خودمیری اپنی روداد ، ارباب اختیار کی توجہ کیلئے

منگل 4 جنوری 2022

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

یہ تو حقیقت ہے اورفرمانے والے بھی فرما گئے ہیں کہ '' کوئی بھی مصیبت جب اپنے گلے پڑتی ہے تو پھر پتہ چلتا ہے'' ۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے قائم کردہ پاکستان بھرکے تقریباٰ تمام سرکاری و غیرسرکاری اداروں کے خلاف شکایت درج کروانے کیلئے بنائے جانے والے پورٹل ایپس پر عوامی شکایت اور اس کے رد عمل کے طور پر عوامی خیالات کو آن لائن ہی پڑھا جائے یا سنا جائے تو اکثریتی شکایت کنندگان کی شکایات دور ہوئی ہیں یا ہونیوالی ہیں۔

ان ساری اپ لوڈ ہونیوالی شکایات میں چند ایک ایسی بھی ہوتی ہیں جن کو کسی بناء پر حل یا پایہ تکمیل تک پہنچایا نہیں جا سکتاجس کو دیکھ کر انتہائی دکھ اور مایوسی ہوتی ہے اور لیکن ابھی تک پاکستان کے تمام ڈیپارٹمنٹس میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ان محکموں کو تیزاب سے دھویا جائے کیونکہ ان میں موجود کالی بھیڑیں اس وقت پھیلی عالمی وباء کرونا سے بھی زیادہ خطرناک اور مہلک ہیں، کیونکہ کرونا بیماری کا وائرس تو اسی کیلئے خطرناک ہے جس پر وہ حملہ کرتا ہے لیکن یہ ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان کی موجودہ آبادی میں اکثریت کے پاس موبائل فون تو ہے لیکن اس کو کیسے آپریٹ کیا جاتا ہے یا سمارٹ فون میں موجود ایپس کا کیسے فائدہ اٹھانا ہے ان کو اس بارے میں کوئی علم نہیں۔حکومت کی جانب سے آن لائن ایپس اور آن لائن شکایت کرنے کا شعور دینے کیلئے پوری پاکستانی قوم اور پاکستان کے وزیراعظم اور وزراء اعلٰی اپنے تئیں پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن ہماری یہ بھولی بھالی قوم درست ہونے کا نام نہیں لے رہی، یا سیدھے راستے پر چلنے کو تیار نہیں۔

جس کی واضح شکل اس وقت سامنے آتی ہے جب پاکستانی قوم کا کوئی فرد اپنے جائز کام کیلئے ان محکموں کا رخ کرتا ہے۔ ہر محکمہ اور اس میں کام کرنیوالے چپڑاسی سے لیکر سربراہ تک ہی مہنگائی کا رونا رونے کے بعد یہ بتاتے ہیں کہ'' کیا کیا جائے مہنگائی کی وجہ سے کام کروانے کیلئے رشوت کا ریٹ بھی بڑھ گیا ہے'' ۔ اسی طرح کی صورت حال میرے اور میری فیملی کے ساتھ رونما ہو چکی ہے۔

وزیراعلٰی پنجاب کے اوورسیز پاکستانی کمپلینٹ پورٹل پر میں بھی اپنی شکایت قسمتی آزمائی کے طور پر درج کروا چکا ہوں ، اور اس پر عملدرآمد کروانے کیلئے چیف منسٹر سیکرٹریٹ کی جانب سے ضلع لودھراں کی اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ سیدہ آمنہ مودودی کو بھی میری شکایت نمبر 31729 بھیجی جا چکی ہے ، اس میں بھی انہیں تاکید کی گئی ہے کہ اس مسئلہ کو 30 روز کے اندر حل کر کے رپورٹ کریں لیکن میری شکایت کی فائل 30 روز گزرنے کے باوجودابھی تک ان کی ٹیبل پر دھول ومٹی چاٹ رہی ہے۔

اب دیکھتے ہیں سرکار کب اپنی نظر کرم کریں اور ہمارابھی مسئلہ حل ہو۔بلکہ ستم ظریفی یہ ہوئی ہے کہ ان کی جانب سے وقت پر ایکشن نا ہونے کے باعث میرے مخالفین نے میری فیملی پر 3 عدد جھوٹے مقدمات درج کرواتے ہوئے معاملہ عدالت کے سپرد کر دیا ہے، تاکہ ہمارا وقت بھی برباد ہو اور ہم اس پاکستانی عدالتی سسٹم سے زچ آ جائیں اور اپنے کام کو'' جہاں ہے جیسا ہے ''کی بنیاد پر چھوڑ کر واپس سات سمندر پار یہ سوچتے ہوئے چلے جائیں کہ پاکستان تو بہت اچھا ہے لیکن ہمارے مخالفین مختلف محکموں میں کام کرنے والی بیورو کریسی سے زیادہ طاقتور ہیں۔


چار ماہ سے زائد کا عرصہ لندن سے پاکستان آئے ہوگیا ہے، اور ایسا لگ رہا ہے کہ مستقل طور پرہی پاکستان شفٹ ہو چکے ہیں۔ میرے برادر نسبتی کے گزشتہ سال ستمبر میں انتقال کے بعد ان کے باپ دادا کی چھوڑی ہوئی زرعی پراپرٹی میں میری اہلیہ کے نام انتقال شدہ زرعی زمین ساڑھے تیس ایکڑ ز ) مالیت تقریباً 8 کروڑ روپے( پر میرے برادر نسبتی کی بیوہ اور، ان کے تمام سسرالی رشتہ داروں نے قبضہ جما لیا ہے، جو کہ تحصیل و ضلع لودھراں کی نہایت طاقتور شخصیت مانے جاتے ہیں، ضلع بھر کے تمام اداروں خاص کر زرعی زمین پر قبضہ اور اس طرح کے تمام معاملاتی حلقے میں ان کا نام چلتا ہے، اور پہلے پہل تو ان کی باتوں اور عمل سے ایسا ہی محسوس ہوتا رہاکہ وہ اپنے داماد کی موت کے بعد ان کی اکلوتی بہن اور میری بیوی کے نام انتقال شدہ اراضی کا قبضہ چھوڑ کر اسی کواس کا حق دلوانے میں ممدومعاون ثابت ہونگے لیکن تھوڑا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں اور ان کے بیٹوں میں بھی وہی جاگیردار نہ اور وڈیرہ شاہی کی طبیعت نے انگڑائی لینی شروع کر دی اورکہرخداکا کہ زمین بھی اہلیہ کے نام انتقال شدہ اور مجرم بھی وہی ٹھہرے، ایک ماہ قبل ان کی شہ پر ان کی بیٹی یعنی میرے برادر نسبتی کی بیوہ اور خود انہوں نے مل کر میری اہلیہ پر ہی 3 جھوٹے مقدمات داغ ڈالے ہیں اور میری فیملی کو ذلیل و خوار کرنے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

ان کی بیٹی اور میرے بردار نسبتی کی بیوہ نے میری بیوی کے خلاف یہ 3 جھوٹے دعوے دائر کرتے ہوئے یہ مئوقف اختیار کیا ہے کہ یہ اپنے بھائی کی موت پر انگلینڈ سے یہاں آئی ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ یہ میرے خاوند کی زمین پر قبضہ کرلے گی اور قبضہ کرنے کے بعد اسے کسی کوبھی بیچ کر یہاں سے چلی جائے گی،موجودہ حالات میں اس زمین پر کاشت شدہ فصل کو اجاڑ دے گی وغیرہ وغیرہ ۔

اس لئے اس زمین پر مجھے STAY دیا جائے۔ اور دوسرا کیس تو اس سے بھی زیادہ مضائقہ خیز اور ناقابل یقین ہے، اس میں دعویٰ دائر کرتے ہوئے مئوقف اختیار کیا گیا ہے کہ میرے برادر نسبتی کے سسراور اس کے کارندوں نے ایک فرضی نام محمدعلی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ میری بیوی نے 2015 میں یہ زمین ایک کروڑ پچانوے لاکھ کی محمد علی نامی شخص کو فروخت کر دی ہے اور اس کی فروخت کے بعدمیری بیوی نے محمد علی نامی شخص سے ایک کروڑ نوے لاکھ روپے وصول کر لئے ہیں، ان پیسوں کی وصولی کے بعد زمین کاانتقال و قبضہ دلوائے بغیر ہی وہ یورپ واپس چلی گئی اور اب جبکہ ان کے بھائی کا انتقال ہوا تو وہ واپس آ ئی ہوئی ہے۔

اب ان کی واپسی کے بعد محمدعلی نے اپنی بقیہ رقم پانچ لاکھ روپے کی ادائیگی اوراس سے زمین کا انتقال کروانے کا کا ذکر کیا تو وہ اس سے انکاری ہو گئی اور اب نہ زمین کا قبضہ دے رہی ہے اورنہ زمین کا انتقال کروا رہی ہے بلکہ میری اہلیہ محمد علی کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہی ہے،حالانکہ میں خود یا میری اہلیہ محمد علی نامی کسی شخص سے ناواقف و انجان ہیں اور ہمیں اس فرضی نامی شخص کا بھی کچھ پتہ نہیں۔

اس دعویٰ میں محمد علی نے ایک جعلی سٹامپ پیپر بھی منسلک کر رکھا ہے جس میں چار گواہان کی موجودگی ظاہر کی گئی ہے اور اسی سٹامپ پیپر پر میری بیوی کے جعلی دستخط موجود ہیں۔ اس جعلی سٹامپ پیپر پر بھی جعلی دستخط کروانے اور کرنے والے پر بھی بھی دفعہ 420 کا کیس ضلعی پولیس کو درج کرنا چاہئے اور ان کرپٹ، جعلی زمین مافیا کے تمام کرداروں کو بے نقاب کرتے ہوئے گرفتار کر کے پابند سلاسل کیا جانا اشد ضروری ہے۔

میں اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ یکم اکتوبر کو پاکستان پہنچا اور برادر نسبتی مرحوم کی تمام آخری رسومات اورچالیسیویں سے فارغ ہونے کے بعد ہماری واپسی کی ٹکٹیں کنفرم تھیں،اور ہمیں واپس لندن چلے جانا تھا لیکن میں ان خاندانی پیچیدہ مسائل کے باعث دو مرتبہ اپنی ٹکٹیں تبدیل کروا چکاہوں۔ اس ساری پریشانی کی اطلاع پنجاب حکومت کی جانب سے قائم کردہ پورٹل اوورسیزپاکستانیز کمپلینٹ میں بھی آن لائن کی جا چکی ہے جس کا آئی ڈی نمبر31729 ہے لیکن ابھی تک اس کا بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا، ہاں البتہ اتنا معلوم ہوا ہے کہ اس شکایت کی فائل ضلع لودھراں کی اسسٹنٹ کمشنر سیدہ آمنہ مودودی صاحبہ کی میز پر ہے، اے سی صاحبہ سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ جلد دونوں فریقین پارٹیوں کو اپنے دفتر بلائیں گی اور مصالحت کی کوشش کریں گی اور اگر کوئی بات بنتی ہے تو ٹھیک ورنہ پھر وہ ایکشن لیں گی۔

عدالت نے بھی کورٹ میں دائر ہونے والے دعوؤں کے نوٹسز بھی ایشو کئے ہیں لیکن وقت پر ہمیں ایک بھی نوٹس نہیں ملا ۔ جس کے باعث میری فیملی میں سے یا میرے وکیل کی طرف سے کوئی بھی عدالت میں حاضر نہیں ہوسکا اور نہ ان دعوؤں کا جواب داخل کروا سکا، میرے فریقین خود بھی اس بات کو آمنے سامنے بیٹھ کر بڑے دھڑلے سے مانتے ہیں کہ یہ بات تو صحیح اور سچ پر مبنی ہے کہ یہ مقدمات جھوٹ پر مبنی ہیں، یہ تو صرف اور صرف آپ کو پریشان کرنے اور وقت ضائع کرنے کیلئے بنائے گئے ہیں۔

اس ہٹ دھرمی اور کھلی بدمعاشی کو کوئی کہے تو کیا کہے ؟ نئے سال کے شروع ہوتے ہی اس سلسلے میں میری اہلیہ نے لودھراں کے ڈپٹی کمشنر کو بھی ایک درخواست بھیجی ہے جس میں اس نے ڈپٹی کمشنر صاحب کی توجہ اس جانب مبذول کروائی ہے کہ اس سارے واقعے کے بعد اسے ان فریقین سے اس بات کا خطرہ ہے کہ وہ میرے اور میری فیملی کے خلاف کسی بھی قسم کی انتقامی کارروائیاں کر سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :