ہوئےتم تیماردار جس کے

پیر 1 فروری 2021

Syed Arif Mustafa

سید عارف مصطفیٰ

اس بات پہ حیرت نہ ہونا بجائے خود بڑی حیرت کی بات ہے کہ دنیائےطب کے اکثر محقق اپنی تحقیق کا تمامتر رخ صرف ادویات کی ساخت اور اثرات کی جانب ہی کیوں‌ رکھتے ہیں ۔۔۔۔ لیکن نجانے کیوں  انکی توجہ مریضوں پہ تیمارداری کے اثرات کا جائزہ لینے پہ کیوں نہیں جاتی اور کیوں اس بابت ان کی تحقیق کا دامن ابھی تک یکسر خالی ہے اور آخر ابھی تک ان پہ یہ راز کیوں نہیں کھلا کہ جتنے بیمار کسی موذی مرض کے سبب مرتے ہیں اس سے تو کہیں زیادہ ، کئی موذی تیمار داروں کے ہاتھوں کھیت رہتے ہیں ( تاہم چند فیصدی مریضوں کی فوتگی کیلیئے ڈاکٹروں اور نرسوں کا بھی پیشہ وارانہ استحقاق ہے ) ۔

۔۔  جہاں تک مریضوں کے مارنے کے استحقاق کا معاملہ ہے تو وہ صرف طبی عملے کا ہی نہیں ہے  کسی نہ کسی حد تک مریضوں کا بھی ہے مارنے کا نہ سہی مرنے کا سہی خصوصاً خوبرو نرسوں والے ہسپتالوں میں ۔

(جاری ہے)

۔۔ کہ جہاں ایک ہی مریض کئی کئی بار بیمار ہو ہو کے داخل ہوئے جاتا ہے اوراپنے اور اقرباء و احباب کے"ذوق جمال" کی پیہم تسکین کیئے جاتا ہے، اوریوں دوسرے کئی محروم لوگوں کا طبی و جمالیاتی استحصال کیئے چلا جاتا ہے-  ملٹی نیشنل و عالی مقام کمپنیوں کے ملازمین تو اسی لیئے دوران ملازمت بار بار بیمار پڑنے کا شغل جاری رکھتے ہیں کیونکہ  ایسے دلکش امکانات سے پر ہسپتال تو گویا صحرائے زندگی میں نخلستان کی مانند ہیں کہ بار بار جہاں کا رخ کرتے رہنے کو وہ اپنی گرانقدر جاب کے پرکشش پیکیج میں شامل گردانتے ہیں ۔

۔۔۔- بالعموم ایسے اشرافی ہسپتالوں میں داخل اکثر مریض عموماً ہسپتالی بستروں پہ دھرے اوردوا پینے کے بہانےنرسوں کی باہوں میں پڑے امیدوں بھری آنکھیں چمکاتے اور رال ٹپکاتے دکھائی دیتے ہیں، اسکے برعکس سرکاری علاج گاہوں میں بیشتر مریض تیمارداروں کی آمد سےمایوس ہوکر میلی کچیلی دیواروں کی طرف کروٹ لیئے دکھتے ہیں اور اس کیفیت میں اپنی قسمت کو کوستے اور ہر بار نئے سرے سے سارا جسم کھجلاتے اور بڑبڑاتے پائے جاتے ہیں ۔

۔۔۔ اور ان میں جو کوئی اگر ذرا ہمت والے ہوں تو موقع ملتے ہی وہاں سے بغیرسلیپر پہنے ہی نکل بھاگتے ہیں
یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ بیمارایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ تو ہسپتال میں داخل ہی چند خاص دلبروں کی تیمارداری کی امید میں ہوتے ہیں - ایسے بہار پرور تیماردار اگر آجائیں تو انکے بیمار کے چہرے پہ سو سو قمقمے جل اٹھتے ہیں تاہم بعد میں انکےجانے کا دکھ انہیں اور بھی بیمار کیئے دیتا ہے، اور وہ اپنے تیماردار کی مزید آمد کے انتظار میں اپنا طبی پلنگ کم ازکم اتنا اونچا تو ضرور کیئے پڑے رہتے ہیں کہ باہری دوازے  سے آتے جاتے تیماردار ہمہ وقت نظر میں رہیں‌۔

۔۔۔  یوں انکا بیتاب دل چھوٹا اور شاداب ہسپتال کا بل بڑا ہوتا چلا جاتا ہے ۔۔۔ لیکن جب تک ہسپتالوں میں من پسند تیماردار کواپنے پہلو میں ساتھ لٹانے کی سہولت میسر نہیں آتی یہ مسئلہ یونہی موجود رہے گا - ہسپتالوں کی اہمیت کا ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ ہیں انکی نرسیں کیونکہ  جدید تر ہوتی دنیا میں طبی سہولتیں بھی خواہ کتنی بھی بڑھ نہ جائیں لیکن مریضوں کے دل سے پوچھیں تو  ہسپتالوں کی سب سے متاثر کن و نمایاں تر خصوصیت انکی ملٹی وٹامن ٹائپ تقویت رساں نرسیں ہی بیان کی جائیں گی ۔

۔۔ اگر انکی تسکین بخش دلداری نا ہو تو بیشتر ہسپتال مریضوں سے خالی ہوکر محض طبی ورکشاپیں ہی نظر آئیں - البتہ نرسوں کے علاوہ ہسپتالوں میں تھوڑے بہت ڈاکٹر بھی دستیاب رکھے جانے چاہییں کیونکہ اس حکمت سے نرسوں کا بھی دل لگا رہتا ہے
 بدلتے زمانے کےاثرات کے باعث مریضوں میں بھی بہت نمایاں تبدیلی آئی ہے اور خوش ادا نرسوں کی نازبرداری کیلیئے ترستے کئی مریض اب تو ان کے خوبرو ہونے کی شرط بھی نہیں لگاتے، صرف کہیں نہ کہیں سے قبول صورت اور ناز پرور ہونا بھی کافی رہتا ہے، تاہم ان میں مامتا بالکل نا جھلکے یہ احتیاط بڑی لازمی ہے...ورنہ خدشہ رہتا ہے کہ مریض انکی گود میں سر رکھے بغیر خود کو انجیکشن نہیں لگانے دیں گے، ویسے اس تکیلف دہ کام کے لیئےیوں تو الگ سے مسٹنڈے سے وارڈبوائے بھی ملازم رکھے جاتے ہیں لیکن آن ڈیوٹی انکا زیادہ وقت نرسوں اور ڈاکٹرز روم پہ نظر رکھنے میں صرف ہوجاتا ہے- البتہ بعضے ہوشیار ہسپتالوں میں وارڈ بوائے نہیں ہوتے ، محض ایسی تگڑی و لحیم شحیم نرسوں سے کام چلالیا جاتا ہے کہ جن میں واضح طور پہ 80-90 فیصد وارڈ بوائے اندر خانے موجود ہوتا ہے اور ہر آن کود کے باہر آنے پہ تلا ہوتا ہے، اور انکا سامان ستم گری رنگین مزاج ڈاکٹروں اور سنگین انداز مریضوں ، یعنی ہر دو کو صراط مستقیم پہ گامزن رکھنے میں بہت مددگارہوتا ہے،- ایسی ہٹی کٹی نرسوں کو مرد ڈاکٹروں کے ساتھ کام کرنے میں  ویسے بھی کوئی جھجھک نہیں ہوتی کیونکہ ان کے ساتھ کام کرتے کئی مہین ڈاکٹروں میں سے اکثر ان سے آدھے گوشت پوست پہ مشتمل ہوتے ہیں جن کے چکنےکلین شیو
چہروں کےبرعکس کئی نرسوں کے پختہ جبڑوں‌ پہ قیام پزیر چہرے پہ ہلکی ہلکی مونچھیں بھی دکھائی دیتی ہیں۔

۔۔۔
 
تیمارداروں کے حوالے سے یہ بات بہت اہم ہے کہ وہ بیمار کو مرض کی شدت کا احساس کم کرنے میں بہت کام آتے ہیں کیونکہ وہ بنام
 تیمارداری و با انداز خلوص اسے مسلسل وہ وہ نرالی اذیتیں بے تکان پہنچاتے ہیں کہ اسکے سامنے مرض کی مردودانہ تکالیف نہایت ماند پڑجاتی ہیں  ۔۔۔۔ یقینناً  کئی ایسے تیمارداروں کےدل میں تو خیال تیمارداری شاید  حضرت عزرائیل ہی ڈالتے ہیں کہ ان کا ابتدائی کام ذرا اور آسان ہوجائے ۔

۔۔  متعدد واقعات کی روشنی میں یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ تیمارداروں کی جانب سے تکالیف کی اس رسد ملسل کے اجراء میں کبھی کبھی خود بیماروں کا بھی بڑا ہاتھ ہوتا ہے کیونکہ وہ ان میں سے چند کو تو خود ہی بار بار بصد اصرار بلواتے ہیں ، اسکی غایت شاید یہ ہوتی ہے کے انہیں کسی کندھے کے ساتھ لگ کر سسکنے و ُُسڑکنے کی شدید جذباتی طلب رہتی ہے اور اگر ان کا وہ "عین مطلوب" تیمار دار اگر وہاں آپہنچے تو پھر اس کے ساتھ محض مصافحے پہ ہی اکتفا کیوں کیا جائے، بسا اوقات تو بات معانقے پہ بھی نہیں رکتی... کہاں رکتی ہے، مہذب لوگ یہ کبھی نہیں دیکھ پاتے کیونکہ وقوعے کی ذرا رنگینی یا سنگینی پہ انکی پلکیں خودبخود جھک جایا کرتی ہیں،
عیادت کے پہلے پانچ دس منٹ کے بعد ایسے تیماردار اول اول تو مریض کے ساتھ بستر پہ ہی بیٹھ رہتے ہیں اور اگر ذرا موقع مل پائے تو دفعتاً وہیں لیٹ بھی جاتے ہیں، یوں تھوڑی ہی دیر میں مریض اور تیماردار کو الگ الگ پہچاننا بھی دشوار ہوجاتا ہے... رات میں ہسپتال میں ٹہرے ایسے تیمار دار کے ہوتے اکثر مریض تو پیہم جاگتا پایا جاتا ہے جبکہ تیماردار اخوب پھنا کر سوتا ہے تاآنکہ گشت پہ آیا کوئی ڈاکٹر خود ہی نہ جگا دے-
ایک گھمبیر مسئلہ یہ بھی ہے کہ اکثر تیماردار مریض کی تکلیف کو مبینہ طور پہ اس بیمار سے زیادہ سمجھتے ہیں اوروہ مریض کو گاہ بہ گاہ یہ بتاتے رہتے ہیں کہ اس مرض میں اور اس یفیت میں اسے اس وقت کیا محسوس ہورہا ہوگا یا کیسا لگ رہا ہوگا اور یہ بھی کے ایسے میں اس ناسمجھ مریض کو کیسا محسوس کرنا چاہیئے - انہی راہبرانہ اوصاف کے سبب تیمارداروں کو مریض کی کسی بات کا یقین بھی کم ہی آتا ہے... مثلاً جب انکی جانب سے طبیعت پوچھنے پہ مریض کہے کہ "مرا جارہا ہوں، حالت بہت خراب ہے" تو انکی جانب سے ترنت تردید کی جائیگی ، "ارے مرد بنو، اچھے بھلے ہی لگ رہے ہو بس ایسے ہی تھوڑا سا تو مسئلہ ہے" جب طبیعت تھوڑی اور بگڑجائےتو تیمارداری کے وعظ میں تقابلی جائزہ بھی در آتا ہے" میاں ناشکری نا کرو، اک ذرا کی ذرا میں پریشان ہوکر ہمت ہار رہے ہو، ذرا اوروں کی طرف دیکھو، کتنے لوگ کیسے کیسے امراض میں کتنے ہی برسوں سے مبتلا ہیں...!" اور اگر شومئی قسمت بیماری کی شدت کے حق میں ساری رپورٹیں ہی چیخ پڑیں تو تیماردار اک اور پہلو سے آگے بڑھتے ہیں۔

۔۔
" میاں یہ سب تمہارا ہی کیا دھرا ہے، اتنی زیادہ اور اسقدر بے احتیاطیوں کے بعد یہ تو ہونا ہی تھا... یہ سارا بگاڑ تمہاری غفلتوں کا ہی نتیجہ ہے...!! "
کئی سینیئر تیماردار تو وقفے وقفے سے اپنے مریض کو کبھی گھرکتے اور کبھی سہلاتے بھی رہتے ہیں لگتا ہے کہ ان سے بڑا مریض کا خیر خواہ کوئی نہیں، لیکن انکی یہ لن ترانیاں اکثر اس وقت زیادہ شدت سے جاری رہتی ہیں کہ جب انکا مریض سونے کیلیئے بیتاب ہورہا ہوتا ہے - عام طور پر ایسے تیماردار پہ محفل پسند ہوتے ہیں اسلیئے اوروں کےتیمارداروں کو بھی وہیں بلالیتے ہیں اور پھر بستِر بیمار کے نزدیک ہی خوب خوب محفل جماتے ہیں ... ایسے میں شریف سے شریف مریض بھی آنکھوں آنکھوں میں ننگی گالیاں دیتے محسوس ہوتے ہیں،، آخر ہسپتالوں میں کئی مریض یونہی تو نہیں خود کو مار بیٹھتے، اور اسکے لیئے کبھی کبھی ڈاکٹر قصوروار نہیں بھی ہوتے...
یہاں مجھے ایک ذاتی بات یاد آئی ، چند برس پہلے جب میرے ہرنیا کےمعمولی سے آپریشن کی نوبت آئی تو مجھے بھی بھانت بھانت کے تیمارداروں سے دوچار ہونا پڑا... گو کہ ان میں سے بیشتر کے انداز پرسش جداگانہ  تھے، لیکن اسلوب تفتیش یکساں یعنی بےتحاشا تھانیدارانہ ۔

۔۔ بیماری کی تفصیل بتانے کے باب میں مجھے کئی کئی بار ایک ہی بیان کو نئے سرے سے دہرانا پڑتا تھا... نا مناسب نا ہوتا تو میں‌اسکی تفصیل اک تختی پہ لکھ کر گلے میں لٹکا رکھتا ، لیکن خدشہ یہ پیش نظر رہا کہ ناآشناؤں میں سے کوئی خ دا ترس کہیں یہ بپتا پڑھ کر پیسے  ہی نا ڈال جائے اور پھر یہ میری عادت ہی نہ پڑجائے-  میرے ، ہر باری ایک ہی بیان پہ قائم رہنے کے باوجود چند ایک تیمارداروں کے تاثرات میں ایسی بے یقینی و تشویش  صاف جھلکتی تھی کے جو بے راہروی کے اعتراف سے کم پہ قرار نہ پاسکتی تھی ، گویا میرے ہرنیا کی شاخیں کسی اور رنگینیء کرتوت کے چمنستان میں جھولتی ہیں ۔

۔۔  دو ایک کی تو بالکل تشفی نا ہوئی اور بڑھ کر ڈاکٹر سے اصل مرض اور اسکی وجہ پوچھ ہی لی لیکن ڈاکٹر کے جواب نے تو اس معاملے کو اور زیادہ تفتیشناک بنادیا، کیونکہ اس نے انہیں یہ بتایا کہ "ہرنیا زیادہ بوجھ اٹھانے یا زیادہ زور لگانےسے بھی ہوجاتا ہے"... اس پہ انکے چہروں پہ یکایک جو لالی آئی وہ گویا میرے کردار اور انکے اعتماد کےخون سے برآمد ہوئی تھی... صاف لگتا تھا کہ ڈاکٹر کےجواب کے پہلےحصے یعنی زیادہ بوجھ اٹھانےوالی بات پہ انکی توجہ مطلق نہیں ہے ، بلکہ زور لگانے پہ ہے ... اور ابھی تکمحض  مشق سخن ایسی "زورا زوری" کے زمرے میں نہیں گنی جاتی-
ہرنیا کے ذاتی آپریشن کے تجربے اور کئی دیگر آپریشنائے گیئوں کے مشاہدے کے بل پہ عرض ہے کہ اکثر تیمارداروں کا یہ تجسسی پہلو دامنگیر رہتا ہے کہ وہ مریض کے آپریشن والے مقام کو بچشم خود ملاحظہ کرنے کے بہت شائق ہوتے ہیں ، اگر آپریشن کسی "ایسی ویسی" جگہ کے نزدیک ہو تو زوق معائنہ اور بھی بڑھ جاتا ہے، مریض جتنا بھی دکھا پائے تیماردارکی طیعت میں سیری نہیں ہوتی ، دوربینی مزاج نگاہیں اسکے ورے اور پرے ہی متلاشی رہتی ہیں۔

۔۔
یہ سمجھنا بھی بڑی زیادتی کی بات ہوگی کہ سبھی تیماردار ایک جیسے ہوتے ہیں ، درحقیقت تیماردار کئی اقسام  کے ہوتے ہیں اور سب کے اپنے اپنے انداز ہیں اور وہ بھی ایک سے بڑھکر ایک تفتیشناک بلکہ تشویشناک ، ایک ملنے والےآئے تو بڑے ہشاش بشاش تھے لیکن تھوڑی ہی دیر میں انہیں کچھ یاد آگیا ۔۔۔
"ارے اسی کمرے اس بیڈ پہ تو میرا دوست سرفراز بھی داخل تھا...! دوسال پہلے میں یہیں تو اس سے ملنے آتا تھا، اسے بھی ہرنیا ہی کا مسئلہ تھا۔

۔۔۔،"
اچھا..." !
میں نے بات آگے بڑھائی اور پوچھا کہ "پھر کیسا رہا انکا آپریشن...زیادہ تکلیف تو نہیں ہوئی تھی ؟"
"نہیں ، آپریشن کی نوبت ہی نہیں آئی !! "
میری دل میں نجانے کتنی آشاؤں کے دیپ جل اٹھے ....
میں نے اپنی آواز سے بمشکل مسرت آمیز کپکپاہٹ کو دور کیا "
• تو کیا اسکے بغیر ہی ٹریٹمنٹ ممکن ہوگیا تھا  ؟"
نہیں..(انہوں نے بسترپہ تاسف انگیز نظر ڈالی ) ... اسکا ہرنیا پھٹ گیا تھا اور اسکا یہیں انتقال ہوگیا تھا"...!!
پھر اس بستر پہ ہمارا مزید ٹہرے رہنا کسی مجاہدے سے کم ہرگز نہ ثابت ہوا۔

۔ مانو بستر کی سفید چادر بھی اجلا  سا  کفن معلوم ہوتی تھی ۔۔۔
ایک ہمدرد تو ایسے بھی تھے کہ ملنے کے اوقات کے بعد آئے اور اندر آتے ہوئے نرس کے روکنے پہ لہجے میں بہت تشویش بھر لائے،
• " بڑی دور سے اور بڑی مشکل سے آیا ہوں پلیز مجھے ملنے دیں، کیا پتا اسکے بعد یہ موقع پھر ملے کہ نا ملے !"
تیمارداروں کی ایک محبتی قسم  وہ بھی ہوتی ہے جو چہرے پہ اندوہناک تیور وارد کیئے ہوئے وقفے وقفے سے مریض کے سرہانے بیٹھکر اور ذرا ہل ہل کر منہ ہی منہ میں کچھ نا کچھ پڑھنے اور لمبی لمبی پھونکیں مارنے پہ تلی رہتی ہے اور ان پھونکوں کی پراسرار آوازوں سے مریض کی رہی سہی پھونک بھی نکل جاتی ہے یوں اس تمام روحانی معالجے کے وقت مریض کی مسلسل گگھی بندھی رہتی ہے، اگر کہیں مریض کی گگھی بندھنے میں دیرلگے تو صآحب پھونک  ، روحانی اثرات کو مزید گھمبر کرنے کے لئے سوئم چہلم برانڈ اگر بتی بھی سلگا لیتا ہے جس پہ وہ شامت کا مارا دنیا کے بجائے ہسپتال سے فوری فراغت کیلیئے پکار پکار اٹھتا ہے اور تس پہ وہ پھونک مار تاثیر انگیز ہستی اس عاجلانا دستبرداری کو اپنی روحانیت کا اعجاز باور کراتی ہے
کچھ تیماردار ملاقاتی مریض کی غذا کا بہت خیال رکھتے ہیں اور اسکے پاس بیٹھ کر بڑی مستعدی سے دوسروں کے لائے پھلوں کی قاشیں بنائے جاتے ہیں اور ہر چار چھ قاشوں میں سے ایک آدھ مریض کو کھلانا نہیں بھولتے، بعضے تیماردار ایسے ہوتے ہیں کہ گویا دائم ، حالت تتشویشی حالت میں رہنا پسند کرتے ہیں انہی میں سے ایک کوہمارے ڈاکٹر نے یہ بھی بتایا تھا کہ " پریشانی والی کوئی بات نہیں، لیکن لگتا تھا کہ ہماری اس تسلی بخش کیفیت سےانکے تشویشی جذبات سراسر مجروح ہوئے ہیں، اور ہماری یہ تسلی ان کے لئے کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں اور وہ ایسی  زبان حال سے کہ رہے تھے کہ جسے صاف سمجھا جاسکتا تھا کہ "یہ کیا بات ہوئی بھلا"، یا یہ کہ "رہنے بھی دو ، اصل بات کچھ اور ہی ہے
مریضوں کی بابت یہ بھی اک حقیقت ہے کہ سبھی مریض بد نظر نہیں ہوتے، چند زیادہ بد نظر بھی ہوتے ہیں اور انکا التفات محض اپنے مہمانوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ اسکے دائرے میں نرسوں کے علاوہ ارد گرد کے کئی بیماروں کے ملنے والے بھی آتے رہتے ہیں، جن کا دل جیتنے کیلیئے عموما" وہ ماکولات و مشروبات اور غذائی رسد فوری کام آتی ہیں کہ جنہیں ان کا مریض اپنے ندیدے تیمارداروں سےجیسے تیسے بچا پاتا ہے...  اس قسم کی خوش اخلاقیاں مآل کار اپنا رنگ دکھاتی ہیں اور کئی گھرانوں کے مابین نئے رشتوں کے امکانات پیدا کرتی ہیں. کبھی کبھی تو مریض اوراسکی کوئی نرس بھی ہسپتال سے ساتھ ہی فراغت پاجاتے ہیں - اسی طرح کسی مریض سے اگر کوئی ملنے بار بار آرہا ہے تو قطعی لازمی نہیں کہ اسکی وجہ مریض کےساتھ کوئی پرانا تعلق ہو، یہ کوئی نیا تعلق بھی ہوسکتا ہےاور مریض کے سوا بھی ہوسکتا ہے، عموما ایسا شک کرنا نہیں چاہیئے کیونکہ زرا سا کریدنے پہ بات بھی سچ نکلتی ہے اور آگے کےمراحل میں مدد بھی فراہم کرنی پڑجاتی ہے۔

۔۔
ہمارا ذاتی مقولہ ہے جو کہ بہت مقبولا بھی ہے کہ علاج پرہیز سے بہتر ہے کیونکہ مستقیم پرہیز سے تادیر جو کڑھن اور احساس محرومی پیدا ہوتی ہے اسکی تلافی میں بھی زمانے لگ جاتے ہیں مگر ہسپتال میں چند روز گزارنے اور متعدد دیگر ایسی مثالوں پہ غور کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پہ پہنچے ہیں کہ اگر آپکو کسی پیارے کی جلد صحتیابی مطلوب ہے تو پرہیز پہ خاص توجہ دیجیئے کیونکہ ایسی صؤرت میں پرہیز علاج سے بہتر ہے لیکن واضح رہے کہ یہ پرہیز کھانے پینے سے زیادہ تیمارداروں سے ہونا چاہیئے ۔

۔۔ اگر یہ بس میں نہیں تو پھر سب چھوڑیئے اور کسی سرجھاڑ منہ پہاڑ ٹائپ بوسیدہ سی خدارسیدہ دکھتی بقراطی نرسوں والے کسی مدقوق سےہسپتال کا انتخاب کرلیجیئے۔۔۔ آپکو وہاں سے گھر واپسی میں خد ہی عجلت ہوگی ، لاریب بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ان چاہے تیمارداروں کا ریلا بھی ادھر کا رخ کرنے سے مطلق گریز کرے گا، اور یوں اسپتال کے اخراجات میں خاطر خواہ کمی کا فائدہ الگ ہوگا ۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :