
- مرکزی صفحہ
- اردو کالم
- کالم نگار
- سید بدر سعید
- پولیس کے تبادلے اپنی جگہ مگر دھاندلی کے اصل ذمہ دار کوئی اور!!
پولیس کے تبادلے اپنی جگہ مگر دھاندلی کے اصل ذمہ دار کوئی اور!!
جمعہ 29 جون 2018

سید بدر سعید
(جاری ہے)
2013 کے انتخابات کے بعد دھاندلی ، 35 پنکچر اور چار حلقوں کے نام پر جو کچھ ہوا اس کے بعد یہ بہترین فیصلہ تھا کہ اس بار انتخابات سے قبل انتظامی عہدے داروں کے بڑے پیمانے پر تبادلے کر دیئے جائیں ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پہلے جو انتظامی افسران کام کر رہے تھے وہ سب کرپٹ یا سیاست زدہ تھے بلکہ یہ عمل انتخابات کو اعتراضات سے بچانے ایک کوشش تھی ۔ اس سلسلے میں پہلے مرحلے میں چیف سیکرٹریز اور آئی جیز تبدیل کئے گئے ۔ آئی جی پنجاب نے اپنی تعیناتی کے فورا بعد ہی سب سے پہلے ایڈیشنل آئی جیز اور ڈی آئی جیز سمیت پنجاب کے آر پی اوز اور ڈی پی اوز کے تبادلے کئے ۔ ان میں سے متعدد افسران کو وفاق اور دیگر صوبوں میں بھی بھیجا گیا اور دیگر کو بھی ان کے موجودہ ڈسٹرکٹ اور ریجن سے تبدیل کر دیا گیا ۔ اس کے بعد اگلے مرحلے میں پنجاب کے تقریبا ایک ہزار کے لگ بھگ ایس ایچ اوز کو بھی دوسرے تھانوں میں ہی نہیں بلکہ دوسرے ریجنز میں ٹرانسفر کر دیا گیا ۔ یہ داستان یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر سید کلیم امام نے شروع میں ہی بتا دیا تھا کہ ڈی ایس پیز ، سب انسپکٹروں اور تھانہ محررزکے بھی اسی طرح تبادلے کئے جائیں گے ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فورس کے سربراہ کے طور پر آئی جی پنجاب اپنی فورس پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ کسی بھی فورس کا سربراہ اپنی ہی فورس پر عدم اعتماد کا اظہار کرے اور پھر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے ۔ آئی جی پنجاب نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پہلے دن یہ واضح کیا تھا کہ وہ پنجاب پولیس کے اہلکاروں اور افسروں کو میرٹ پر ترقی دیں گے اور وہ مسائل حل کریں گے جن کی وجہ سے ترقیاں رکنے لگتی ہیں، اسی طرح انہوں نے سینئر پولیس افسران کے ساتھ پہلی میٹنگ میں ہی یہ ہدایات بھی جاری کی تھیں کہ افسران اپنے ماتحت اہلکاروں کے ساتھ نرم رویہ اختیار کریں ۔ ان کی میڈیاٹاک بتاتی ہیں کہ آئی جی پنجاب فورس کا خیال رکھنے ، اس کے مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ اہلکاروں کا مورال بلند رکھنے کے لئے بھی متحرک ہیں ۔ دوسری جانب پولیس فورس کو متنازعہ ہونے سے بچانا بھی آئی جی کی ذمہ داری ہے جس کے لئے ان کے احکامات پر اس قدر بڑے پیمانے پر تبادلے کئے گئے ہیں کہ اب پولیس فورس پر کسی قسم کی دھاندلی کا حصہ بننے کا الزام نہیں لگ سکتا ۔
آئی جی پنجاب نے یقینا پولیس کو متنازعہ ہونے سے بچا لیا ہے لیکن یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہو جاتی ۔ جو لوگ ہر بات میں پولیس کو الزام دیتے ہیں اور انتخابات میں بھی دھاندلی کا الزام پولیس پر لگا دیتے ہیں ان کو شاید یہ علم ہی نہیں کہ پولیس کا پولنگ اسٹیشن اور پولنگ کے عمل میں کوئی کردار نہیں ہوتا ۔ پولیس پولنگ اسٹیشن کو سکیورٹی مہیا کرتی ہے اور اس وقت تک پولنگ اسٹیشن میں داخل نہیں ہو سکتی جب تک پریزائیڈنگ آفیسر کسی جرم کی شکایت کر کے پولیس کو اندر نہ بلائے ۔ آپ نے آج تک ٹھپے لگانے کی جتنی ویڈیوز یا تصاویر دیکھی ہیں ان میں کوئی تصویر کسی پولیس اہلکار کی نہیں ہے ۔ پولیس کا المیہ یہ بھی ہے کہ ہر کیس میں کم از کم ایک پارٹی جوکہ ملزم پارٹی بھی ہو سکتی ہے ، پولیس پر الزام لگا کر اپنا دفاع کرتی ہے ۔یہ کلچر اتنا مضبوط ہو گیا کہ جس کا پولیس سے کبھی واسطہ نہیں پڑا وہ بھی پولیس پر الزام دھر دیتا ہے ۔ اب بھی سیاسی جماعتوں اور لوگوں کے غیر ذمہ دارانہ بیانات اور رائے کی وجہ سے پنجاب میں تقریبا ایک ہزار انسپکٹروں کا دیگر ریجنز میں تبادلہ ہو چکا ہے ۔ ایک انسپکٹر کی تنخواہ سنیارٹی کے لحاظ سے 35 ہزار سے لگ بھگ65 ہزار کے قریب ہوتی ہے ۔ یہ لوگ دیگر ریجنز میں چلے تو گئے ہیں لیکن وہاں انہیں پہلا مسئلہ رہائش کا درپیش ہے ۔سوال یہ ہے کہ کرایہ کی رہائش ، کھانے اور دیگر اخراجات کے بعد کسی بھی ایماندار انسپکٹر کے پاس اتنے پیسے کہاں بچیں گے کہ گھر بیوی بچوں کو بھی بھجوا سکے؟ یہ معاشرے کا پولیس کے ساتھ اس ظالمانہ رویہ کی معمولی سی عکاسی ہے جس کی وجہ ہم خود ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ دھاندلی کے اصل ذمہ دار تو پولنگ اسٹیشن کے اندر کام کرنے والا وہ عملہ ہے جو پریزائیڈنگ اور ریٹرنگ افسر کے طور پر کام کرتا ہے ۔ ان میں عموما اساتذہ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں ۔ آپ کو ابھی تک کہیں بھی اساتذہ کے تبادلوں کی کوئی خبر نہیں ملی اس کے باوجود اگر آپ انتخابات میں دھاندلی کی شکایت کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے آپ دھاندلی ختم کروانے میں سنجیدہ ہی نہیں تھے بلکہ ان عناصر پر الزامات لگا کر پوائنٹ سکورنگ کر رہے تھے جن کا پولنگ اور دھاندلی میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ آئی جی پنجاب اور الیکشن کمیشن نے انتہائی مہارت سے اس بار انتخابات میں پنجاب پولیس کو متنازعہ ہونے سے بچا لیا ہے ۔ ان اقدامات کے بعد کوئی پولیس پر دھاندلی کا الزام نہیں لگا سکتا کیونکہ یہ سامنے کی بات ہے کہ انتخابات کے بعد ان پولیس افسران کا ان کے اپنے ریجنز میں تبادلہ ہو جائے گا۔اب سوال یہ ہے کہ اگر اس کے باوجود سیاسی جماعتیں یا ورکرز انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں تو پھر یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ پولیس پر ملبہ ڈالا جاتا رہا ہے اور اصل ذمہ داران کو نظر انداز کر دیا جاتا تھا کیونکہ سبھی نے انہیں اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کا سوچا ہوتا ہے۔سچ یہ ہے کہ پولیس میں اتنی بڑی تعداد میں تبادلوں کے باوجود پولنگ اسٹیشن کے اندر ”فنکاری “ دکھانے والے اصل ”فنکار“ تاحال اپنی اپنی جگہ موجود ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید بدر سعید کے کالمز
-
پنجاب میں منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈاون!
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
کورونا لاک ڈاؤن کے بعد کی دُنیا
جمعہ 30 جولائی 2021
-
ڈیجیٹل میڈیا۔۔۔۔ بےروزگاری میں پیسے کمانے کا سب سے بڑا میڈیا!
جمعرات 29 جولائی 2021
-
انڈرورلڈ کے کارندے
بدھ 28 جولائی 2021
-
آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور مائیکرو ڈرون بم ۔۔۔۔ انسان کی ترقی یا موت ؟؟
ہفتہ 13 فروری 2021
-
سیاسی دباؤ سے آزاد پولیس !!
اتوار 5 اگست 2018
-
پولیس کے تبادلے اپنی جگہ مگر دھاندلی کے اصل ذمہ دار کوئی اور!!
جمعہ 29 جون 2018
-
پولیس اصلاحات ۔ نئی وردی بدتمیز اہلکاروں کے لئے خطرہ بن گئی
اتوار 9 اپریل 2017
سید بدر سعید کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.