سارے طالب علم محدود وسائل کی وجہ سے مشکلات سے دوچار نظر آئے۔

کیوں کہ ان کے پاس موبائل، لیب ٹاپ اور ٹیبلٹ جیسی ایجادات موجود نہیں تھیں۔ ان سب چیزوں کے میسر نا ہونے کی وجہ سے ان کی تعلیم کا نقصان تو ہو ہی رہا تھا۔ اس کے علاوہ اس جدید دور میں محرومی کی وجہ سے طلباء احساس کمتری کا شکار ہوتے ہوئے بھی نظر آئے۔
چونکہ اساتذہ اور طلباء پہلے سے آن لائن نظام سے واقف نہیں تھے۔ اس لئیے آن لائن ایپلیکیشنز استعمال کرنے میں بھی دشواری کا سامنا دیکھنے کو ملا۔

ایسے والدین جو پرائیوٹ نوکریاں کرتے ہیں یا جنہیں تنخواہیں وصول نہیں ہو رہیں، ان کے بچے انٹر نیٹ کے مہنگے ترین پیکجز کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا نظر آئے۔ پاکستان کے دو دراز علاقوں میں 3جی اور 4 جی کی سہولت میسر نا ہونے کی وجہ سے طلباء کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اب بھی بہت سارے علاقوں میں بجلی کی ناقص صورت حال برقرار ہے۔ اس طویل لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بھی آن لائن تعلیم حاصل کرنا مشکل امر بن چکا ہے۔

مزید برآں وہ طالب علم جو اپنی اپنی ریسرچ پہ کام کر رہے تھے یا جن کا کام لیب کے بغیر بالکل ممکن نہیں یا ایسے کورسز جنہیں پریکٹیکل کے بغیر نہیں سمجھا سکتا، انہیں سمجھنے میں طلباء کو کافی دقت کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جن تعلیمی اداروں میں آن لائن امتحانات منعقد کروائے گئے وہاں کچھ طلباء کو انٹرنیٹ کے سگنلز کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا۔

جس کی وجہ سے ان کے امتحان کا وقت گزر گیا اور نتائج پہ برے اثرات مرتب ہوئے۔
ان تمام صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے طلباء نے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاج کئیے۔
ان طلباء کا کہنا تھا کہ آن لائن نظام تعلیم کے اجراء اور آن لائن امتحانات کے موجودہ نظام پر طالب علم مطمئن نہیں۔ اجتماعی طور پر طلباء نے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اپنے اپنے مسائل سے نا صرف آگاہ کیا بلکہ ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بھی چلایا تا کہ ان کے مسئلوں کو سن کر فوری طور پر حل کیا جائے۔

طلباء کا کہنا تھا کہ انہیں مساوی حقوق دئیے جائیں۔ جن طلباء کو مشکلات کا سامنا ہے ان کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ جن طلباء کے پاس آن لائن تعلیم حاصل کرنے کے لئیے کوئی ذریعہ موجود نہیں ان کے لئیے فوری اقدامات کئیے جائیں۔احتجاج میں شامل طلباء کا مزید کہنا تھا کہ جلد از جلد ان کی مشکلات کو دور کیا جائے تا کہ وہ تعلیمی بحران کا شکار نا ہوں۔


لیکن ان سب کے باوجود تاحال کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آئی ۔ البتہ چئیر مین ایچ ای سی ڈاکٹر طارق بنوری نے ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بیان کیا کہ آن لائن نظام تعلیم میں کمیاں ضرور ہیں۔ لیکن ان کو دور کرنے کی کوشش تیزی سے جاری ہے۔  ساتھ ہی ساتھ انہوں نے واضح کیا کہ طلباء کے لئیے "تعلیم بنڈل" کے نام سے ایک پیکج متعارف کروانے جا رہے ہیں جس سے طلباء کو آسانی دینے کے لئیے مفت یا کم پیسوں پہ ڈیٹا پیکج فراہم کیا جائے گا۔

طلباء کے واضح بیانات کو سامنے رکھتے ہوئے عمل درآمد کو یقینی بنانے کو بھی کہا۔
اب ایچ ای سی کو چاہئیے کہ مزید وقت ضائع کئیے بغیر تمام طلباء کو یکساں سہولیات مہیا کرے۔ کیوں کہ کرونا وائرس کے دن بدن بڑھتے ہوئے پھیلاؤ  کی وجہ سے طلباء پہلے ہی شدید نفسیاتی دباو کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس صورت حال میں اگر انہیں یکساں تعلیمی نظام نا دیا گیا اور ان کے لئیے مزید بہتر اقدامات نا کئیے گئے تو مستقبل کے معماروں کا مستقبل داو پر لگ سکتا ہے۔
 طلباء، حکومت اور عوام کے مسائل کے لئیے اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی جلد از جلد اس وباء کو ختم کریں۔ آمین
کچھ بھی نہیں ہے آفت و آزار سے بچا
یارب ہمیں کرونوی یلغار سے بچا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :