کلچر کے نام پر پاکستانی ڈراموں کی '' ڈرامہ بازیاں''

پیر 13 ستمبر 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

اپنے سکول کے زمانے میں اردو اور معاشرتی علوم کی کتابوں میں قائداعظم محمد علی جناح ، علامہ اقبال اور سرسید احمد خان کی سوانح عمری پر لکھے گئے مضامین میں اکثر یہ لائن پڑھنے کو ملتی کہ '' آپ کی تقاریر اور تصانیف نے مسلمانوں کو نئے ملک پاکستان کیلئے جھنجھوڑا، آپ کے انقلابی اشعار نے سوئی ہوئی قوم کو بیدار کیا، اور اقوال سرسید احمد خان نے بے راہ قوم کو سیدھے راستے پر ڈالا '' وغیرہ وغیرہ۔

پاکستان کی موجودہ سیاسی معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے مجھے خود کو یہ خیال آیا کہ آج کل بھی تو قائداعظم جیسی پرجوش تقاریر سننے کو تو ملتی ہیں، گو کہ ان کی تقاریر انگلش میں ہوا کرتی تھیں لیکن ان کی انگریزی میں کی جانے والی تمام تقاریر کو سننے والا ان پڑھ طبقہ بھی یہی کہتا کہ یہ بندہ جو کچھ بھی کہہ رہا ہے بالکل درست کہہ رہا ہے۔

(جاری ہے)

علامہ اقبال جیسے انقلابی اشعارتو نہیں لیکن ان کے اشعار پر عمل پیرا بے شمار شعراء کرام اپنے تئیں ضرور کوشش کر رہے ہیں کہ قوم ان اشعار کے زیر اثر رہتے ہوئے بیدار ہوجائے ، اور اقوال سرسید احمد خان بھی ہمارے قومی ورثے کے طور پر ہر جگہ محفوظ ہیں، جن کی روشنی میں ہماری بھٹکی ہوئی قوم پھر سے سیدھے رستے پر رواں دواں ہو سکتی ہے۔

جب اسی بات پر مزید غور کیا تو سوچا آج کل ہم لوگ اس قدر مصروف ہو گئے ہیں کہ پڑھنے لکھنے کا شوق بالکل ہی ناپید ہو گیا ہے، اب اگر ایسی تحریریں اور اشعار پڑھیں گے نہیں تو ہماری قوم اپنی نیند خرگوشاں سے کیسے بیدار ہو گی؟ پہلے وقتوں میں تقریباً ہر گھر میں روزانہ صبح اخبار آیا کرتا اوراس کو سب سے پہلے گھر کے سربراہ اور بعد میں گھر کا ہر فرد اس اخبارکو اپنی اپنی دلچسپی کی خبر کے مطابق پڑھا کرتے اس کے بعد چھوٹی عمر کے بچے اس میں اپنی مطلب کی بچوں کی کہانیاں، کارٹون اور کچھ نہیں تو فلموں کے بڑے بڑے اشتہار دیکھ کر دل بہلا لیا کرتے ، جس میں اس زمانے کے مشہور فلمی ایکٹر اور ایکٹریس کی تصاویر دیکھ کراور اپنے پسندیدہ آرٹسٹ کی فلم سلیکٹ کر نے کے بعد اگلے آنے والے دنوں میں سنیما میں اس فلم کو دیکھنے کا پروگرام بھی بنا لیا کرتے۔

26 نومبر 1964ء کا دن پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جب پاکستان ٹیلی ویژن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ پہلے پہل پی ٹی وی کی نشریات 6/7 گھنٹے کیلئے روزانہ کی بنیاد پر شروع کی گئیں۔ یہ نشریات شام 5 بجے ٹی وی تلاوت کلام پاک سے شروع ہوتیں اور رات 11/12 بجے قومی پرچم اور قومی ترانے پر اس دن کی نشریات اختتام پذیر ہوتیں۔ کہیں کہیں ٹی وی سیٹ محلے میں وہیں ہوتا تھا جس کے گھر کی چھت پر چمکتا اینٹینا لگا ہوتا، پورے محلے کے دائیں بائیں ہمسایئے رات کو کچھ دیر اپنے اپنے پسندیدہ موسیقی کے پروگرام یا ڈراموں کے علاوہ ہر گھنٹے کے بعد خبروں سے اپنا دل بہلاتے اور اس طرح وہ ملکی صورتحال سے آگاہ بھی رہتے۔

