
کتاب زندگی ہے۔۔۔
پیر 26 اپریل 2021

سید عارف مصطفیٰ
۔
(جاری ہے)
لیکن اسکے باوجود کتاب کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوئی اور نہ ہوگی کیونکہ شپینٹوزا نے کہیں کہا تھا کہ " کتاب ایک بہت فائدے کی چیزہے، اسنے تو میری حالت ہی بدل دی ہے۔۔۔ تاہم میرا کہنا یہ ہے کہ تیزی سے بدلتے حقائق نےکتاب دوستی پہ بہت کاری ضرب بھی لگادی ہے ۔۔" خود میرا یہ قول ہے کہ اب اس معاشرے میں ادیبوں کے لیئے جلد ہی وہ وقت آنے والا ہے کہ وہ غیر نصابی کتب صرف گن پوائنٹ پہ ہی پڑھواسکیں گے.. اور پھر بھی کچھ نا کچھ لوگوں کےمقدر میں رتبہء شہادت ہی آئیگا... فی زمانہ کتب بینی کا زوق اس ابتر حالت کو پہنچا ہواہے کہ اکبر الہ آبادی ہوتے تو اپنے اک مشہور شعر کو یوں پڑھتے۔۔۔ لکھوائی ہے رقیبوں نے رپٹ جا جاکےتھانے میں۔۔۔ کہ اکبر کتابیں پڑھتا ہے اس زمانے میں۔۔۔ اور ایک شاعر یوں شکوہ سنج ہوتے کہ،، ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام۔۔۔ وہ کتابیں بھی پڑھتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا۔۔۔ ایک ہمارےبچپن کا وقت تھا کہ جب ہرطرف کتابوں کی بہار تھی اور لائبریریاں کھچا کھچ بھری رہتی تھیں ، اب یہ صورت ہے کہ لائبریری جائیے تو بس تین چار ہی چہرے نظر آئیں گے جو دراصل دائمی بیروزگار یا مستقل مزاج عاشق ہیں جو کہ گھر والوں کے طعن وتشنیع سے بچنے کیلیئے وہاں عارضی طورپہ پناہ گزیں ہیں ، آپ انکے ہاتھوں میں عام طور پہ اخبارات ، رسائل اور بڑے سائز کی کتب ہی دیکھیں گےجنکے اوپر یا نیچے سے آپ انہیں ادھر ادھرنظریں دوڑاتے ہی پائیں گے، ایک دو تو صرف انہی نشستوں پہ شست باندھے ملیں گے کہ جو باہر کے رخ کھلے ہوئے دروازے کی سیدھ میں ہیں اور جہاں سے قریبی بس اسٹاپ بھی احاطہء نگاہ میں رہتا ہے۔ وہاں ایک آدھ نہایت بوسیدہ سے گدھ نما بزرگ بھی ہمہ وقت کسی ایک ہی جگہ دھرے ملیں گے کہ جنکی شناختی علامت ہی نہایت دلجمعی سے کسی موٹی تازی سی کتاب کی جڑوں میں بیٹھےرہنا ہوتاہے۔۔انکی ہروقت وہاں دستیابی سے کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ وہ مدتوں پہلے لائبریری آنے کے بعد واپس گھر جانا بھول گئے ہیں ، اور وہیں کسی ٹیبل کے نیچے چھپ جایا کرتے ہیں۔۔۔
گو کہ اب عام رواج کتابوں کو پڑھنے کے بجائے کتابی چہرے پڑھنے کا بن چکا ہے، لیکن چند لوگ پھر بھی ایسے ہیں جوکتابیں پڑھنے سے اب بھی باز نہیں آتے،، مرزا معقول کے نزدیک یہ لوگ وہ ہیں جو اس شدید خطرے کے عالم میں بھی بیٹھے غرق مطالعہ ہوتے ہیں اور کتابوں کے صفحے پھڑپھڑاتے ہیں کہ جب انکا جہاز غرق ہورہا ہوتا ہے اور لوگ خوف سے پھڑپھڑا رہے ہوتے ہیں۔۔۔ یوں سمجھیئے کتب بینی ایک نشے کی جیسی لت ہےاور مطالعے کا ہر اصلی شائق اس میں لت پت ہے۔۔۔ کتابوں کی مہنگائی ایک مسئلہ ہے جو انکی نئی دیدہ زیب طباعت سے جڑا ہے، یہ بھی ہے کہ آجکل مضبوط تحریر کتابوں کو اتنا مربوط نہیں کرتی جتنی ایک مضبوط جلد ، مرزا معقول اضافی یہ کہتے ہیں کہ اب ہر کتاب پہ ایک چمکیلے سے چکنے سے گرد پوش کی موجودگی اتنی ہی ضروری سمجھی جاتی ہے جتنی کہ مصنف کے جسم پہ پوشاک ، لیکن پوشاک کا نا ہونا آجکل پھربھی قابل برداشت ہے۔۔۔ خیر چھوڑیئے گرد پوش ہونا اسلیئے بھی ضروری ہے کہ اگر کتاب کے اندر کچھ اچھا نا ہو تو کم ازکم باہر تو کچھ بہتر ہو-
وجہ جو بھی ہو ہمارے ملک میں ایکسپو کا کتب میلہ ہی وہ مقام ہے کہ جہاں بڑی تعداد میں ایلے میلے اور کتابیں اور کتاب چہرے ایک ساتھ دستیاب ہوتے ہیں اور اگر سیلز گرل خوشنماء ہو تو اسکے صدقے بہت سی میچنگ کتب بھی خرید لی جاتی ہیں ،، لیکن ان جیسے اور ان جیسے چند کتاب دوست مقامات سے قطع نظر وطن عزیز میں عمومی طور پہ کتاب دشمن ماحول بڑھتا جارہا ہے اور لگتا ہے کہ وہ وقت بھی آنے والا ہے کہ ادیب و شاعر اپنی کتاب چرانے والے کی بلائیں لیں گے اور جو کوئی بھی منش زائد از نصاب کتاب پڑھتا پایا گیا اسکی یا تو فی الفور نظر اتاری جائے گی یا پھر نفسیاتی ہسپتال کی ایمبولینس طلب کرلی جائے گی ۔۔۔۔ کیونکہ یہاں کتابوںکی طلب کی حالت یہ ہے کہ پاکستان میں اسمبلی کے حاضری سے بھرپور لگاتار دو اجلاس ہوجانا اتنا غیر یقینی نہیں جتنا کہ کسی کتاب کا سال بھر میں دوسرے ایڈیشن شائع ہونے کی نوبت آجانا سوائے اسکے کہ وہ کتاب کسی خدا رسیدہ کے آنے پہ چھپادینے لائق نہ ہو یا پھر پہلا ایڈیشن ہی صرف 100 کی تعداد میں شائع کراکے نوے کتابیں دوستوں و اقرباء کے گھر یا دفتر پہ اچانک پہنچ کے تحفے میں دیدی جائیں ۔۔۔
یہ یقینی امر ہے کہ آجکل کسی کتاب کا ایک برس پرانا نسخہ کسی کتاب فروش کے پاس نہ ملے تو بارے پان فروشوں سے بھی پوچھ لینا مناسب بلکہ بہت مفید رہتا ہے " اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آجکل کتابیں بیحد مہنگی ہوچلی ہیں ۔۔ اور اسی لیئے جو شوقین لوگ کتاب میلے میں نہیں جاتے وہ دکانوں کی بجائے ٹھیلوں سے اپنی ٹھرک مٹاتے ہیں لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ ٹھیلوں سے خریداری کی وجہ سے بہت سی نئی کتب سے محروم رہ جاتے ہیں، ۔۔۔۔ ان ٹھیلوں کے مستقل مہمانوں میں سبھی وہ نہیں ہوتے جو کہ الفاظ والی تحریر کے اسیر مطالعہ ہوتےہیں، بقول تابش بہتیروں کا ذوق مطالعہ بڑا تفتیشی و مشاہداتی ہوتا ہے اور وہ صرف "اصلی، باتصویر" کی ٹیگ والی کتب کے ہی رسیا ہوتے ہیں، یہاں رسیا کے لفظ کو تاثراتی گردانیئے کیونکہ یہ رسیلا سے قریب تر صوتی آہنگ رکھتا ہے- اسے ہم " مشاہداتی مطالعہ " بھی کہ سکتے ہیں ۔۔۔ ویسے بھی ٹی وی موبائل اور کمپیوٹرنے اس ادب کو بھی در یتیم کر چھوڑا ہے کہ جو اپنے فروغ کیلیئے تکیوں پہ تکیہ کرتا تھا اور زیرتکیہ سانس لیتا تھا۔۔۔۔
معاشرے کے دیگر عناصر کی طرح کتاب کے بھی دشمن ہوتے ہیں ، بعضے لائبریری میں نہیں رہنے دیتے اور کئی اپنے گھر میں ۔۔۔ اگر دادا ادیب تھے تو پوتا انکے سوئم کے اگلے دن ہی کباڑی کا ٹھیلہ دورازے پہ منگا کر انکا سارا خزانہء علم فٹا فٹ عام عوام کی دسترس میں پہنچادیتا ہے۔۔ اکثر خواتین بھی کتابوں سے دشمنی کا رویہ رکھتی ہیں کیونکہ یہ انکے شوہروں کو انکی غیبت اور چغلیوں سے محفوظ کرتی ہیں، اور انکےمجازی خداؤں کو زیادہ سیانا بناتی ہیں، لیکن سبھی ایسی نہیں ہوتیں ،کیونکہ وہ تو صوفوں اور پردوں کے شیڈ سے میچنگ کرتی ہوئی کتابیں لا کر اپنے ڈرائنگ روم میں سجاتی ہیں اور انکی حفاظت دل وجان سے کرتی ہیں، مجال ہے کہ کسی کا ہاتھ انہیں چھوجائے،،، متعدد تو نوخیزی میں رضیہ بٹ کےپڑھے گئے ناولوں اور پروین شاکر کی شاعری کا ہیرو ہاتھ نا لگنے پہ دائم روگ پالتی ہیں اور بڑی مستقل مزاجی سے یہ روگ زندگی بھر کیلیئے تھمائے گئے متبادل ہیرو کو منتقل کرنے میں لگی رہتی ہیں،،، ایسا متبادل ہیرو اس سوگ کو زیادہ نہیں جھیل پاتا اور جلدہی اپنی تابڑ توڑ ناقدری کے بعد اپنے وجودسے بے نیاز ہوکر حلیئے میں ایک بےلگام توند اور سر پہ فحش سا گنج ابھارے پھرتا نظر آتا ہے۔۔۔
لیکن ان سب باتوں کے باوجود جیسے تیسے کرکے بیچاری کتاب ہمارے ارد گرد اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے اور اکثر اپنی اہمیت کا احساس دلاتی ہے۔۔۔ مضمون کے شروع میں میں نے بتایاتھا کہ شپینٹوزا نے کہیں کہا تھا کہ " کتاب ایک بہت فائدے کی چیزہے، اسنے تو میری حالت ہی بدل دی ہے"۔۔۔ ،،، کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ شپینٹوزا کون ہے ،، یہ ایک کباڑیہ ہےشپین گل جو رنچھوڑ لائن میں پرانی کتب کا ٹھیلا لگاتا ہے۔۔۔ اور کباڑے میں پرانی کتب دس روپے کلو کے حساب سے خریدتا ہے۔۔۔ میں نے اسکے نام کو غیرملکی روپ دیا تو آپنے اسکے کہے کو اقوال زریں جیسا گردانا اور اسے دانشور بھی مان لیا ، ورنہ بھلا آپ اس قول کو نری بکواس کے سوا اور کیا گردانتے۔۔۔
لیکن آخر میں یہ کہتا چلوں کہ ۔۔۔ ان سب باتوں کے باوجود کتاب ایک متحرک معاشرے کی زندگی ہے، اسکے ورق ورق میں مستور اک پیغام بندگی ہے، مت پوچھو کتاب میں کیا ہے ، یہ پوچھو کتاب میں کیا نہیں ہے۔۔۔ کیونکہ اس میں بہت کچھ ہے بلکہ شاید سبھی کچھ ہے لہٰذہ کتاب ہی زندگی ہے۔۔۔۔ سننا شرط ہے کتاب کلام کرتی ہے ، شرف انساں کو سلام کرتی ہے ، کتاب ہی زندگی ہے۔۔۔۔۔ کتاب چیختی ہے، سسکتی ہے کراہتی ہے، گاہے ہنستی ہے، مسکراتی ہے گدگداتی ہے، کتاب ہی زندگی ہے۔۔۔ کتاب قد نہیں مرتبہ بڑھاتی ہے، وحشت مآبوں کو انساں بناتی ہے ... اچھے ڈھنگ سے جینا سکھاتی ہے، کتاب ہی زندگی ہے۔۔۔ کتاب جاگتی ہے جگاتی ہے، کھلی آنکھوں سپنے دکھاتی ہے،،،انگلی پکڑ کر نئی دنیاؤں میں لیجاتی ہے، کئی ان دیکھے سفروں پہ ساتھ جاتی ہے ،کتاب ہی زندگی ہے۔۔۔۔ کتاب کرن ہے اجالا ہے روشنیوں کو گوندھ کر نئے سورج چڑھاتی ہے، کتاب چنگاری ہے، شعلہ ہے بھڑک کےلاؤ بنکر گرمی بڑھاتی ہے،،کتاب ہی زندگی ہے۔۔۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید عارف مصطفیٰ کے کالمز
-
بعضے کتے تو بہت ہی کتے ہوتے ہیں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
ان کی مرتی سیاست کو پھر لاشوں اور تماشوںکی ضروت ہے۔۔۔
جمعہ 28 جنوری 2022
-
تازہ تمسخر آمیز صورتحال اور شرمیلا فاروقی کے شکوے۔۔۔
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
تازہ تمسخر آمیز صورتحال اور شرمیلا فاروقی کے شکوے۔۔۔
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
عدالت نے کیا پہلے درگزر نہیں دکھائی جو اب نہیں دکھاسکتی ۔۔۔؟؟
پیر 10 جنوری 2022
-
بجی ہیں خطرے کی گھنٹیاں نون لیگ سے زیادہ پی ٹی آئی کے لئے
بدھ 8 دسمبر 2021
-
لؤ جہاد بمقابلہ لؤ کرکٹ جہاد ۔۔۔۔
جمعہ 5 نومبر 2021
-
عمر شریف چلے گئے، جائے استاد خالی است
منگل 5 اکتوبر 2021
سید عارف مصطفیٰ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.