خان صاحب !ٹیلی فونک شکایات یا نشستاً، گفتگواً، برخاستاً‎‎

منگل 25 جنوری 2022

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ جنرل ضیاء الحق دور حکومت میں بیڈن روڈ لاہور کے کمسن بچے نے جنرل ضیاء الحق کو ایک خط لکھا کہ جناب صدر میں نے کرکٹ کھیلنی ہوتی ہے اور بڑی مشکل سے اپنا جیب خرچ بچاتے بچاتے کئی ماہ لگ گئے،اور اپنے والدین سے بھی کچھ پیسے اس امید پر اکٹھے کئے کہ اپنے لئے کرکٹ کھیلنے کا سارا سامان خرید سکوں۔ لیکن جب میں بازار سامان خریدنے کیلئے اپنی جمع پونجی لیکر نکلا تو کسی نوسر باز نے مجھ سے میرے پیسے چھین لئے اور میں خالی ہاتھ واپس گھر آ گیا۔

جنرل صاحب آپ کے دور حکومت میں کسی چور لٹیرے نے میرے پیسے چھین لئے اور اب میں بے یارومددگار دوبارہ سے اپنا جیب خرچ اکٹھا کرنے کی فکر میں لاحق ہوں۔ اس خط کو اس نے پوسٹ آفس جا کر پریذیڈنسی اسلام آٓباد پوسٹ کر دیا۔

(جاری ہے)

چند دن بعد جنرل ضیاء الحق کی جانب سے پورا کرکٹ کا سامان ایک پارسل کی صورت میں اسے موصول ہوا اور اس کے ساتھ صدر پاکستان نے ایک خط بھی بھیجا اور اس کے ساتھ ہونیوالی واردات پر افسوس کا اظہار کیا گیا تھا۔

اس بچے کا صدر پاکستان کو خط لکھنا اور صدر پاکستان کی جانب سے فوری ردعمل کو پاکستان کے تمام اخبارات نے اپنے اپنے پہلے صفحات پر شائع کیا۔ اس خبر کے شائع ہوتے ہی پاکستان بھر سے گویا پریذیڈینسی میں خطوط اورشکایات کا انبار لگ گیا، لیکن ہر کسی کی شکایت کا ازالہ کرنا ممکن نہیں تھا۔ ایسی صورتحال تو کبھی کبھی کسی کسی جگہ پر کلک کرتی ہے جس سے ایسا ہرگز نہیں سمجھنا چاہئے کہ روزانہ ایسا ہوا کریگا۔

ایسی ہی صورتحال نواز شریف دور میں بھی ایک دفعہ پیش آئی جب نواز شریف بحیثیت وزیراعظم گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے سالانہ کنونشن میں ادارے سے فارغ ہونیوالے طلبہ کو ڈگریاں تقسیم کرنے پہنچے۔ اس کنونشن میں ایک طالبہ نے اپنی ڈگری تو وصول کر لی لیکن وہ نیچے ہال میں بیٹھے دوسرے طلبہ کے درمیان جانے کی بجائے وہاں موجود سٹیج مائیک پر پہنچ گئیں اور بھرے ہال میں وزیراعظم نواز شریف سے مطالبہ کیا کہ میں ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں، یہ ڈگری کی صورت میں رول شدہ کاغذ کے ٹکڑے کا مجھے کوئی فائدہ نہیں، براہ کرم اس ڈگری کے بدلے مجھے اگر لیکچرر شپ کا تقرر نامہ عنایت کیا ہوتا تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی کیونکہ اس ڈگری کو لیکر اب مجھے پورے پاکستان میں جگہ جگہ نوکری کیلئے خوار ہونا پڑے گا، جس کا مجھے کوئی فائدہ نہیں بلکہ یہ میری اور میری فیملی کیلئے ذہنی کوفت میں اضافہ کا باعث ہو گا۔

ان دو لفظی جملوں نے فوراً اپنا کام کر دکھایا اور اسی خاتون طالبہ کو اسی وقت وزیراعظم کے حکم پر لیکچرر شپ کا تقرر نامہ جاری کر دیا گیا۔ ایسی کلک کرنے والا لمحہ کہاں اور کس کس کے حصے میں آئے، کوئی پتہ نہیں۔
آج وزیراعظم پاکستان عمران خان کی پاکستانی عوام سے ٹیلی فون پر عوامی سوالات کے جوابات اور ان کے مسائل کی نشست منعقد کی گئی۔

اس پروگرام کے شروع میں میزبان فیصل جاوید نے تمام کالرز کو ہدایت کی کہ سب لوگ اپنے سوالات مختصر کریں، تاکہ اس نشست میں زیادہ سے زیادہ عوامی مسائل جاننے کا موقع مل سکے۔لیکن افسوس کہ اس پوری ڈیڑھ گھنٹے کی نشست میں اوسطاً وزیر اعظم نے سوا گھنٹہ مائیک اپنے پاس رکھا، صرف پندرہ منٹ ہی عوامی مسائل سنے، اور کیا سنے سوال گندم اور جواب چنا کی مصداق پر عمل کرتے ہوئے اس ٹی وی پروگرام کو یہی کہا جا سکتا ہے کہ '' نشستاً ۔

گفتگواً۔ برخاستاً'' وزیراعظم کو چاہئے کہ اگر ایسے ہی مائیک پر قبضہ کرنا ہوتا ہے تو چھوڑیں یہ ٹیلی فون پر عوامی رائے سننا، خود ہی ایک پروگرام ترتیب دیں لیں اور جو جو آپ کے ذہن میں مہنگائی ، بے روزگاری، قانونی مسائل پر جو کام کر رہے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں، نوازشریف زرداری اور دوسرے تمام سیاست دانوں کی کرپشن پر بات کرنے کیلئے اس پروگرام میں اپنے دل کی بڑھاس نکال لیا کریں، اور اس پروگرام میں ملک بھر میں نشر ہونیوالے مختلف ڈراموں کی طرح وقفہ آنے پر لاکھوں روپے کے شیمپو، پیسٹ، کینڈی چاکلیٹ اور دوسرے تمام ایڈورٹائزمنٹ سے کچھ نہیں تو سرکاری اور پرائیویٹ چینل کا بھلا ہو جایا کریگا۔

یاد رہے کہ آپ کسی بھی سیاست دان سے ایک دھیلا تک واپس نہیں نکلوا سکے۔ چکوال سے کسی صاحب نے مختصر سوال پوچھا کہ صدارتی نظام کے نفاذ کا شور ہے، کیا یہ خبر درست ہے یا نہیں تو خان صاحب نے اس سوال کا جواب تو نہیں دیا لیکن پندرہ منٹ ضائع کرتے ہوئے وہی پرانی باتیں دھرا دیں جن کو سن سن کر ساری پوری قوم کے کان پک نہیں بلکہ گل سڑ گئے ہیں۔ جناب خان صاحب! ہر بات اپنے پورٹل پر ڈال کر بری الزمہ نہیں ہوا جا سکتا، کیونکہ آپ کا دعویٰ ہے کہ پورٹل پر درج کی گئی شکایت کا ایک ماہ کے اندر سدباب کیا جائیگا لیکن سدباب کرنے والی بیورو کریسی پورٹل پر کی گئی شکایت کے کاغذ کو ردی کی ٹوکری کی نظر کرنے میں مہارت رکھتے ہیں، یا وہی کاغذ درج کی گئی شکایات کے کاغذوں کے نیچے پڑے پڑے دھول و مٹی چاٹ رہے ہوتے ہیں۔

مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ گورنمنٹ کی طرف سے جاری کردہ اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں کی لسٹوں پر کوئی اور کہیں بھی عمل نہیں ہو رہا۔ اس بوسیدہ کاغذ کو دکاندار اپنے سامنے رکھ کر بھی زائد قیمتیں وصول کرتے ہیں، اور جب اس لسٹ اور اشیاء کی قیمتوں پر دکاندار سے بحث کی جائے تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ '' جہاں سے آپ کو اس قیمت پر یہ چیز ملتی ہے تو وہاں سے ہی لے لیں، اور آگے سے ہٹیں، ہوا آنے دیں'' آپ یہ کیوں نہیں مانتے کہ دوسرے تمام ادوار کی طرح آپ کے دور میں بھی کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آئی بلکہ رشوت کا بازار پہلے سے زیادہ گرم ہو چکا ہے، ڈالر، پونڈ اور دوسری تمام کرنسیوں کی طرح رشوت کا ریٹ بھی دوگنا یا تین گنا زیادہ ہوچکا ہے، جو ہر جائزو ناجائز کام کیلئے دینا ہی پڑتا ہے۔

پورٹل پر بھی شکایت درج کرانے کا میرا ذاتی تجربہ ہو چکا ہے، جس کا ذکر میں اپنے پہلے کالم میں بھی کر چکا ہوں، کسی قسم کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔ اور پورٹل پورٹل کرتے وزیراعظم اور ارباب اختیار کا منہ چڑاتی بیورو کریسی کسی طور پر بھی اپنے آپ کو بدلنے کو تیار نہیں۔ وزیراعظم صاحب کا کہنا ہے کہ میری پارٹی کا نام ہی انصاف کی تحریک ہے، مگر آپ نے تو اپنے دور اقتدار میں جس شعبے پر سب سے کم اور نا ہونے کے برابر توجہ دی ہے وہ محکمہ انصاف ہی ہے۔

وزارت قانون نے سال بھر پہلے اعلان کیا تھا کہ ملک بھر کے ججز کی تعداد میں اضافہ کیا جائیگا اور پائپ لائن میں پڑے ماضی کے تمام کیسوں کو جلد از جلد پیشیوں کے ذریعے ان کے انجام تک پہنچایا جائیگا لیکن پتہ نہیں ان ججز کی تعداد میں اضافہ ہوا یا ویسے ہی ہوا کے رخ کو دیکھتے ہوئے آپ کی حکومت نے اعلان تو کر دیا لیکن عمل کرنا بھول گئے، اور غضب خدا کا کہ عدالتوں کے ججز پر بھلا کون اور کیسے انگلی اٹھائے، ہر جھوٹ سچ کو STAY کا چار لفظی لفظ بول کر سٹے لینے والوں کو خود اپنے سایہ کے نیچے لے لیتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس لفظ میں کون اور کیسے ذلیل و خوار ہو رہا ہے، اور اس سٹے کو ختم کرانے کیلئے وکلاء حضرات اپنی اپنی چھریوں کو پہلے ہی تیز کئے بیٹھے ہوتے ہیں، اور سٹے کے کیس کو ختم کرانے کیلئے ان کے کئی جوتوں کے جوڑے گھس جاتے ہیں۔

لیکن سٹے اور جھوٹے مقدمات ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے اور پوتے کے دور میں ہونے والے سٹے اس کے دادا بننے تک عدالتوں کے چکروں میں لگے رہتے ہیں ۔ یہی عدلیہ اگر مخالف پارٹی کو بھی اسی وقت اپنے پاس بلا کر ان کا مئوقف بھی سن لے تو کئی سٹے مقدمات کی بیل اپنی منڈیر پر ہی چڑھ سکے اور اس کے بعد خود عدلیہ کا بھی وقت بچے اور خود مخالف پارٹی کو بھی منہ کی کھانی پڑے۔اسی کرپشن اور اقربا پروری کی مارکیٹ میں اکثر مافیاز کے لوگ وکیل کو چھوڑ کر جج ہی کر لیتے ہیں، جس کا علم معاشرے کے تمام مکتبہ فکر کے لوگوں کو ہے لیکن وہ اس کے خلاف کچھ بھی نہیں کر سکتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :