
کورونا کی تباہ کاریاں اور ہمارے سفارتخانے
ہفتہ 8 مئی 2021

سید عباس انور
(جاری ہے)
کورونا وائرس کیوں ہوتا ہے کیسے ہوتا ہے، اس کی احتیاطی تدابیر کیا ہیں،اس بارے میں تو دنیا بھر کے ٹی وی چینلز، اخبارات اور سوشل میڈیا پر اتنی بڑی کمپین چل رہی ہے کہ اب تو اس کی آگاہی دینا کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ دنیا بھر میں بسنے والے ہر ذی شعور کو اس کا علم ہو چکا ہے کہ یہ وائرس آخر کیا بلا ہے اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
اس کورونا وائرس کے باعث پوری دنیا میں جو اثرات مرتب ہو رہے ہیں ان کو اپنے قارئین کے سامنے پیش کرنے کی نامکمل کوشش کر رہا ہوں، نامکمل اس لئے کہ شائد بے شمار باتیں یاد نہ آنے کے باعث دائرہ قلم میں نا آ سکیں۔اس قدرتی آفت کے باعث عیاش عربوں کی عیاشی کا سورج آہستہ آہستہ غروب ہوتا نظر آ رہا ہے۔تیل کی کمائی پر پلنے والے یہی عرب کہا کرتے تھے کہ نا تیل ختم ہو گا اور نہ غربت ہمارا مقدر بنے گا۔ آج کے حالات کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر سے سعودی عرب اور UAE میں روزگار کے سلسلے میں آئے ہوئے محنت کش اور مزدور طبقہ کو واپس اپنے اپنے ممالک واپسی کا عندیہ دیا جا چکا ہے۔ ڈیڑھ ماہ سے دنیا بھر کی مساجد میں اور سعودی عرب میں عمرہ، طواف، نماز باجماعت اور کسی بھی مذہبی فریضہ کو سرانجام دینے سے منع کر دیا گیا ہے۔تقریباً 3 ماہ بعد مسلمانوں کا سب سے بڑا مذہبی فریضہ '' حج'' کا بھی آیا چاہتا ہے کہ اس سال حج ہو کہ نا ہو۔ دبئی میں کئی سالوں سے چل رہی 2020ء ایکسپو کمپین کے بعد کینسل کر دی گئی ہے، عالمی اولمپکس کھیلوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اسی کورونا کے باعث برطانیہ میں ملکی و غیرملکی کاروبار تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ جس ترقی و خوشحالی پر دنیا کے کئی ممالک کو بڑا زعم تھا وان کی معیشت آج دیوالیہ پن کا شکار ہو رہی ہیں، پوری دنیا کے اوپر محو پرواز تمام جہازوں کو زمین پر اتروا لیا گیا ہے، تمام براعظموں میں بہتے سمندروں میں بحری سفر کرنیوالے بحری جہازوں کو سمندر کے کناروں پر لنگر انداز کروا دیا گیا جس کے باعث ہوائی اور بحری جہازوں کی بڑی بڑی کمپنیاں اس وقت بالکل ویران اور تنگ دست ہو چکی ہیں، اسی کے باعث ان کمپنیوں میں کام کرنیوالے لاکھوں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں یا ہونیوالے ہیں۔دنیا بھر کی سپر پاور اور ایٹم بم اور ناجانے کیا کیا تیار کر لینے والے ممالک ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ رہے ہیں۔ پوری دنیا کے طالب علموں کا تعلیمی سال ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ خوشی اور غمی کی تمام تقریبات کو مئوخر کر دیا گیا ہے۔
2021 ء چڑھا اور ساری دنیا نئے سال کی مبارک بادیں دیتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔لوگ ہمیشہ رہنے کی پلاننگ کرنے میں مگن تھے، گناہ کو گناہ نہ سمجھتے ہوئے بے بسوں پر ظلم کر کے قہقہے لگانے میں مست سوچتے ہونگے لاالہ ا للہ کہنے والوں کا کوئی نہیں۔برما ، عراق ، افغانستان کشمیرچچنیا،اور فلسطین والے مسلمانوں کا کوئی نہیں۔ پھر اس دنیا میں ظالم کے مظلوموں کا واحد سہارا اور تمام جہانوں کا تنہا مالک ان ظالموں کے ظلم کی وجہ سے دنیا سے ناراض ہو گیا ، الٹا کر کے رکھ دیا میرے اللہ نے ساری دنیا کو۔ میرے اور آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اپنی زندگی میں اس کے جلال اور قہارت کی صرف ایک چھوٹی سی جھلک کورونا کی شکل میں بھی دیکھنے کو ملے گی۔ صرف خوردبین سے بمشکل نظر آنیوالا ایک عجیب وغریب خطرناک وائرس وباء کی صورت میں آئیگا جس کے ڈر سے تصورات دم توڑتے جا رہے ہیں کوئی کسی کی پرواہ نہیں کر رہا، لوگ ایک دوسرے سے خوفزدہ ہیں۔اپنا پرایا کوئی کسی کے قریب آنے کو تیارنہیں۔ پتہ نہیں اس کاانجام کیا ہوگا، کون ہے جو کاغذ کے بنے کرنسی نوٹ کھا کر یا کریڈٹ کارڈ کو چبا کر اپنی بھوک ختم کر سکے گا۔ جب بھوک ہی غالب آ جائے تو کونسا قانون کونسی تہذیب، کونسی معاشرت، کونسی اخلاقیات کام آئیگی۔ رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو چکا، فرزندان توحید کی ایک بڑی تعداد مساجد میں اعتکارف میں بیٹھ چکے، لیکن ان کی وہ تعداد سامنے نہیں آرہی جو اس وباء سے پہلے ہوا کرتی تھی۔ اس مقدس مہینہ میں مغفرت کے آخری ہفتہ میں اللہ کو منانے کیلئے اس جل شانہ ہو کی طرف لوٹ آؤ اور اسے منا لو، کفار نے استغفار نہیں کرنا، وہ بے راہ ہیں، ہندوستان میں تو سینکڑوں ہندوؤں نے اپنے دیوی دیوتاؤں کے بت توڑ دیئے ہیں، ان پتھروں نما خداؤں کو بلڈوزروں کے نیچے کچل کر توڑ دیئے ہیں اور ماشااللہ حلقہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میرا رب ماننے میں بھی دیر نہیں لگاتا اور وہ انتظار کررہا ہے کہ کب میرے امتی میری طرف لوٹ آئیں اور مجھ سے معافی مانگیں،یہ کام ہم مسلمانوں نے ہی کرنا ہے۔اس رحمت بھرے مہینے میں تمام مسلمان روزہ داروں سے میری اپیل ہے کہ اس کل کائنات کے خالق سے گڑگڑا کر پرخلوص دعائیں مانگنے کی اپیل ہے، تاکہ اللہ تعالٰی ہم سب کو معاف کرے اور اپنی رحمتیں پوری دنیا پر نازل کرے۔ آمین
گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے دنیا بھر کے پاکستانی سفراء سے آن لائن خطاب کیا، اپنے خطاب میں انہوں نے دنیا بھر کے مختلف ممالک میں تعینات پاکستان کے چند سفیر وں کے خلاف انہی کے اردگرد بسنے والوں لاکھوں تارکین وطن کی طرف سے بے شمار شکایات پر انہیں متنبہ کیا کہ اپنے آپ کو ٹھیک کر لیں اور اپنے تارکین وطن کو آسانیاں بہم پہنچائیں،ان شکایات کی وجہ سے ان ہی سفارت کاروں کے خلاف بہت سی انکوائریاں چل رہی ہیں۔یاد رہے پاکستان کی معیشت میں اس وقت جو کردار تارکین وطن ادا کر رہے ہیں اس پر پہلی بار کسی وزیراعظم کی جانب سے ایسا مثبت قدم اٹھایا گیا ہے۔ اس سے پہلے سعودی عرب میں تعینات پاکستانی سفیر کے خلاف تارکین وطن کی ان گنت شکایات کے نتیجے میں واپس بلایا جا چکا ہے اور اس کے خلاف تادیبی کارروائی بھی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں تعینات سفراء پاکستانی عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے بھاری تنخواہوں پر عیاشی کرتے ہیں، اور ان ممالک میں اپنے ہی پاکستانی تارکین وطن حضرات کے چھوٹے موٹے کاموں پر ان سے وہی سلوک رکھا جاتا ہے جیسے پاکستان میں موجود کسی بھی دفتر میں ہر جائز و جائز کام نکلوانے کیلئے چھوٹے سٹاف سے لیکر اس ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ تک کی نیلے کٹھے نوٹوں سے مٹھی گرمانی پڑتی ہے، ان لوگوں نے بھی یہاں دوسرے ممالک میں ایسا ہی ماحول بنا رکھا ہے۔جو کام ٹیلی فون پر ہی ہو جانے چاہئیں ان کیلئے ہر پاکستانی ٹھوکریں کھاتا نظر آتا ہے، خاص طور پر یورپین ممالک میں موجود ذہنی طور پر ان گوروں کے غلام ایمبیسی میں آنے والے گورے لوگوں کو تو ایسے ڈیل کرتے ہیں جیسے وہ ان کے مائی باپ ہوں۔ اگر گوروں نے پاکستان کا ویزہ لینا ہو تو وہ ایمبیسی میں چلا جائے تو ان کا ویزہ اسی روز لگا کر دیتے ہیں لیکن اگر کوئی پاکستانی دور دراز سے اپنے یورپین پاسپورٹ پر ویزہ لگوانے جائے تو اس کوسب سے پہلے یہی سوال کیا جاتا ہے کہ '' پہلے یہ ثابت کریں کہ آپ پاکستانی ہیں'' اورجب تک انہیں تین چار روز ایمبیسی کے چکر نا لگوائے جائیں، ان کی تسلی نہیں ہوتی۔ انہیں اس بات کا بالکل احساس نہیں ہوتا کہ 100/150 میل دور سے بار بار ڈرائیو یا کرائے ادا کر کے وہاں پہنچنا ان کیلئے مشکل و ممکن نہیں۔ اس قسم کا اتفاق راقم الحروف کے ساتھ بھی ہو چکا ہے۔ دو سال قبل میرے نادرہ کارڈ کی مدت معیاد ختم ہو گئی اورمجھے ایمرجنسی میں پاکستان جانا تھا، سوچا یہ تھا کہ جب پاکستان جاؤں گا تو وہیں سے ہی اپنے کارڈ کی تجدید کروا لوں گا اسے لئے مجھے ویزہ لینے کیلئے برمنگھم برطانیہ میں موجود پاکستانی کونصلیٹ جانا پڑا، وہاں موجود استقبالیہ سٹاف نے مجھ سے پہلا سوال یہ کیا کہ آپ پہلے یہ ثابت کریں کہ آپ پاکستانی بھی ہیں یا نہیں، میں نے دو ماہ قبل مدت معیاد ختم ہونیوالا نادرہ کارڈ سامنے رکھا، لیکن وہ اس کو ثبوت نہیں مان رہے تھے۔تین روزتک صبح قونصلیٹ کھلنے سے لیکر بند ہونے تک خوار ہوتا رہا، تب جا کر مجھے پاکستان کا ویزہ جاری کیا گیا۔ کوئی ان عقل کے اندھوں کو سمجھائے کہ ان کو پاکستانی حکومت نے یہاں اتنی بھاری تنخواہوں پر تعینات اس لئے نہیں کررکھا کہ آپ وہاں بیٹھ کر اپنے ہی تارکین وطن کی پریشانیوں میں اضافہ کریں، جو کہ انہی کے ٹیکس کے پیسوں سے وہاں قیام کئے ہوئے ہیں۔ انہی دنوں میں نے بھی وزیراعظم پاکستان کے پورٹل ایپ پر اپنی شکایت درج کرائی، جس پر اب جا کر عمل ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔) بہت دیر کی مہرباں آتے آتے( اب ایسے ہی بے شمار طالب علم حصول تعلیم کیلئے یہاں مقیم ہیں، بعض اوقات انہیں اپنی تعلیم اسناد کی تصدیق ، شادی شدہ افراد کو اپنے نکاح نامہ اور نئے پیدا ہونیوالے اپنے بچوں کی رجسٹریشن کیلئے انہیں پاکستانی ایمبیسوں کا رخ کرنا پڑتا ہے لیکن وہاں بیٹھے یہ ناخدا اپنے آپ کو فرعون بنائے ان تارکین وطن طالب علموں اور ہر طبقہ فکر کے افراد کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں کہ خدا کی پناہ۔اور سفید چمڑی سے متاثر یہ پاکستانی عملہ گوروں کے آگے سرتسلیم خم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو چائے پانی بھی پوچھتا ہے اور اس سلوک کو دیکھ کر ایمبیسی و قونصلیٹ میں آئے ہوئے دوسرے پاکستانی صاحل ایسے کڑھتے ہیں اور اپنے آپ پر شک کرتے ہیں کہ ہم اپنے ہی ملک کی ایمبیسی میں گویا اجنبی ٹھہرے۔بقول جناب حسن نثار صاحب کے کہ ملک کے ہر ڈیپارٹمنٹ کوکرپشن سے پاک کرنے کیلئے تیزاب سے دھویا جانا چاہئے ، اس صفائی ستھرائی میں غیرممالک میں موجود چند پاکستانی سفارت خانوں اور قونصلیٹ آفسزکو بھی یاد رکھنے کی اشدضرورت ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید عباس انور کے کالمز
-
خان صاحب !ٹیلی فونک شکایات یا نشستاً، گفتگواً، برخاستاً
منگل 25 جنوری 2022
-
خودمیری اپنی روداد ، ارباب اختیار کی توجہ کیلئے
منگل 4 جنوری 2022
-
پاکستان کے ولی اللہ بابے
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
''پانچوں ہی گھی میں اور سر کڑھائی میں''
ہفتہ 30 اکتوبر 2021
-
کورونا کی تباہ کاریاں۔۔۔آہ پیر پپو شاہ ۔۔۔
جمعہ 22 اکتوبر 2021
-
تاریخ میں پہلی بار صحافیوں کااحتساب اورملکی صورتحال
اتوار 19 ستمبر 2021
-
کلچر کے نام پر پاکستانی ڈراموں کی '' ڈرامہ بازیاں''
پیر 13 ستمبر 2021
-
طالبان کا خوف اور سلطنت عثمانیہ
اتوار 5 ستمبر 2021
سید عباس انور کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.