ان پروگراموں میں ویک اینڈ پر پاکستان کی فیچر فلم بھی نشر کی جاتی تھی،اسے بھی لوگ بڑے انہماک سے دیکھا کرتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انہی دنوں پاکستان ٹیلی ویژن لاہور سنٹر نے امجد اسلام امجد کا ایک قسط وار ڈرامہ '' وارث'' بھی پیش کیا، اس کی مقبولیت کے ریکارڈ آج تک کوئی بھی ڈرامہ نہیں توڑ سکا۔ جس روز ڈرامہ وارث کی آخری قسط نشر کی گئی اس سے اگلے روز اخبارات نے سپیشل ایڈیشن شائع کئے، لاہور اور ملک بھرمیں ہو کا عالم ہو گیا۔

ملک بھر کی سڑکیں لاک ڈاؤن کا منظر پیش کر رہی تھی، اور ایک مزاحاً بات جو مجھے یاد ہے کہ اس رات لاہور میں گھروں میں چوریوں کے ریکارڈ ٹوٹ گئے، اور جو لوگ اس قسم کی وارداتوں سے متاثر ہوئے یہ وہ لوگ تھے جو اس ڈرامے کی آخری قسط دیکھنے اپنے ہمسایئے یا رشتہ دار کے گھر گئے ہوئے تھے۔ کیونکہ ٹی وی ہرایک گھر میں نہیں ہوا کرتا تھا۔لہٰذا جب وہ وارث کی آخری قسط کسی دوسرے کے گھر دیکھنے کے بعد گھر واپس لوٹے تو آگے ان کے اپنے گھر میں چور بڑے اطمینان سے قیمتی اشیاء لوٹ کر کے جا چکے تھے۔

اسی طرح پاکستان ٹیلی ویژن کراچی سنٹرکی طرف سے نسیم حجازی کے تحریر کردہ تاریخی ڈرامے '' شاہین'' ، '' آخری چٹان'' بھی قسط وار پیش کئے جاتے رہے ۔ جن کو پاکستانی عوام نے بے حد پسند کیا اورتقریباً میری عمر کے لوگ آج بھی یاد کرتے ہونگے۔ اسی عشرہ میں دوردرشن امرتسر انڈین ٹی وی کو لاہور میں دیکھا جانے لگا۔ انڈین نشریات کے لاہور میں نظر آنے کے بعد ٹی وی کی خریداری میں ریکارڈ اضافہ بھی ہوا، اور ہر گھر کی چھت پر لمبے سے لمبے بانس پر نت نئے سٹائل کے انٹینے دیکھنے کو ملے، جن کا رخ انڈین شہر امرتسر کی جانب ہوتا۔

ان کی نشریات میں صرف اور صرف دو چیزیں پاکستانی عوام کی دلچسپی کا باعث بنی وہ تھیں ایک تو انڈین فیچر فلم جو کہ ایک ہفتے میں تین دفعہ اور ہفتے میں تین ہی دفعہ انڈین فلمی گانوں کو چترہار کے نام سے پیش کیا جاتا جو پاکستانی عوام کیلئے ایک نئی چیز تھیں، ظاہر ہے انڈین فلمی سٹوری اور ناچ گانوں سے بھرپور پروگرامز نے پاکستانی عوام کو ایسا مرغوب کیا کہ اس فلم اور گانوں کی خاطر لاہور کے اکثر گھروں نے پی ٹی وی سے کنارہ کشی اختیار کی اور انڈین فلموں کی طرف مائل ہو گئے۔

اس کی رہی سہی کسر 1979ء میں وی سی آر اسکے بعد DVD اور ڈش سیٹلائیٹ نے نکال دی۔مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ایک مرتبہ انڈین وزیراعظم راجیو گاندھی کی اہلیہ سونیا گاندھی نے ایک اخباری بیان میں کہا تھا کہ بھارت ویسے تو کبھی پاکستان کو کسی شعبہ میں مات دے یا ئے یا نا دے پائے لیکن ہماری انڈین فلموں نے پاکستانی مسلمانوں کے گھر گھر میں بھگوان پہنچا کر پاکستانی ثقافت کا بیڑا غرق کر دیا ہے،ان کی یہ بات واقعی درست ہے۔

اب ہماری قوم کے بچے سے لیکر بڑی عمرکے سب خواتین و حضرات کو انڈین فلم ایکٹر کے ایک ایک نام کا پتہ ہے، اس کے خاندانی بیک گراؤنڈ کا علم ہے، یہ ایکٹر کس کا بیٹا، کس کی ماں اور کس کا باپ ہے۔ڈی وی ڈی اور ڈش کا دور بھی اب پرانا ہوا ، موبائل اور انٹرنیٹ نے سونے پے سہاگے کا کام کیا اور اب ہر بندے کے ہاتھ میں ہی انڈین کلچر صرف انگلیوں کے چھونے سے ہی شروع اورختم ہوجاتا ہے۔

انڈین توکیا دنیا بھر کے کلچر کو ایک لمحہ میں دیکھ اور سن سکتے ہیں۔
اوپر والی بات کی تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ کسی بھی ملک کے ٹی وی اور سوشل میڈیا کے ڈرامے ، پروگرام اور کلپس کو دیکھ کر اس قوم کی ثقافتی تاریخ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اسی اسلامی ثقافتی تاریخ کو اجاگر کرنے کیلئے چند سال قبل وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ترکی ٹی وی TRT کا ایک تاریخی ڈرامہ غازی ارطغرل پاکستان ٹیلی ویژن (PTV) پر اردو زبان میں ڈب کر کے پیش کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

اس کے علاوہ یہی ڈرامہ نیٹ فلیکس (Net Flex) پر بھی دنیا کی کئی دوسری زبانوں میں ڈب شدہ دستیاب ہے۔ جسے دنیا بھر کے علاوہ پاکستانی عوام نے بے حد پسند کیا اور ابھی تک کیا جا رہا ہے۔ جبکہ مبینہ طور کہا جا رہا ہے اس کے کل 6 سیشنز ہیں اور ان 6 سیشنزکی کل ملا کر750 اقساط ہیں، اورابھی پاکستان میں اس کے 3 سیشنز مکمل ہوئے ہیں اورچوتھا شروع ہو چکا ہے ،اور دوسری طرف ارطغرل مکمل نشر ہونے کے بعد کورلس عثمان جو کہ ارطغرل کے بیٹے تھے پر بھی دو سیزن مکمل ہونے کے بعد اب تیسرا سیزن شروع ہونے کو ہے، اکثریتی تعداد نے اسے بھی یو ٹیوب اور انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرتے ہوئے دیکھ بھی لیا ہے، اور کچھ دیکھ بھی رہے ہیں لیکن پھر بھی پاکستان کی ایک بڑی تعداد اس ڈرامے کو پی ٹی وی کی طرف سے ڈب شدہ ڈرامے کی قسط کر بے چینی سے انتظار کرتی ہے، جو کہ ہر ہفتے 3/4 اقساط کی بنیاد پر نشر ہو رہا ہے۔

اس لئے ارطغرل ڈرامے کو اس قدر پذیرائی مل رہی ہے جس کے باعث اس ڈرامے نے پوری دنیا میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی ہے، اس ڈرامے کو دنیا کی کئی اور زبانوں میں بھی ڈب کر کے انہی ممالک میں باری باری نشر کیا جا رہا ہے ، اس ڈرامے میں پاکستانی قوم خصوصاً نوجوانوں کی دلچسپی اس قدر بڑھی ہے کہ اس نے ترکی کے ناظرین سے زیادہ دیکھے جانے کا ریکارڈ قائم کر لیا ہے، اور اس تاریخی ڈرامے کے مرکزی کردار ادا کرنے والے ایکٹر اور ایکٹریسز کو پاکستان کی مختلف معروف کمپنیاں اپنا برانڈ ایمبیسیڈر بنا رہی ہیں یا بنا چکی ہیں، جس قومی پی ٹی وی ادارے کو پاکستانی قوم بھول چکی تھی، اب ساری قوم اس کو جس دلچسپی سے دیکھ رہی ہے اس سے پرائیویٹ ٹی وی چینلز پر چلنے والے اکثرڈراموں کی ریٹنگ میں اتنی گراوٹ آئی ہے کہ پاکستانی ڈرامہ آرٹسٹوں کی چیخیں ٹی وی کے مختلف ٹاک شوز اور سوشل میڈیا پر سنی جا سکتی ہیں،جس کو پاکستانی عوام نے یکسر مسترد کر دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جب بھی ہمارے ڈرامے پاکستان کے مختلف پرائیویٹ چینلز پر نشر کئے جاتے ہیں اس وقت ارطغرل غازی ڈرامہ کی قسط بھی نشر ہو رہی ہوتی ہے جس سے ان کے ڈرامے کوئی نہیں دیکھتا اور ان کے ٹی وی چینلز کی ریٹنگ میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، جس سے وہ بے حد پریشان ہیں۔ اب اگر ان پرائیویٹ چینلز پر چلنے والے ڈراموں کا ذکر کیا جائے تو ان میں آجکل جو سب سے زیادہ مقبول اور کثرت سے دیکھے جانیوالے ڈراموں میں تقریباً ایک ہی بات پیش کی جا رہی ہے ایک امیر زادہ ایک غریب لڑکی کو دھوکا دینے کے بعداس لڑکی کی دوسری شادی کے بعد دوبارہ محبت جاگنے پر اسی کو بلیک میل کر کے بدمعاشی کررہا ہے، یا ایک لڑکی ہنستے بستے خوشحال گھرانے میں طلاق کروا کر اور اسی گھر کے سربراہ سے اپنے پیار کی پینگیں بڑھا رہی ہے۔

اسی طرح کوئی ہیرو صاحب اپنی ہی سالی کے ساتھ اظہار محبت اور دل لگی کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ایسے ہی دوسرے ڈرامے میں ایک ہی گھر کے سربراہ لیکن سوتیلے باپ کو اپنے ہی سوتیلے بیٹے کی نئی نویلی دلہن پسند ہے اور وہ اس پر آنکھ رکھے ہوئے ہے۔ گویا ہر ڈرامے میں دھوکہ دہی ، فراڈ، بے غیرتی، حسد اور ایک دوسرے سے جلنے کڑھنے کے کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے۔

ان جیسے ڈراموں کو دیکھ کر ہم اور ہماری عوام آخر کیا جانب جا رہے ہیں؟ کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آخری چٹان اور شاہین جیسے ڈرامے نشر کئے ہوئے عرصہ بیت گیا، اور آج کل کی نوجوان نسل نے کبھی اپنی اسلامی ثقافتی تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا تو انہیں کیسے پتہ ہو گا کہ اسلام کہاں سے شروع ہوا اور کیسی کیسی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ہمارے اسلامی ہیروز نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے، اور جو لوگ اسلامی تاریخ سے واقف ہیں وہ ان ڈراموں کو فراموش کر چکے ہے، اور اتنے لمبے عرصے کے بعد ارطغرل غازی جیسے ڈرامے کا نشر ہونا ) چاہے ترک زبان کی وجہ سے اس کے ڈائیلاگ کیساتھ ڈائیلاگ بولنے والے کے ہونٹ نہیں ملتے( لیکن ان خاندانی سازشی اور بے ہودا قسم کے ڈائیلاگ سے تنگ آئی عوام کیلئے یہ ڈرامہ ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہو رہا ہے اور اس تفریح کے ساتھ ساتھ وہ اپنے علم اور اسلامی ثقافتی اقدار میں بھی اضافہ کر رہے ہیں۔

پی ٹی وی کے ساتھ ساتھ دوسرے پرائیویٹ چینلز کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اپنے پرانے گھسے پٹے عشق معشوقی کے موضعات سے بھرپور ڈراموں کو بند کرے یا ان میں اصلاح کا پہلو شامل کرتے ہوئے ایسے ڈرامے تشکیل دیں جس سے پاکستان کی نوجوان نسل کو ناصرف علم حاصل ہو بلکہ وہ اپنے اندر اسلامی ثقافتی اقدار کو فروغ دیتے ہوئے اپنی دینی اور دنیاوی زندگی کو بہتر طریقے سے گزارنے کی طرف مائل ہوں، اور حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ بھی اس طرح کی پرائیویٹ پروڈکشن کی سرپرستی کرتے ہوئے فروغ دے تاکہ ایسے ڈراموں کے ذریعے قوم کی نوجوان نسل حقیقت پر مبنی اسلامی ثقافت سے روشناس ہو سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :