پولیس کے تبادلے اپنی جگہ مگر دھاندلی کے اصل ذمہ دار کوئی اور!!

جمعہ 29 جون 2018

Syed Badar Saeed

سید بدر سعید

ہمارے یہاں سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی جانب سے اپنی شکست کا یقین ہونے کے بعد مختلف لوگوں پر دھاندلی کا الزام لگایا جاتا ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ ہم حقائق قبول کرنے اور اپنی کوتاہیاں تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے ۔ جو امیدوار الیکشن جیت جاتے ہیں ان کے نزدیک الیکشن شفاف ہوتا ہے لیکن ہارنے والوں کا اس بات پر اتفاق ہو جاتا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے ۔

یہ الزامات ایسے الیکشن میں لگائے جاتے ہیں جس میں ووٹر کے علاوہ کسی کو یہ علم نہیں ہوتا کہ اس نے کس امیدوار کو ووٹ دیا ہے ۔ عوامی صورت حال یہ ہے کہ ووٹرز کی اکثریت روایتی رواداری یاعلاقے میں سبھی سے اچھا تعلق برقرار رکھنے کے لئے سبھی امیدواروں کو ووٹ کا یقین دلا دیتے ہیں ۔ ڈور ٹو ڈور کمپین میں بہت کم لوگ ہیں جو کسی امیدوار کو انکار کرتے ہیں بلکہ تقریبا ہر دوسرا بندہ ہر امیدوار سے گلے ملتا ہے ، اس کے پوسٹر لیتا ہے اور پورے ایمان کے ساتھ اسے اپنے ووٹ اور کمپین کا یقین دلاتا ہے ۔

(جاری ہے)

کارنر میٹنگز اور جلسوں میں محلے کے وہ لوگ بھی” رونق میلہ “ دیکھنے پہنچ جاتے ہیں جنہوں نے اس امیدوار کو ووٹ نہیں دینا ہوتا ۔ یہ ہماری مجموعی منافقت ہے ۔ ان حالات میں ہر امیدوار ہی یہ طے کر لیتا ہے کہ عوام کی اکثریت اس کے ساتھ ہے اور اسے ہرانا ناممکن ہو چکا ہے جو کہ حقیقت پسندانہ رائے ہرگز نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ جو امیدوار ہارنے لگتے ہیں وہ اپنی ہار کا الزام مختلف عناصر پر لگا دیتے ہیں ۔


2013 کے انتخابات کے بعد دھاندلی ، 35 پنکچر اور چار حلقوں کے نام پر جو کچھ ہوا اس کے بعد یہ بہترین فیصلہ تھا کہ اس بار انتخابات سے قبل انتظامی عہدے داروں کے بڑے پیمانے پر تبادلے کر دیئے جائیں ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پہلے جو انتظامی افسران کام کر رہے تھے وہ سب کرپٹ یا سیاست زدہ تھے بلکہ یہ عمل انتخابات کو اعتراضات سے بچانے ایک کوشش تھی ۔

اس سلسلے میں پہلے مرحلے میں چیف سیکرٹریز اور آئی جیز تبدیل کئے گئے ۔ آئی جی پنجاب نے اپنی تعیناتی کے فورا بعد ہی سب سے پہلے ایڈیشنل آئی جیز اور ڈی آئی جیز سمیت پنجاب کے آر پی اوز اور ڈی پی اوز کے تبادلے کئے ۔ ان میں سے متعدد افسران کو وفاق اور دیگر صوبوں میں بھی بھیجا گیا اور دیگر کو بھی ان کے موجودہ ڈسٹرکٹ اور ریجن سے تبدیل کر دیا گیا ۔

اس کے بعد اگلے مرحلے میں پنجاب کے تقریبا ایک ہزار کے لگ بھگ ایس ایچ اوز کو بھی دوسرے تھانوں میں ہی نہیں بلکہ دوسرے ریجنز میں ٹرانسفر کر دیا گیا ۔ یہ داستان یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر سید کلیم امام نے شروع میں ہی بتا دیا تھا کہ ڈی ایس پیز ، سب انسپکٹروں اور تھانہ محررزکے بھی اسی طرح تبادلے کئے جائیں گے ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فورس کے سربراہ کے طور پر آئی جی پنجاب اپنی فورس پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ کسی بھی فورس کا سربراہ اپنی ہی فورس پر عدم اعتماد کا اظہار کرے اور پھر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے ۔

آئی جی پنجاب نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پہلے دن یہ واضح کیا تھا کہ وہ پنجاب پولیس کے اہلکاروں اور افسروں کو میرٹ پر ترقی دیں گے اور وہ مسائل حل کریں گے جن کی وجہ سے ترقیاں رکنے لگتی ہیں، اسی طرح انہوں نے سینئر پولیس افسران کے ساتھ پہلی میٹنگ میں ہی یہ ہدایات بھی جاری کی تھیں کہ افسران اپنے ماتحت اہلکاروں کے ساتھ نرم رویہ اختیار کریں ۔

ان کی میڈیاٹاک بتاتی ہیں کہ آئی جی پنجاب فورس کا خیال رکھنے ، اس کے مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ اہلکاروں کا مورال بلند رکھنے کے لئے بھی متحرک ہیں ۔ دوسری جانب پولیس فورس کو متنازعہ ہونے سے بچانا بھی آئی جی کی ذمہ داری ہے جس کے لئے ان کے احکامات پر اس قدر بڑے پیمانے پر تبادلے کئے گئے ہیں کہ اب پولیس فورس پر کسی قسم کی دھاندلی کا حصہ بننے کا الزام نہیں لگ سکتا ۔


آئی جی پنجاب نے یقینا پولیس کو متنازعہ ہونے سے بچا لیا ہے لیکن یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہو جاتی ۔ جو لوگ ہر بات میں پولیس کو الزام دیتے ہیں اور انتخابات میں بھی دھاندلی کا الزام پولیس پر لگا دیتے ہیں ان کو شاید یہ علم ہی نہیں کہ پولیس کا پولنگ اسٹیشن اور پولنگ کے عمل میں کوئی کردار نہیں ہوتا ۔ پولیس پولنگ اسٹیشن کو سکیورٹی مہیا کرتی ہے اور اس وقت تک پولنگ اسٹیشن میں داخل نہیں ہو سکتی جب تک پریزائیڈنگ آفیسر کسی جرم کی شکایت کر کے پولیس کو اندر نہ بلائے ۔

آپ نے آج تک ٹھپے لگانے کی جتنی ویڈیوز یا تصاویر دیکھی ہیں ان میں کوئی تصویر کسی پولیس اہلکار کی نہیں ہے ۔ پولیس کا المیہ یہ بھی ہے کہ ہر کیس میں کم از کم ایک پارٹی جوکہ ملزم پارٹی بھی ہو سکتی ہے ، پولیس پر الزام لگا کر اپنا دفاع کرتی ہے ۔یہ کلچر اتنا مضبوط ہو گیا کہ جس کا پولیس سے کبھی واسطہ نہیں پڑا وہ بھی پولیس پر الزام دھر دیتا ہے ۔

اب بھی سیاسی جماعتوں اور لوگوں کے غیر ذمہ دارانہ بیانات اور رائے کی وجہ سے پنجاب میں تقریبا ایک ہزار انسپکٹروں کا دیگر ریجنز میں تبادلہ ہو چکا ہے ۔ ایک انسپکٹر کی تنخواہ سنیارٹی کے لحاظ سے 35 ہزار سے لگ بھگ65 ہزار کے قریب ہوتی ہے ۔ یہ لوگ دیگر ریجنز میں چلے تو گئے ہیں لیکن وہاں انہیں پہلا مسئلہ رہائش کا درپیش ہے ۔سوال یہ ہے کہ کرایہ کی رہائش ، کھانے اور دیگر اخراجات کے بعد کسی بھی ایماندار انسپکٹر کے پاس اتنے پیسے کہاں بچیں گے کہ گھر بیوی بچوں کو بھی بھجوا سکے؟ یہ معاشرے کا پولیس کے ساتھ اس ظالمانہ رویہ کی معمولی سی عکاسی ہے جس کی وجہ ہم خود ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ دھاندلی کے اصل ذمہ دار تو پولنگ اسٹیشن کے اندر کام کرنے والا وہ عملہ ہے جو پریزائیڈنگ اور ریٹرنگ افسر کے طور پر کام کرتا ہے ۔ ان میں عموما اساتذہ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں ۔ آپ کو ابھی تک کہیں بھی اساتذہ کے تبادلوں کی کوئی خبر نہیں ملی اس کے باوجود اگر آپ انتخابات میں دھاندلی کی شکایت کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے آپ دھاندلی ختم کروانے میں سنجیدہ ہی نہیں تھے بلکہ ان عناصر پر الزامات لگا کر پوائنٹ سکورنگ کر رہے تھے جن کا پولنگ اور دھاندلی میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔

آئی جی پنجاب اور الیکشن کمیشن نے انتہائی مہارت سے اس بار انتخابات میں پنجاب پولیس کو متنازعہ ہونے سے بچا لیا ہے ۔ ان اقدامات کے بعد کوئی پولیس پر دھاندلی کا الزام نہیں لگا سکتا کیونکہ یہ سامنے کی بات ہے کہ انتخابات کے بعد ان پولیس افسران کا ان کے اپنے ریجنز میں تبادلہ ہو جائے گا۔اب سوال یہ ہے کہ اگر اس کے باوجود سیاسی جماعتیں یا ورکرز انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں تو پھر یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ پولیس پر ملبہ ڈالا جاتا رہا ہے اور اصل ذمہ داران کو نظر انداز کر دیا جاتا تھا کیونکہ سبھی نے انہیں اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کا سوچا ہوتا ہے۔

سچ یہ ہے کہ پولیس میں اتنی بڑی تعداد میں تبادلوں کے باوجود پولنگ اسٹیشن کے اندر ”فنکاری “ دکھانے والے اصل ”فنکار“ تاحال اپنی اپنی جگہ موجود ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :