تاریخ میں پہلی بار صحافیوں کااحتساب اورملکی صورتحال

اتوار 19 ستمبر 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

اگر دیکھا جائے تو موجودہ پاکستان کے دور حکومت کے دوران عمران خان گزشتہ حکومتوں کے سربراہوں سے اس لئے بھی بہتر نظر آ رہے ہیں کہ انہوں اب تک متعدد مرتبہ اپنے ملک کے بڑے بڑے صحافیوں کو اپنے پاس بلایا اور ان سے ملکی صورتحال پر ناصرف بحث کی بلکہ ان صحافیوں کے سخت سے سخت سوالوں کے جواب بڑی خندہ پیشانی سے دیئے۔ موجودہ دور کی عالمی وباء کرونا سمیت عمران خان نے تقریباً ہر مسئلے پر پاکستانی قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے کوشش کی کہ ان کے اقدامات سے پاکستانی قوم اورخاص کر غریب عوام کو آسانی مل سکے۔

گزشتہ ادوار میں سیلاب، زلزلہ اور قدرتی آفات کے دوران یا بعد میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے سربراہ میں اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ صحافیوں کو اس اتنی جرات سے سوالوں کے جواب دے سکے، بلکہ کئی ایک بار دیکھا گیا ہے کہ اس دوران پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے سربراہان آصف زرداری اور نواز شریف نے جب بھی اپنے ہاں چیدہ چیدہ صحافیوں کو مدعو کیا توانہیں انٹرویو سے پہلے ہی ان سے پوچھے جانے والے سوالات کے متعلق بتا دیا جاتا تھا کہ آپ نے کونسے سوال پوچھنے ہیں او رکون سے نہیں۔

(جاری ہے)

اسی لئے بھی مریض اعظم نواز شریف جو پرچی والی سرکار کے طور پر مشہور ہیں۔مریض اعلٰی شہباز شریف عجیب نفسیاتی قسم کی حرکات کرتے ہوئے دکھائی دیتے رہے ہیں۔ سوال گندم اور جواب چنا کے مصدق پر ہر سوال کے جواب دینے میں ماہر ہیں، مشہور اینکر طلعت حسین کے ساتھ نواز شریف کا ٹی وی انٹرویو یوٹیوب پر بے شمار مرتبہ کلک ہو چکاہے۔ اور اس انٹرویو کے وہ حصے بھی ہر پاکستانی نے دیکھے ہیں جو نشر نہیں کئے گئے۔

سوال مسلم لیگ ن کے سربراہ سے کئے جا رہے تھے اور جواب مسلم لیگ ن کے خودساختہ فلاسفر سمجھے جانے والے احسن اقبال کیمرے کے پیچھے سے دے رہے تھے۔ امریکی صدر براک ابامہ کے سامنے ان کی پرچیاں اکٹھی کر کے پسینے چھوٹتے ہوئے پوری قوم نے دیکھے ہیں، اورموصوف اختتام اس بات پر کرتے ہیں کہ جناب صدر۔۔! پاکستان میں بھنا ہوا قیمہ اور دال آپ کا انتظار کر رہے ہیں،اور دوسرے وہ جو اینٹ سے اینٹ بجانے کی باتیں کرنے والے تھے وہ بھی کسی گوشہ نشیں کی طرح پتہ نہیں کہاں اپنی بقیہ زندگی بسر کر رہے ہیں، اور ابھی چند روز قبل انہوں نے عدالت نے استدعا کی ہے کہ انہیں اس بڑھاپے میں جیل میں قید نا کیا جائے، حرام ہے کہ قومی دولت کو اپنے ابا جان کا پیسہ سمجھ کر لوٹنے کے بعد اسی دولت میں سے اپنے پاکستانی غریب ووٹروں کیلئے بھی کچھ امداد دے دیں، اس کا حال پاکستان بھر کے شہری سندھ کی صورتحال دیکھ کر بخوبی لگا سکتے ہیں۔

پی پی پی کے کائرہ صاحب کو بھی یہی اعتراض رہا ہے کہ ساری رقم تو پاکستانی قومی خزانے کی ہے اگر عمران خان غریب عوام میں12000 روپے بانٹتا رہا ہے تو کوئی احسان نہیں کیا، جناب کائرہ صاحب۔۔! آپ کا دور حکومت بھی ساری قوم کو یاد ہے، وہ آپ کا بینظیر انکم سپورٹ کا لگائے گئے لارے سے بھی پردہ اٹھ چکا ہے۔ جس میں پاکستان بھر کی سب بڑی بڑی بیوروکریسی، سیاسی شخصیات اور ان کی فیملز کو ملنے والے وظیفے کا پول کھل چکا ہے، چھوٹے میاں صاحب نے خود زلزلہ زدگان کیلئے لاکھوں برطانوی پاؤنڈزکی امدادی رقم کھانے کے بعد اپنی دوزخ کی آگ بڑھا لی ہے، جس کا حساب انہیں بہت جلد دینا ہو گا،۔

اس ساری تحریر لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ آج کل تو یہ دونوں تینوں لیڈر اپنے اپنے محل نما مکانوں میں مکین فارغ آئسولیٹ ہوئے ہوئے ہیں، ایک تو لندن جیسے کرونا زدہ علاقے میں چھپے بیٹھے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ زیادہ نہیں تو 2/3 ہی صحافی اپنے پاس بلا کر اپنی گفتگو کو جوں کا توں ہی نشر کر کے دکھا دیں ،یا پھر کسی برطانوی ٹی وی شو میں جا کر ان تلخ و تند سوالات کا جواب دے آئیں جو وہ پوچھنے اور سچ جاننے کیلئے بیقرار بیٹھے ہیں، اس کے بعد ہی ان کی خوداعتمادی کا ساری قوم کو پتہ چل جائیگا۔

اور انہی سوالات کے جواب اسحاق ڈار بھی چندہ ماہ قبل دینے گئے تھے جس پر ان کی جو درگت بنی اس کے بارے میں پوری دنیا کو پتہ چل چکا ہے اور ہر کوئی اپنی انگلیاں اپنے دانتوں میں دبائے حیرت زندہ دکھائی دے رہا ہے۔ پوری پاکستانی قوم کی بھی یہی خواہش ہے کہ کوئی نشریاتی ادارہ امریکی صدارتی ڈیبیٹ کی طرز پر ایک ہی سٹیج پر ان تینوں لیڈروں کو عمران خان کے مقابلے میں اکھٹے کھڑا کرے اور اس پروگرام کوملک کے تمام ٹی وی چینلز پر قوم کے سامنے ڈائریکٹ ٹیلی کاسٹ کیا جائے تو ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائیگا۔

اس وبائی بیماری کے باعث پورا ملک پریشان اور بے حال دکھائی دیتا ہے اور یہ اپوزیشن اپنا ہی راگ بے سرے طریقے سے الاپ رہی ہے۔ ابھی پچھلے دنوں جب ن لیگ نوا صحافی سلیم صافی نے اپنے پروگرام میں مولانا فضل الرحمان کو فاتحہ خوانی کرنے کیلئے کہا تو پہلے تو مولانا حیران ہوئے کہ کس کی فاتحہ خوانی ؟ اس کا جواب سلیم صافی نے یہ کہہ کر دیا کہ پی ڈی ایم کی۔

تو مولانابجائے شرم کرنے کے انہوں نے حیرانی اور پریشانی میں اس کا جواب بھی گول کر گئے اور جواباً کہا پی ڈی ایم اپنی پوری آب و تاب سے قائم ہے، اللہ کی شان ہے۔ اب ان اپوزیشن والوں کو اور تو کچھ نہیں ملا لیکن پچھلے ہی دنوں پورے ملک کی صحافی برادری پر بھی ایک قانون لاگو کرنے کی تیاری کے بارے میں پتہ چلا کہ اب کوئی صحافی جھوٹی خبر دینے پر جواب دہ ہو گا۔

اس پر پاکستان کے ایسے صحافی جو جھوٹی خبروں کی ہی ''کھٹی'' کھا رہے ہیں پر بجلی بن کر گری اور اس قانون کو رکوانے کیلئے انہوں نے احتجاجی دھرنے کا پروگرام بنایا تو اب پوری اپوزیشن بھی جھوٹے صحافیوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی کیونکہ آجکل پی ڈی ایم بھی ختم ہو چکی اور انہیں سمجھ نہیں آ رہا کہ حکومت پر کس طرح اپنا دباؤ برقرار رکھتے ہوئے میں ناما نو والی گردان کس طرح جاری رکھی جائے ، اور وہ ہر اس بات پر موجودہ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہے جو حکومتی بنچوں کی طرف سے جدید دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے اور ملکی ترقی کا باعث بنتی ہے۔

کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن میں بھی پی ٹی آئی نے نمایاں کامیابی حاصل کی، لیکن مسلم لیگ ن نے بھی پنجاب کی سطح تک اچھی ٹکر دی لیکن آنے والے وقت میں آزاد امیدوار بھی اگر پی ٹی آئی کے ساتھ حسب سابق جا ملے تو پھر مسلم لیگ ن والے گزرنے سانپ کے نشان کو پیٹتے رہ جائیں گے۔
تھوڑا عرصہ قبل وزیراعظم عمران خان کی احساس پروگرام کے تحت ایک تقریب وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوئی ، اس تقریب میں پاکستان کے نامور ٹی وی اینکرز نے بھی شرکت کی۔

اسی تقریب میں حسب سابق حامد میر اور محمد مالک نے بھی بھی شرکت کی اور حسب سابق انہی دو صحافیوں نے تقریب کے بعد اپنی شیطانیت دکھائی۔ اس تقریب کے آخر میں مولانا طارق جمیل نے اختتامی دعا کے دوران اپنے اللہ سے گڑگڑا کر جو دعا مانگی مجھے یقین ہے کہ جس محب وطن نے بھی وہ دعا ٹی وی پر دیکھی اور سنی ہو گی اس کی آنکھیں اپنے اللہ کے حضور ضرور نم ہوئی ہونگی، لیکن اس میں بھی انہی دو صحافیوں نے اپنا ایسا شرارتی تڑکا لگایا کہ پوری قوم میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ۔

ان دو صحافیوں کی اس آواز میں شامل باجوں کا کردار 2/4 دوسرے صحافیوں نے بھی ادا کیا لیکن حامد میر اور محمد مالک کو تو پورے ملک کے خاص طور پر نوجوانوں نے آڑے ہاتھوں لیا اور تند و تیز فقروں کے تیر ابھی تک موقع بہ موقع ان پر برسائے جا رہے ہیں جس کا نتیجہ چند ہفتوں پہلے یہ نکلا کہ حامد میر ناجانے کہاں گوشہ نشین ہو چکے ہیں،لیکن ان پر اس کے ردعمل کے طور پر کوئی اثر نہیں ہوا۔

مجھے سمجھ نہیں آتا کہ جماعت اسلامی کے کسی بھی لیڈر کو کوئی ان کا مخالف کچھ کہہ دے تو وہ سڑکوں پرآ جاتے ہیں اور اس پر احتجاج کیا جاتا ہے،1996ء کے نواز شریف دورحکومت میں روزنامہ جنگ لاہور اور مسلم لیگ ن کی لڑائی کس کو یاد نہیں؟ جس کے نتیجے میں ایک رات مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے روزنامہ جنگ لاہور کے آفس پر حملہ کر دیا اور کئی کارکنوں کو زخمی کرنے کے علاوہ آدھی رات میں دوسرے روز کے اشاعت شدہ تیار اخبار کو آگ لگا دی تھی،اوراسی طرح کا واقعہ جو کرونا وائرس پھیلنے کے شروع ایام میں ہوا، جب پورے پاکستان کے ایک منفرد انداز تقریر رکھنے والے مولانا ناصر مدنی پر تشدد کے طور پر بھی ہو چکا ہے جس میں مولانا ناصر مدنی نے پھونکوں والی سرکار کو کرونا کے علاج کیلئے پھونکیں مارنے کی صلاح دی تھی جس کے جواب میں پھونکوں والی سرکار کے مریدوں نے مولانا ناصر مدنی کا وہ حال کیا کہ آنے والے وقتوں میں مولانا ناصر مدنی دوبارہ کبھی ان کا نام نہیں لیں گے بلکہ کسی بھی کسی دوسرے فرقے کے متعلق اپنے مزاحیہ خطاب سے اجتناب کریں گے۔

تحریک لبیک یا رسول اللہ کے امیر خادم حسین رضوی کے خلاف کبھی کوئی ایسی بات منظر عام پر آ جائے تو اول تو وہ خود ایسی کسی بھی صورتحال پر ایسے صحافی کی اپنے طور پرتسلی کر دیتے ہیں ، کہ وہ صحافی دوبارہ کبھی ان کے خلاف کوئی غلط بات نہیں کر پاتا ورنہ ان کی جماعت ہی ایسا احتجاج کرتی ہے کہ وہی صحافی خود اپنے گناہوں کی معافی کا طلبگار ہو جاتا ہے جس کا مظاہرہ گزشتہ عرصے میں دیکھا جا چکا ہے جب پورا شہر نہیں پورے ملک کا پہیہ ہی جام کر دیا گیا تھا لیکن یہ رائے ونڈ والے تبلیغی جماعت یا مولانا طارق جمیل کی جماعت کے کارکن پتہ نہیں کہاں ہیں جو ان دو جھوٹے صحافیوں کے خلاف نا ہی کوئی ٹائر جلایا ، نا کوئی ٹریفک بلاک کی اور نا کوئی احتجاج ریکارڈ کرایا۔

اس معاملے میں بھی وزیراعظم عمران خان کو بھی چاہئے پہلے کی طرح اس آرڈیننس پربھی ڈٹے رہیں اور جھوٹے اور لفافہ صحافیوں کے قلع قمع کیلئے ایسا قانون ضرور لاگوکیا جائے جس سے کم از کم پاکستانی عوام کو جھوٹی خبروں سے نجات حاصل ہو، اور سرکاری و غیرسرکاری محکموں میں کام کرنے والے بے قصور افراد بھی صحافتی بلیک میلنگ سے بچ سکیں۔
حکومت نے دو روز قبل پٹرولیم کی قیمتوں میں ایک پھر سے اضافہ کیا ہے جس پر پورے پاکستان کی عوام کی چیخیں ٹی وی و اخبارات میں سنی اور دیکھی جا سکتی ہیں۔

اس سے قبل ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی گراوٹ دیکھنے میں آ رہی ہے اور مسلسل گرتی ہی چلی جا رہی ہے۔ پاکستانی غریب عوام سخت احتجاج کرتے ہوئے کہتی سنی جا رہی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت ایک روپیہ پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے بعد 10روپے اضافہ کر دیتی ہے جس کے اثرات دوسری روزمرہ کی تقریباً تمام اشیاء پر پڑتے ہیں اور اسی چکر میں مارکیٹ میں پڑی تمام چیزوں کو آگ لگ جاتی ہے۔

،اور دوسری جانب وزیراطلاعات و نشریات فواد چودھری اور اسد عمر عوام کو تسلی دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ '' ہمسائیہ ملک بھارت میں پٹرولیم کی قیمتیں پاکستان کے مقابلے میں ابھی تک زیادہ ہیں'' ۔۔ او بھائی جی آپ بھی اسی ملک میں رہتے ہیں، اور غریب عوام بھی پاکستانی ہیں،آپ اپنے ملک اور اپنی کرنسی کی بات کریں، اپنی کرنسی کی قیمت کا مقابلہ آپ دوسرے ممالک کی قیمتوں سے کیسے کر سکتے ہیں؟ اب آپ کیا چاہتے ہیں کہ اگر بھارت میں پٹرولیم مصنوعات سستی ہونگی تو کیا پاکستانی اپنی گاڑی میں پٹرول ڈلوانے بھارت جائیں گے ؟ایسی تمام چیزوں کاموازنہ کبھی بھی آپ کسی دوسرے ملک سے نہیں کر سکتے ، کیونکہ پاکستانی روپیہ کی قدراس تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے کہ لگتا ہے کہ اگلے آنے والے چندماہ بعد پاکستانی روپیہ بھی پوری دنیا سے کم ترین غیرملکی کرنسیوں کی فہرست میں سب سے نیچے آ جائے گا اور آپ اپنے غیرملکی قرضوں کو اتارتے اتارتے بھی اتار نہیں پائیں گے اور قرض ہندو بنیئے کی ہٹی پر پڑے رجسٹر میں ویسے کا ویسا ہی رہے گا، ہاں اگر سوشل میڈیا اور یو ٹیوب نہ ہوتے تو آپ کی ایسی چکنی چپڑی باتوں سے پاکستان کی عوام شائد بہل بھی جاتی، کیونکہ پاکستانی عوام بہت جلد پرانی تمام باتیں بھول جاتی ہے لیکن اب سوشل میڈیا کے دور میں یو ٹیوب پر اب تک پرانے کلپ محفوظ ہیں جب پی ٹی آئی کی قیادت اور دوسرے اہم کرتادھرتا سیاست دان انہی باتوں پر اس وقت کی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے اور تمام سب سڈی کی مد میں قلابے ملاتے ہوئے نواز شریف اور پی پی پی کی قیادت پر ایسے برستے تھے گویا ثواب کا کام ہو۔

اب اس بے جا مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دوبھر نہیں بلکہ عذاب بنا دیا ہے ایسا نا ہو آنے والے بلدیاتی الیکشن اور اس کے بعد ملکی عام انتخابات میں عوام ایک بار پھر سے پرانی باری لینے والی حکومتوں کے حق میں فیصلہ دے دیں۔ اور ان جماعتوں کے محبوب نعرے'' شیر ایک واری فیر'' اور '' زندہ ہے بھٹو زندہ ہے''حقیقت میں ہی زندہ ہو جائے اور پورے پاکستان کا حال لاڑکانہ، سکھر، تھراور روہی صحرا جیسا ہو جائے جہاں کتے کے کاٹنے کی دوائی بھی غریب عوام سے دور ہے۔ یاد رکھیں اور ہوش کے ناخن لیں، اگر اسی طرح کی روش کو بدلا نہ گیا تو اگلے عام انتخابات میں الیکٹورئیل مشینیں اور دنیا بھر میں آباد غیرملکی تارکین وطن بھی پی ٹی آئی کی حکومت کو بچا یا منتخب نہیں کر پائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :