''پانچوں ہی گھی میں اور سر کڑھائی میں''

ہفتہ 30 اکتوبر 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

یو اے ای میں گزشتہ ہفتہ ٹی 20/20 ورلڈ کپ شروع ہونے سے ایک مرتبہ پھر پاکستان بھر میں کرکٹ کا بخار شروع ہو گیا۔پہلے کی طرح پورے ملک میں ٹرک ہوٹلوں، تعلیمی اداروں ، ہسپتال ،چھوٹے موٹے ریسٹورنٹس، اورپوش گھروں میں سجائی جانیوالی نجی محفلوں میں بھی جگہ جگہ بڑی سکرینیں لگا کر پوری قوم اس کھیل کا مزہ لے رہی ہے۔سب سے بڑھ کر پاکستان نے اپنے پہلے میچ میں انڈیا کو 10 وکٹوں سے اور دوسرے میچ میں نیوزی لینڈ کو شاندار مقابلے کے بعد شکست دی جس کی وجہ سے پوری قوم میں جوش و جذبے کا بڑھنا ایک قوی امر ہے۔

انڈیا سے مقابلے سے پہلے بھارتی میڈیا نے سارا سارا دن ٹی وی اور سوشل میڈیا پر آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا کہ انڈیا سے آج تک پاکستان ورلڈ کپ میچوں میں ہمیشہ شکست کھا جاتا ہے اور اس مرتبہ بھی ان کے حصہ میں شرمساری اور پشیمانی ہی آئیگی گی لیکن ہمارے ایگلز نے بھارتی سوماؤں اور نیوزی لینڈی کیویزکو دھول چٹا کر اپنی کامیابی قوم کے نام کر دی جس کے باعث انڈین میڈیا کو تو جیسے سانپ سونگ گیا ہو، کیونکہ ان کا غرور خاک میں مل گیا۔

(جاری ہے)

اب آنے والے چند روز بعد پاکستان کا مقابلہ افغانستان کی ٹیم کے ساتھ ہو گا۔ اپنے دوسرے میچ میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کی ٹیم کو بھی شکست دی جو کچھ ہفتے قبل ہی پاکستان میں آ کر اور بغیر کرکٹ سیریز کھیلے ہی انڈین دہشت گردوں کی جھوٹی ٹیلی فون کالوں کے ایماء پر اپنا دورہ کینسل کرکے واپس جا چکی ہے جس سے دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہوئی اور اسی کو دیکھتے ہوئے اس سیریز سے چند روز بعد شروع ہونے والی انگلش ٹیم کے دورہ کو بھی کینسل کر دیا گیا جو پاکستان میچ کھیلنے آئی ہی نہیں۔

انگلش کرکٹ بورڈ کا یہ فیصلہ بھی دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بنا۔ اسی نیوزی لینڈ کو ہرا کر پاکستان نے اپنی اس سبکی کا بدلہ تو لے لیا اور ٹورنا منٹ کے پوزیشن بورڈ پر اپنی برتری کو قائم رکھتے ہوئے اپنے گروپ میں پہلے نمبر پر آ چکی ہے۔ ماہرین کرکٹ اب اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ اگر اسی خوداعتمادی سے پاکستانی ٹیم اپنے دوسرے میچ بھی کھیلتی رہی تو ورلڈ کپ کا چیمپئن بننے سے پاکستان کو کوئی نہیں روک سکتا۔

انشااللہ
پاکستانی روپیہ کی قیمت نیچے سے نیچے جانے پر پوری قوم میں ایک مرتبہ پھر سے بے یقینی کی سی کیفیت نے اپنا گھر کر لیا ہے۔ کرنسی ایکسچینج کی دوکانوں پر بیرون ملک سے آئے اوورسیز پاکستانی جب اپنی رقوم کا تبادلہ کراتے ہیں تو چندلمحوں کیلئے تو بڑی خوشی خوشی سینکڑوں ریال، درہم ، پونڈ اور ڈالر دے کر ہزاروں لاکھوں پاکستانی کرنسی جیبوں میں ڈال کر جاتے ہیں، لیکن ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ باہر جب وہ اسی روپیہ کو خرچ کرنے جائیں گے تو یہی سینکڑوں ڈالر، پونڈ اور ریال کے عوض تبدیل شدہ کرنسی کی قیمت بھی اسی لحاظ سے اپنی ضروریات زندگی کی اشیاء کو خریدنے میں صرف ہو جائیگی،کیونکہ پورے پاکستان میں سینکڑوں میں خریدی جانیوالی کچھ چیزیں اب ہزاروں اور ہزاروں والی چیز لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔

کرنسی ایکسچینج والوں سے جب اس بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے پاکستانی روپیہ نیچے سے نیچے کو جاتا جا رہا ہے تو ایک ماہر نے بتایا کہ جب سے افغانستان میں اس خطے پرامن حالات ہونے پر میدان عمل میں آیا ہے تو پاکستان سے بھی لاکھوں ڈالر اور دوسری بیرونی کرنسیاں ہنڈی کے ذریعے افغانستان منتقل ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے یہاں دنیا بھر کی کرنسیوں کی کمی واقع ہو چکی ہیں اور روپیہ کی قدر میں گراوٹ دیکھنے میں آ رہی ہے۔

پاکستانی قوم کو پتہ نہیں یاد ہے کہ نہیں لیکن پچھلے اوار میں بھی ہر حکومت وقت کو کوئی نا کوئی ایک وجہ سے اپنی حکومتوں سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔نواز شریف اور پی پی پی کی حکومتوں میں ان کی عروج پر پہنچی کرپشن نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا، اور وہ اپنی اپنی باری کے چکر میں ملکی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے بلکہ دو ہاتھوں کو چار سمجھ کر لوٹتے رہے۔

جنرل مشرف دور حکومت کو بھی اسلام آباد کی لال مسجد اور عدلیہ کے چیف جسٹس کے ساتھ پنگا لینا مہنگا پڑ گیا، اور ان کو عوامی احتجاج کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیکنے پڑ گئے۔ مشرف کے دور حکومت کے بعدایک بار پھر پیپلز پارٹی اور پھر نواز شریف نے اپنا چوتھا سیزن شروع کیا اور اس مرتبہ انہوں نے بھی اپنا پرانا وطیرہ جاری رکھا اور '' پانچوں انگلیاں گھی کے علاوہ سر کڑھائی میں'' کی مثل پر عمل کرتے ہوئے ناصرف خود ہی کڑھائیوں میں چھلانگ لگائی بلکہ اپنے حواریوں کو بھی اس کڑھائی نما تالاب میں کھل کھانے کی چھوٹ دیدی۔

جس کے نتیجے میں 2018ء کے الیکشن میں پاکستانی باشعور عوام نے تحریک انصاف کو موقع دیا اور انہیں مسند اقتدار سونپا گیا، اب یہ تو سب جانتے ہیں کہ تحریک انصاف نے اقتدار میں آتے ہی اپنا فوکس سب سے زیادہ کرپشن کے خاتمہ پر مرکوز کر تو دیا لیکن انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ پورے پاکستان کے تمام اداروں میں کرپشن ایک دیمک کی طرح پھیل چکی ہے۔ ملک بھر کے قومی اور صوبائی اداروں کی بیورو کریسی انہی پرانے کرپشن کے ناسور سے اٹا اٹ بھرے نظام کے زیر اثر بھرتی بھی ہوئے اور ترقی کرتے کرتے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ان کو بھی '' ساون کے اندھوں'' کی طرح سب ہرا بھرا ہی نظر آتا ہے۔

تحریک انصاف کی صرف ایک کرپشن کی جانب توجہ مرکوزکرنے سے دوسرے تمام اصلاح طلب مسئلوں کو حل نا کرنے سے موجودہ قومی اور صوبائی حکومتیں بہت زیادہ تذبذب کی شکار نظر آتی ہے۔اور اب تحریک انصاف کے پاس صرف ڈیڑھ دو سال کا عرصہ بھی باقی رہ گیا ہے، جو کہ پلک جھپکتے ہی گزر جائیگا اور اس کے بعد پھر وہی اندھیری رات دکھائی دے رہی ہے کیونکہ صرف ایک مہنگائی نے ہی پوری قوم کا جینا دوبھر کر دیا ہے، خود تحریک انصاف کے ووٹر حضرات بھی اسی مہنگائی کے ہاتھوں اس قدر پریشان ہیں کہ اب وہ عمران خان کا نام لیتے ہوئے بھی اپنے کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں۔

ضروریات زندگی کی ''ہر چیز'' ایک مرتبہ دوبارہ لکھوں گا کہ ''ہر چیز'' کسی بھی مڈل کلاس تو کیا اپر مڈل کلاس فیملی کی پہنچ سے نکل چکی ہے۔ اسی وجہ سے پورے پاکستان میں قومی اور صوبائی سطح پر قائم قانون نافذ کرنیوالے ادارے بے یارو مدد گار نظر آتے ہیں۔اب تو دبے لفظوں میں موجودہ حکومت کے ممبران اسمبلی نے بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ وہ اگلے الیکشن میں کس طرح اپنے حلقوں میں عوامی سوالات اور ان کی آنکھوں میں اس مہنگائی سے پسے افراد کے سوالوں کے جواب دیں گے اور کس طرح وہ ان سے اگلے الیکشن کیلئے ووٹ مانگیں گے۔

بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ چند ماہ بعد ہی نئے الیکشن کیلئے شروع ہونیوالی تیاریوں کے نتیجے میں منتخب شدہ اراکین اسمبلی اپنی اپنی پارٹی تبدیل کرتے ہوئے دوسری پارٹیوں میں شامل ہونے کے اعلانات کا سلسلہ شروع کر دیں گے، اور اسی ایک اسمبلی ٹکٹ کے چکر میں اپنی نئی جوائن کی جانیوالی پارٹی کی تعریف اور پچھلی پارٹی کی برائیوں سے عوام کا دل بہلائیں گے،اور ہماری بھولی بھالی عوام ایک مرتبہ پھر سے اسی چنگل میں پھنس کر اسی ڈگر پر چل نکلے گی جہاں سے موجودہ ڈگر پر لانے کیلئے اور انہیں کرپشن شدہ معاشرے کی سمجھ دینے کیلئے ناجانے کتنے پاپڑ بیلنے پڑے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بیرون ملک مقیم تارکین وطن میں عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف آہستہ آہستہ اوپر کی طرف جا رہا ہے لیکن ابھی تک تارکین وطن کو ووٹ کا حق دینے اور الیکٹوریل ووٹنگ مشین پر آئندہ الیکشن کرانے کا حتمی قانون فائلوں کے نیچے دبا پڑا ہے، کچھ عرصہ گزر جانے اور یاد آنے پر اس فائل کو باہر نکالا جاتا ہے اور مٹی اور گرد کو جھاڑ کر چند اخباری بیان دیئے جاتے ہیں اور دوبارہ اس فائل کو انہی فائلوں میں سب سے نیچے دبا دیا جاتا ہے۔

پچھلے چند ماہ قبل ملک بھر میں بلدیاتی الیکشن کی خبروں میں تھوڑی بہت ہلچل دیکھنے اور سننے کو ملی لیکن ان الیکشن کی حتمی تاریخ اور ان کے انعقاد کے متعلق ابھی تک قومی اور صوبائی حکومتیں بے بس نظر آ رہی ہیں۔ کیونکہ ان بلدیاتی الیکشن کے نتائج سے موجودہ حکومتی پارٹی کو عوام میں اپنی مقبولیت کا اندازہ ہو جائیگا۔ جو کہ تحریک انصاف کو سمجھنا ہو گا کہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔

بلوچستان میں موجود صوبائی حکومت اپنے آپ پر عوامی اعتماد گنوا چکی ہے اور آج ہی وہاں ایک نئے وزیراعلٰی اپنی نئی حکومت کا حلف اٹھانے جا رہے ہیں۔ لیکن پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں وزیراعلٰی عثمان بزدار میں وہ چنگاری جو صرف عمران خان کو نظر آتی رہی ہے اور ابھی تک آ رہی ہے، بجھتے بجھتے اب مکمل طور پر بھج چکی ہے، کیونکہ اس سب سے بڑے صوبے میں عثمان بزدار مہنگائی پر قابو پانے میں آج کے دن تک مکمل ناکام ہو چکے ہیں۔ اور بیان در بیان دے کرامن کی بانسری بجاتے ہوئے یہی شور مچا رہے ہیں کہ سب اچھا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :