کورونا کی تباہ کاریاں۔۔۔آہ پیر پپو شاہ ۔۔۔

جمعہ 22 اکتوبر 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

پچھلا مہینہ میری فیملی کے لئے نہایت دکھ بھرا گزرا، کیونکہ ستمبر کی 26 تاریخ کو میرے واحد بردار نسبتی سید حسن محمود شاہ المعروف پیر پپو شاہ کا عالمی وباء کرونا کے باعث جنوبی پنجاب کے ضلع لودھراں میں انتقال ہو گیا۔ یہ خبر لندن کے وقت الالصبح 2 بجے ایک قریبی رشتہ دار نے بذریعہ فون دی۔ لندن میں ہفتہ کی رات اور اتوار کی صبح کا وقت تھا اس لئے دیر رات تک بیٹھا جاگ ہی رہا تھا۔

پردیس میں رہ کربس یہی ایک بات بہت دکھ دیتی ہے کہ جب کسی قریبی عزیز رشتہ دار کی رحلت ہو جائے تو وقت پراپنے عزیز واقارب کے درمیان پہنچنا محال ہو جاتا ہے، ابھی چند روز قبل ہی برطانیہ نے پاکستان کو سفری پابندیوں سے تو آزاد توکر دیا تھا لیکن اس پر اصولی عملدرآمد 4 اکتوبر سے شروع ہونے کا عندیہ بھی دیدیا تھا،اسی لئے میں اور میری فیملی بھی اس سانحہ کے ایک ہفتہ بعد یہاں پہنچ سکے۔

(جاری ہے)

اس خبر کے بعد ہمارے اپنے گھر میں بھی سخت سوگوار صورتحال کا ہونا ایک فطری امر تھا۔برطانیہ کے مختلف حصوں سے قریبی دوست احباب انتقال پرملال کیلئے آئے۔ مرحوم ضلع لودھراں کی نہایت مشہور و معروف شخصیت تھے، اسی وجہ سے ضلع لودھراں کے عوام انکے جنازے کو ضلع لودھراں کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ قرار دے رہے ہیں۔ گزشتہ ادوار میں وہ پی ٹی آئی ضلع لودھراں کے سیکرٹری جنرل بھی ہوا کرتے تھے، اور پی ٹی آئی کی منتخب شدہ افراد کو الیکشن ٹکٹ دینے کی پالیسی کے نتیجے میں انہیں ایم پی اے کی سیٹ کا ٹکٹ نہ دیا گیا تو وہ بھی اپنے حلقہ کی عوام کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے خود ہی آزاد امیدوار کے طور پر سامنے آئے، لیکن بدقسمتی سے چند ووٹوں سے الیکشن ہار گئے۔

لیکن اپنے آزادانہ طور پر لڑے گئے الیکشن میں اپنے مخالف امیدواروں کو سیاسی طور پر اچھا خاصا پریشان کئے رکھا۔اس کے علاوہ قریبی دوستوں میں راولپنڈی سے سید امتیاز شاہ، ایمسٹرڈیم ہالینڈ سے آئے ادریس خان جو چھٹیوں کیلئے راولپنڈی آئے لیکن کرونا میں مبتلا ہونے کے بعد اللہ کو پیارے ہوئے۔ اس کے بعد مشہور ایٹمی سائنسدان اورپاکستان کے اصلی ہیروڈاکٹر عبدالقدیر خان ، اورپھر کامیڈی کی دنیا کے بادشاہ عمرشریف بھی اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔


فرمانے والے فرماتے ہوئے ایک قصہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بادشاہ کے عظیم الشان محل میں ایک دھوبن کام کیا کرتی تھی جو اپنے اباؤاجداد کے زمانے سے اس محل میں کام کر رہی تھی۔ اس محل میں بادشاہ کے علاوہ اس کی ایک بہت ہی حسین اور خوبصورت بیٹی بھی رہا کرتی تھی جس کے ناز و نخرے ساری سلطنت میں ہر زدوعام کے علم میں تھے۔ وہ دھوبن شاہی محل میں بادشاہ اور شہزادی کے قیمتی کپڑوں کی صفائی ستھرائی اور ان کی اچھی طرح حفاظت کیا کرتی تھی،اسی دھوبن کا ایک بیٹا بھی تھا جو شاہی محل کے باہر کے چھوٹے موٹے کام کر دیا کرتا تھا، لیکن اسے محل کے اندر خاص کر زنانہ خانہ میں جانے کی ہرگز اجازت نہیں تھی۔

ایک روز اس دھوبن کو سخت بخار نے آ لیا۔ اور شہزادی کا ایک خاص قیمتی لباس اس کے پاس گھر پر موجود تھا جسے اس نے دھلائی کے بعد اپنے پاس محفوظ رکھا ہوا تھا۔ اس لباس کو شہزادی تک پہنچانا بھی بہت ضروری تھا۔ اس دھوبن نے طبیعت ناسازی کے باعث اپنے بیٹے کو اپنے پاس بلایا اور اسے کہا کہ اس لباس کو شاہی محل میں شہزادی کے پاس پہنچانا اشد ضروری ہے کیونکہ شہزادی نے آج کی شاہی تقریب میں زیب تن کرنا ہے۔

میری طبیعت خراب ہے اور میں آج کام پر جانے سے قاصر ہوں۔ تم کسی طریقے سے اسے شہزادی کی کسی خاص خادمہ تک پہنچادو تاکہ وہ اسے شہزادی کے کمرے میں رکھ آئے تاکہ شہزادی آج کی شاہی تقریب میں اسے پہن سکے۔ اس کے بیٹے نے اس لباس کا پیکٹ لیا اور شاہی محل کی جانب روانہ ہو گیا۔ جب وہ محل کے دروازے پر پہنچا تو اس روز کی شاہی تقریب کی وجہ سے محل میں موجود تمام افراد بہت مصروف تھے، اور اپنے اوپر لگائے جانیوالے انتظامات کو مکمل کرنے میں لگے پڑے تھے، کوئی بھی اس کی بات سننے کو تیار نا تھے۔

دھوبن کا بیٹا آہستہ آہستہ محل کے اندرونی زنانہ خانہ کے پاس پہنچ لیا لیکن کسی نے بھی اس کو نا ہی روکا اور نا ہی اس کا اس طرح زنانہ خانہ میں داخلہ کی وجہ پوچھی، اور وہ اسی طرح چلتے چلتے شہزادی کے کمرے کے بالکل سامنے پہنچ گیا۔ اس نے سوچا کیوں نا وہ کمرے میں داخل ہو جائے اور کمرے کے اندر موجود شہزادی کو خود ہی یہ لباس حوالے کر کے واپس آ جائے۔

اور اس نے ہمت کر کے شہزادی کے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو گیا۔ عین اس وقت شہزادی اپنے غسل خانہ سے غسل کرنے کے بعد واپس اپنے کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔ اس نے شہزادی کو دیکھا اور اس کے حسین و جمیل حسن کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا، کیونکہ شہزادی نہانے والے لباس میں ملبوس تھی اور وہ اس کے طلسماتی حسن کو دیکھ کر اس کا عاشق ہو گیا۔

کپڑوں کا جوڑا اسکے حوالے کرنے کے بعد اس نے فوراً واپسی میں ہی عافیت جانی اور بھاگم بھاگ واپس آ گیا، لیکن اس شہزادی کے حسن کو دیکھ کر اس کی راتوں کی نیند حرام ہو گئی۔اس کا کہیں دل نہیں لگتا تھا اور ہر وقت اس کا دل چاہتا کہ وہ اس حسین شہزادی کو کم از کم زندگی میں ایک مرتبہ اپنے سامنے بیٹھا ہوا دیکھے۔جب کئی ہفتے گزر گئے اور اسے یہی لگا کہ وہ اسے ایک مرتبہ دیکھے بغیر ہی اس دنیا سے رخصت ہو جائیگا، نا چاہتے ہوئے بھی اس نے اس بات کا ذکر اپنی دھوبن ماں سے کر دیا کہ میں نے شہزادی کو ایک مرتبہ دیکھا ہے اور اب صرف ایک بار دوبارہ اس حسن کی دیوی کو اپنے سامنے بیٹھا کر دیکھنے کی خواہش ہے، تو اس کی دھوبن ماں اس بات پر سخت برہم ہوئی کہ اس بات کا شاہی محل میں کسی کو پتہ چل گیا اور یہ بات بادشاہ تک پہنچ گئی تو وہ تمہارا سرقلم کر وا دے گا۔

لہٰذا وہ اس خواہش کو دل سے نکال دے اور خاموشی سادھ لے تواس کے لئے بہتر ہو گا کیونکہ اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔اسی طرح کئی اور روز گزر گئے اور وہ مجنوں بنتا چلا گیا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر دھوبن ماں سخت پریشان رہنے لگی، اس کی یہ حالت دیکھ کر اس کی ماں سے نا رہا گیا اور وہ ایک مرتبہ شہزادی کے کمرے میں کچھ میلے کپڑے لینے گئی تو شہزادی اپنے شاہی محل کے کمرے میں بالکل اکیلی تھی، اسے اکیلا دیکھ کر اسے اپنے دیوانے بیٹے کا خیال آیا، اس نے موقع غنیمت جانا اور شہزادی کے سامنے اپنے بیٹے کا حال او ر اس کی انوکھی خواہش کا اظہار بھی کر دیا۔

اس کے بیٹے کی خواہش کا سننا تھا کہ شہزادی آپے سے باہر ہو گئی اور اس نے دھوبن کو کہا کہ وہ تمہارے بیٹے کی شکایت اپنے والد بادشاہ سے کریگی وہ خود اس کو سزا دیں گے۔جس پر دھوبن کے جسم میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور وہ شہزادی کے قدموں میں گر گئی اور معافی کی درخواست کرنے لگی،کہ بادشاہ سلامت کوشکایت مت لگائیں اور میرے بیٹے کو معاف فرما دیں جس نے کم علمی اور ناسمجھی کے باعث یہ غلطی کر دی اور ایسی خواہش کا اظہار کر دیا جو کبھی بھی پوری نہیں ہو سکتی۔

شہزادی کو بھی اس شاہی محل کی پرانی دھوبن پر رحم آگیا اور اس معاملے کو درگزر کرتے ہوئے اس کے بیٹے کی جان بخشی کرتے ہوئے معاف کر دیا۔اب پھر چند ہفتے بعد ایک مرتبہ اسی شہزادی کو خیال آیا تو اس نے دھوبن سے اس کے بیٹے کے بارے میں دریافت کیا۔تو بے چاری دھوبن نے اپنے بیٹے کی دن بدن بگڑتی ابتر حالت کے بارے میں شہزادی کو سچ سچ بتا دیا۔اب شہزادی بھی اس بات پر فکر مند ہوئی کہ یہ غریب دھوبن کا بیٹا آخر کس راہ پر چل نکلا ہے، اس کا حل بتاتے ہوئے اس نے دھوبن کو مشورہ دیا کہ اپنے بیٹے کو کہے کہ وہ جنگلوں میں نکل جائے اور اللہ کی یاد میں لو لگائے ، اور جنگل میں ہی کسی سنسان جگہ پر اپنا ڈیرہ بنائے، وہ اسی طرح ایک دن اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اپنے علاقے میں '' بابا'' کے نام سے مشہور ہو جائے گا، اور اسی مشہوری کے باعث اس بابے کی خبر میرے والد بادشاہ تک پہنچے گی اور پھر میرے والد جو '' بابوں'' کی بہت قدر کرتے ہیں ، وہ بھی اس کی زیارت کیلئے جنگل میں جائیں گے اور پھر اگر ان کو وہ '' بابا'' پسند آ گیا تو وہ مجھے بھی حکم دیں گے کہ ایک ''بابا'' جنگل میں ڈیرہ ڈالے بیٹھا ہے تم بھی اس کے پاس جاؤ اور اس کی زیارت بھی کرو اور ان سے دعا لیکر آؤ۔

توپھرمیں تمہارے بیٹے کے پاس اپنے والد کے حکم پر جنگل میں جاؤں گی اور اس کے سامنے بیٹھ کر اپنے حسن کا نظارہ تمہارے بیٹے کو دکھا دوں گی، اس سے اس کی خواہش بھی پوری ہو جائیگی اور میرے والد بادشاہ کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ اب اس دھوبن نے یہ ساری بات اپنے بیٹے کو بتا دی کہ اسی طرح شہزادی تمہیں اپنی زیارت کروا سکتی ہے۔اگر تم شہزادی کی اس تجویز سے اتفاق کرتے ہو تو جنگل کی طرف نکل جاؤ اور یہ ساری عمل کر کے تم شہزادی کا دیدار کر سکتے ہو۔

شہزادی کے حسن کا دیوانہ دھوبن کا بیٹا اگلے ہی دن جنگل بیابانوں کی طرف نکل گیا اور سنیاسی ملنگ بن گیا۔جنگل میں کہیں ایک مقام کو اس نے اپنا مسکن بنا لیا اور اللہ کی عبادت میں مشغول ہو گیا۔اس راستے سے اکثر و بیشتر مسافروں کا گزر ہوتا جن کی نظر اس درویش صفت پر پڑتی تو کئی اس ملنگ کے پاس رکتے اور اپنی سفری تھکان دور کرنے کے بعد اپنے سفر کو جاری رکھتے ہوئے آگے بڑھتے، اور کئی اس ملنگ بابا سے دعاؤں لیتے ہوئے اپنا سفر دوبارہ سے جاری رکھتے۔

اسی چکر میں کچھ ہی عرصہ میں وہ اس علاقے میں کافی مشہور ہو گیا اور اس بادشاہ کی سلطنت کے ہر فرد کی زبان پر اسی ملنگ بابا کی تعریف اور چھوٹی موٹی پیدا شدہ کرامات کے چرچے ہونے لگے۔ہوتے ہوتے انہی باتوں کی خبر بادشاہ سلامت کے دربار میں جا پہنچی ، اور بادشاہ کو بتایا گیا کہ آپ کی سلطنت کے جنگل کے ایک حصے میں ایک ملنگ بابا نے آ کر ڈیرہ لگایا ہے اور سلطنت کے اندر سے گزرنے والے مسافر اور آباد کار لوگ اس ملنگ سے بہت متاثر ہیں اور ان سب کی نظر میں یہ ایک پہنچے ہوئے ملنگ بابا کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

تو بادشاہ نے اس ملنگ بابا کی اتنی تعریف سنی اس سے بھی نا رہا گیا اس نے بھی شاہی دستہ تیار کروایا اور بابا ملنگ کی زیارت کیلئے جنگل میں رخت سفر باندھا۔ اور ملاقات کرنے کے بعد بادشاہ جب واپس اپنے محل میں آیا تو اس نے شہزادی کو بھی جنگل میں جا کر بابا ملنگ کی زیارت کرنے اور ملنگ بابا سے شہزادی کو جنگل میں ان کے ڈیرے پر جا کر دعائیں لینے کی ہدایت کی۔

اب شہزادی کو تو علم تھا کہ شاہی محل کی دھوبن کا بیٹا ہے اور میرے دیدار کیلئے یہ سب کئے بیٹھا ہے۔ اگلے ہی دن شہزادی چند شاہی سپاہیوں کے ہمراہ جنگل روانہ ہو گئی اور اور جب وہ اس ملنگ بابا کے استھان پر پہنچی تو وہ ملنگ بابا آنکھیں بند کئے ذکر الہٰی میں مشغول تھا۔ اب شہزادی اپنے سپاہیوں کو دور کھڑا کر کے ملنگ بابا کے سامنے جا کر بیٹھ گئی اور اس ملنگ بابا کو کہنے لگی کہ چل بھی میں آ گئی ہوں اور اپنا یہ ڈھونگ پن ختم کر ، اور آنکھیں کھول کر اپنی خواہش کو پورا کرتے ہوئے میرے حسن کو دیکھ لے۔

ساری سلطنت میں تو یہ کرامات کرنے والا نیک اور متکی ملنگ بابا کے نام سے مشہور تو ہو گیا ہے لیکن مجھے پتہ ہے کہ تو نے یہ روپ میرا حسن دیکھنے کیلئے اختیار کر رکھا ہے۔شہزادی کی آواز پر ملنگ بابا نے اپنی آنکھیں ہلکی سی کھولیں اور شہزادی کو دیکھ کر بند کر لیں اور دوبارہ اللہ کی یاد میں مصروف عمل ہو گیا۔ جب اس کی عبادت میں شہزادی کی آواز مخل ہونے لگی تو اس نے بھی اللہ کا نام لیکر اس شہزادی کو جواب دیا کہ آیا تو میں واقعی تمہاری جھلک دیکھنے کے لالچ میں تھا لیکن اس طویل عبادت اور اللہ کی یاد میں مجھے وہ نظارے دیکھنے کو ملے ہیں اور مل رہے ہیں کہ تمہاری زیارت ان سب نظاروں کے سامنے کچھ بھی نہیں۔

چل چلی جا یہاں سے اور میرے اور اللہ کے درمیان حائل ہونے کی کوشش نا کر۔اللہ کی جانب سے مجھے جو نظارے دیکھنے کو ملے ہیں اور ابھی تک مل بھی رہے ہیں ان کے سامنے تیرے نظارے کی کیا اوقات ؟اس چھوٹی سی کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ کے ساتھ لو ح لگانے سے جو عشق حقیقی ملتا ہے اس عشق کے سامنے دنیاکی ہر چیز کی حقیقت نا ہونے کے برابر رہ جاتی ہے۔اللہ ہم سب کو اپنے خاص بندوں میں شامل فرمائے۔ آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :