طالبان کا خوف اور سلطنت عثمانیہ

اتوار 5 ستمبر 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

31اگست کو امریکی فوج کے انخلاء کی آخری تاریخ کی رات امریکہ کا آخری فوج بھی افغانستان سے نکل گیا اور دنیا بھر کے مختلف ممالک میں ٹرانزٹ کرتے ہوئے امریکہ روانہ ہو گئے۔ اس کے بعد افغانستان میں خوشیوں کے خوب شادیانے بجائے گئے۔ اس سارے عمل کے بعد افغانستان میں تھوڑی بہت طالبان اور چند ہزار داعیش کے کارکنوں کے درمیان جھڑپوں اور خودکش بم دھماکوں کی اطلاعات آ رہی ہیں، لیکن قوی امید ہے کہ طالبان حکومت ان مٹھی بھر داعیش کے دہشت گردوں پر جلد قابو پا لیں گے۔

کابل میں موجود دنیا بھر کے اکثرممالک کے سفارت کار پہلے ہی افغانستان چھوڑ کر اپنے اپنے ممالک واپس جا چکے ہیں،اور آنے والے وقت میں جب طالبان افواج پوری طرح افغانستان پر قابض ہو جائیگی اور اپنی قومی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیگی بلکہ طالبان نے گزشتہ جمعہ کو اپنی کابینہ کا اعلان بھی کر دیا ہے تو جزوی طور پر جو جو سفارتکار افغانستان سے اپنے ممالک میں منتقل ہو چکے ہیں اسی طرح آہستہ آہستہ واپس آنا شروع ہو جائیں گے۔

(جاری ہے)

2021 کے وسط میں جب افغان طالبان پورے افغانستان کی مختلف ریاستوں پر قبضہ کرتے ہوئے کابل کی جانب رواں دواں تھے، انہی ادوار میں عیدالفطر سے قبل افغان طالبان نے ایک اخباری بیان میں انڈیا کو متنبہ کیا تھا کہ وہ بھارت ومقبوضہ کشمیر میں موجود مسلمانوں پر بڑھتے ہوئے ہندو مظالم اور ناانصافیوں کے پیش نظرہندوانتہا پسند تنظیموں آر ایس ایس اور بی جے پی کو پٹا ڈال کر رکھیں ورنہ ان سب کے خلاف جہادہو گا۔

ایک پریس کانفر نس میں طالبان نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ عیدالفطر کے بعد بھارتی ہندوانتہا پسند تیار ہو جائیں، ہم آ رہے ہیں اور ملک بھر میں خودکش حملے ، بم دھماکے اورعسکری حملوں پر مشتمل اسی طرح کی بیشر کارروائیاں کریں گے اور ہندوبنیوں کے ظلم و بربریت سے مسلمانوں کو نجات دلائیں گے۔اس جنگ کو انہوں نے غزوہ ہند کا نام دیا تھا۔اس پریس کانفرنس کی تفصیلات آتے ہی بھارتی میڈیا میں تہلکہ مچ گیا، اور ابھی تک پورے بھارت کے ہر ٹی وی چینلز پر اسی جہاد کے متعلق بات ہو رہی ہے، بعض بھارتی تجزیہ نگاروں نے یہاں تک کہہ دیا کہ موجودہ حکومت کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے جلد ازجلد طالبان کو ایک میز پر اکٹھا کرنا چاہئے اور ان سے اس جہاد کو نہ کرنے کیلئے ہر قیمت پر راضی کرنا چاہئے، یہ نا ہو اس جہاد کے شروع ہوتے ہی تمام بھارتی گھروں میں ہی بند ہو کر رہ جائیں اور ان کے پلے سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہ بچے، کیونکہ طالبان نے امریکہ جیسے سپر پاور ملک کو ناکوں چنے چبوا دیئے، اور اب انہیں خدشہ ہے کہ افغانستان میں اپنی قومی حکومت اور پیر جما لینے کے بعد ان کا اگلا ٹارگٹ انڈیا ہو گا۔

اس سے قبل بھارت نے بھی افغانستان میں افغانوں پر ظلم کی انتہا کر دی اس کی مدد کیلئے ہندوستان نے پورے افغانستان میں اپنے 14 قونصلیٹ کھول رکھے تھے، جس میں بیٹھ کر بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' افغانستان اور پاکستان کے خلاف بھرپور سازشیں کرتی رہی، افغان طالبان نے مل کر ان تمام سازشیوں کے خلاف بھی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ پچھلے دنوں جب سے طالبان نے کابل پر قبضہ کیا ہے، کابل ایئرپورٹ پر صرف اور صرف پی آئی اے ایئرلائن تھی جس کے جہازوں کو لینڈ اور فلائی کرنے کی اجازت تھی، اسی وجہ سے دنیا بھر کے وہ لوگ جو افغانستان سے نکلنا چاہتے تھے ان کی پہلی ترجیح یہی تھی کہ وہ اپنی ٹکٹ پی آئی اے سے کروا کر کابل سے نکلیں اور پاکستان کے کسی بھی شہر میں لینڈ کرکے رابطہ فلائٹ لیتے ہوئے اپنی اپنی منزل مقصود کی طرف روانہ ہو جائیں، ادھر کابل میں واقع پاکستانی سفارتخانے میں بھی پاکستان کا ویزہ حاصل کرنے کیلئے بے شمار لوگوں کی لمبی لمبی لائنیں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔

ایک وہ زمانہ جب یہی امریکہ پاکستان کو پتھر کے زمانے میں پہنچانے کی باتیں کیا کرتا تھا لیکن اب امریکن ٹی وی وہی امریکن یہ بات کر رہے ہیں کہ خدارا ہمارے شہریوں کو پاکستان کا ویزہ دو تاکہ وہ بخیریت وہاں سے نکل سکیں۔ یہی وہ تبدیلی ہے جو پاکستان کی عزت و وقار کو دنیا بھر میں بلند کرنے کا باعث بن رہی ہے۔
سلطنت عثمانیہ کے بانی ارتغرل غازی نے پہلے دنیا بھر میں اسلام کا پرچم سربلند کرنے کیلئے کافروں کے خلاف بے شمار صلیبی جنگیں لڑیں اور فتح یاب ہوا۔

اس کے بعد ارتغرل غازی کے صاحبزادے عثمان نے بھی اپنے دادا اور والدکے نقش قدم پر چلتے ہوئے منگولی کافروں کو دھول چٹوائی۔ ارتغرل غازی اور اس کے بعد سلطنت عثمانیہ کے اس سارے علاقے پر سوا چھ سو سال تک حکومت قائم رہی۔ اس حکومت کا خاتمہ مختلف سازشوں کے بعد عمل میں آیا، اس زوال کے شروع میں سلطنت عثمانیہ نے برٹش راج کے ساتھ معاہدہ لوزان کے نام سے کیا جو ابھی تک حکومت فرانس کے پاس موجود ہے۔

یہ معاہدہ لوزان 1923ء میں قائم کیا گیا جس کے تحت آئندہ سو سال تک ترکی کے اوپر بہت ساری ناجائز پابندیاں لگا دی گئیں، یہ معاہدہ کی کالی اور لمبی رات 2023 میں ختم ہو رہی ہے، جس میں سب سے اہم یہ تھی کہ سلطنت عثمانیہ ختم کر دی جائیگی، اس معاہدہ لوزان کے بعد سلطنت عثمانیہ کے اہم عہدیداران کو قتل کر دیا گیا، یاجلاوطن کر دیا گیا اور ان کے تین براعظموں میں موجود بے انتہا قیمتی اثاثے ضبط کر لئے گئے اور بعد میں یہ اثاثے برٹش اور ان کے اتحادیوں کے درمیان بانٹ دیئے گئے۔

ترکی کو ایک سیکولر ریاست بناتے ہوئے اسلام کو ختم کر دیا گیا۔ ترکی پر یہ بھی پابندی لگا دی گئی کہ ترکی اپنے ملک یا کسی بھی دوسرے ملک میں تیل نہیں نکال سکتا۔حالانکہ ماہرین کی رائے کے مطابق ترکی کی زمین کے نیچے تیل و پٹرول کے نا ختم ہونیوالے ذخائر موجود ہیں۔اور ترکی جغرافیائی لحاظ سے فاسفورس سمندر کے گرد گھرا ہوا ملک ہے اور دنیا بھر میں بحری جہازوں کی گزر گاہ ہے، ترکی پر یہ بھی پابندی عائد کر دی گئی کہ وہ اپنے ملک کے پاس یا اس سمندری حصے سے گزرنے والے لاتعداد بحری جہازوں سے کسی قسم کا کوئی ٹیکس بھی وصول نہیں کر سکتا۔

ترکی پر اس سمندری راستے کو استعمال کرنے والے بحری جہازوں پر کسی قسم کا ٹیکس وصول نہ کرنے کی شرط بھی اسی معاہدہ کا حصہ تھی۔ ایک لمبے عرصے تک ترک قوم نے سچے مسلمان ہونے کے ثبوت کے طور پر حجاز مقدس میں عمرہ و حج پر آنے والے حاجیوں کی میزبانی کی ہے اور اس میزبانی کا یہ حق سلطنت عثمانیہ کے سوا چھ سوسال تک نبھایا ہے، آج بھی بے شمار ترکی باشندے عمرہ و حج کے دوران اللہ تعالٰی سے یہی دعا مانگتے دکھائی دیتے ہیں کہ اے اللہ جو حق ترک باشندوں کے پاس سوا چھ سو سال تک تھا، اور تیری ناراضگی کے باعث ہم سے چھین لیا گیا، اسے واپس ہماری جھولی میں ڈال دے، یہ ذمہ داری اس وقت آل سعود کے پاس ہے جو آجکل سعودی عرب کے بادشاہ ہیں۔

اب اگلے آنے والیددو سالوں بعد اس معاہدہ کی معیاد ختم ہو رہی ہے۔ 2023ء میں اس معاہدہ کے ختم ہوتے ہی ترکی سب سے پہلے اپنے ملک کی زمین کو چیر کر تیل اور پٹرول کے بے شمار ذخائر نکالے گا، اور دنیا بھر میں پٹرول و تیل بیچے گا، اس کے بعد اپنے اردگرد پھیلے سمندر پر آتے جاتے بحری جہازوں کو گزرنے کیلئے ٹیکس ادا کرے گا اس کیلئے ترکی کافی عرصہ پہلے سے ہی استنبول کے درمیان سے ایک بہت بڑی سمندری نہر استنبول کینال کے نام سے کی تعمیر کرنے کا پلان بنا رہا ہے، جو آنے والے 5/10 سالوں میں نہر سویز سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر جائیگی، جس سے سمندری فاصلے سمٹ جائیں گے اور اس بہت بڑی سمندری نہر کے شارٹ کٹ راستے سے دنیا بھر کے گزرنے والے بحری جہازوں سے ٹیکس وصول کرے گا۔

اس پٹرول و تیل بیچنے اور سمندری جہازوں کے گزرنے کے ٹیکس سے اتنا پیسہ کمائے گا کہ دنیا حیران رہ جائیگی۔ اس وقت ترکی کے صدر طیب اردگان مسلمانوں کے بہت بڑے خیرخواہ کے طور پر سامنے آئے ہیں، وہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر ہونیوالے مظالم پر بھرپور اور مضبوط آواز بن کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ کافی عرصے قبل سے ہی یہی کوشش کرنے کیلئے سرگرداں نظر آتے ہیں کہ کم از کم مسلمان ممالک یا جہاں جہاں بھی آباد ہیں ان ممالک کو اپنا ہم نوا بنایا جائے۔

ترکی دنیا کے مختلف ممالک کو اپنی صف میں شامل کرنے کیلئے روس، چین، انڈیا، ایران، انڈونیشیا، ملائیشیا اور یورپی یونین میں شامل مختلف ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایک نئی جہت پر ڈال رہا ہے۔ اس سلسلے میں ترکی، ملائیشیا اور پاکستان پہلے ہی مسلم امہ کی ترجمانی کیلئے اپنا ایک مسلم چینل بھی لاؤنج کرنے کا ارادہ ظاہر کر چکا ہے، جس پر تقریباً تمام کام مکمل کر لیا گیا ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جب 2023ء میں معاہدہ لوزان کا اختتام ہو تو ترکی کو دنیا بھر کے بڑے ممالک کو اپنا ہم نوا بنانے کیلئے ان سے ووٹ لینا پڑے۔

امریکہ کرونا وائرس کے اثرات سے بے حد متاثرہوا ہے، اس کی اکنامی بری طرح متاثرہوئی ہے جس کے اثرات آنے والے وقت میں پوری دنیا پر پڑنے والے ہیں، امریکہ کو اپنی پہلے والی پوزیشن پر آنے کیلئے بے بہا پیسہ، مین پاور اور ایک لمبے وقت کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ 2023ء پوری دنیا میں تیل و پٹرول کی کھپت آج کے مقابلے میں کم رہ جائیگی، الیکٹرک گاڑیوں کی ریل پیل ہو گی، اور جب تیل و پٹرول کی ضرورت کم ہو گی تو اسے سستا کرنا ہی پڑے گا ان اثرات کے باعث یو اے ای اور عرب ممالک بھی متاثر ہونگے۔

اور اللہ نے چاہا تو ایسا ہی کچھ ہو گیا توہم سب کو ترکی کی ترقی سلطنت عثمانیہ کی صورت میں ایک بار پھر دیکھنے کو ملے گی۔ کیونکہ حضور ﷺ کی بھی ایک حدیث ہے کہ قیامت سے پہلے خلافت قائم ہو گی۔ انشااللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :